سی پیک منصوبہ سیاسی وفاداریوں سے بالاتر ہونا چاہئے


عبدالسلام

\"abdus-salam\"پاکستان کے لئے تاریخی دن، وزیراعظم نواز شریف کے باضابطہ افتتاح سے گوادر بندر گاہ فعال ہوگئی ہے اور پاک چین اقتصادی راہدری منصوبے کے تحت چین کا پہلا تجارتی جہاز گوادر بندر گاہ سے روانہ ہو گیا ہے۔ سی پیک منصوبے کے تحت 300 کنٹینرز پر مشتمل پہلا میگا پائلٹ ٹریڈ کارگو گوادر سے روانہ ہوا۔ چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت گوادر کی بندرگاہ سے تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ایک سنگ میل ہے۔ اس موقع پر ایک پر وقار افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ جس میں وزیراعظم محمد نوازشریف، مولانا فضل الرحمان، وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری، صوبے کے گورنر محمد خان اچکزئی، چینی سفیر سن وی ڈونگ، تینوں مسلح افواج کے سربراہان، ڈی جی ایف ڈبلیو او، جوائنٹ چیف آف آرمی سٹاف، چینی کمپنی کے عہدیدار سائنو ٹرانس جب کہ پاکستان میں تعینات مختلف ممالک کے سفیروں سمیت دیگر افراد نے شرکت کی۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس تقریب میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور باقی تینوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی وزیراعظم کے پہلو میں کھڑے نظر آتے اور اس عظیم قومی منصوبے کے افتتاح کے موقع پر ہم ایک قوم بن کر دکھاتے۔ لیکن حکمران جماعت نے اس موقع پر بھی بڑے پن کا مظاہرہ نہیں کیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ن لیگ نے سوشل میڈیا پر اس عظیم قومی منصوبے کو اپنی کارکردگی بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ جس کے جواب میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اسے آصف علی زرداری کا منصوبہ بنایا جب کہ کچھ نا معلوم افراد نے اسے پرویز مشرف کا وژن قرار دیا۔ اور یوں اس موقع پر ہم پھر ایک نالائق قوم کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش ہوئے۔ سی پیک جیسے قومی منصوبے سیاست اور سیاسی تعلق سے بالاتر ہوتے ہیں۔ اور ایسے مواقع پر سیاسی پارٹیاں ملک کی بات کرتی ہے نہ کہ اپنی اپنی سیاسی دکان چمکانے کی۔ اس سلسلے میں بلا شبہ حکمران جماعت کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ حکمران جماعت کو مغربی روٹ پر صوبہ خیبر پختونخوا کے تحفظات بھی جلد از جلد دور کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ یہ منصوبہ متنازع نہ ہو۔

سی پیک ایک قومی منصوبہ ہے اور اس منصوبے سے پاکستان جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور چین کے درمیان اہم تجارتی مرکز بنے گا، جس کا فائدہ یقیناً پاکستان اور پاکستانی عوام کو پہنچے گا۔ چین سے گوادر تک تجارتی قافلے کا سفر ہی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ثمرات سے پورا پاکستان مستفید ہوگا۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے لئے پاکستان پہنچنے والا پہلا چینی تجارتی قافلہ خنجراب کے راستے پاکستان میں داخل ہوا، چینی تجارتی قافلے کے ساتھ خنجراب سے پاکستانی تجارتی قافلہ بھی شامل ہوا جس کے بعد 150 ٹرکوں پر مشتمل تجارتی قافلہ گوادر کے لئے روانہ ہوا۔ چینی تجارتی قافلہ خنجراب سے براستہ شاہراہ قراقرم سے ہوتا ہوا جنوبی اٹک سے پنجاب کے علاقے سیالکوٹ پہنچا۔ جہاں مزید 50 ٹرکیں اور 100 کنٹینرز تجارتی قافلے میں شامل ہوئے، تجارتی قافلہ کوہاٹ سے ہوتا ہوا ڈیرہ اسماعیل خان اور پھر بلوچستان کے علاقے ژوب میں داخل ہوا۔ گوادر پورٹ سے تجارتی سرگرمیاں شروع کرنے کے لئے لاہور سے بھی 45 ٹرکوں اور 90 کنٹینرز کا قافلہ سکھر سے براستہ سبی اور مستونگ سے کوئٹہ پہنچا، اس قافلے نے خنجراب سے داخل ہونے والے چینی قافلے میں شرکت کی۔ تجارتی قافلہ کوئٹہ سے براستہ این 85 ہائی وے قلات اور پنجگور میں داخل ہوا، خوشاب پہنچنے کے بعد قافلہ ایم 8 ہائی وے کے ذریعے تربت میں داخل ہوا جہاں سے قافلہ بعد میں مکران کوسٹل ہائی وے پر پہنچا، جس کے بعد تجارتی قافلہ اپنی آخری منزل گوادر پورٹ پہنچا۔ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے مطابق دو بحری جہاز الحسین زنزیبار اور کوسکو ویلنگٹن بنگلہ دیش، سری لنکا اور متحدہ عرب امارات کے سفر کے بعد یورپی یونین کی جانب جائیں گے۔ گوادر پورٹ کے ذریعے پہلی بار چینی مصنوعات مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے ممالک کو برآمد کی جا رہی ہیں۔ یوں یہ قافلہ چاروں صوبوں سے ہوتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اس لحاظ سے چاروں صوبوں کے عوام کے جذبات، احساسات اور توقعات اس منصوبے سے جڑے ہوئے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمرانوں کو اپنی روایتی سیاست سے بالاتر ہو کر سوچنا ہوگا۔ اور پوری کشادہ دلی سے قوم کو یکجا کر کے اس منصوبے کے پشت پر کھڑا کرنا ہوگا۔ تب ہی ہم اس منصوبے کے راستے میں حائل اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments