سید معظم علی: اک اور خواب گزیدہ رخصت ہوا


معظم سے میری پہلی ملاقات ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کراچی کے دفتر میں ہوئی۔ یوں تو اس دفتر میں بہت سے کوآرڈینیٹر آئے اور گئے لیکن جتنی سنجیدگی اور ذمہ داری سے وہ کام کرتے تھے، شاید ہی کسی نے کیا ہو، وہ تو جب ہماری دوستی ہوئی اور چرچ ورلڈ سروس پاکستان – افغانستان میں ہم نے اکٹھے کام کیا تو پتا چلا کہ دوستوں کے درمیان ان سے زیادہ غیر سنجیدہ، ہنسوڑ، چٹکلے باز اور لا ابالی شاید ہی کوئی اور ہو۔ ہمارے سارے کولیگز کم عمر اور نوجوان تھے اور معظم ان سب کے دوست تھے۔

ہمارا ان کا تعلق دوسرا تھا، وہ بھی ہماری طرح نظریاتی بندے تھے اور پیپلز پارٹی کے جیالے رہے تھے اور وہ بھی اس زمانے میں جب بائیں بازو کے بڑے بڑے جغادری پیپلز پارٹی میں چلے گئے تھے اور معظم جیسے نوجوانوں کو اسٹڈی سرکلز کے ذریعے نظریاتی تعلیم دیتے تھے۔ معظم سمیت کچھ جیالے جوش جنوں میں بسیں وغیرہ بھی جلا دیا کرتے تھے۔ اور پھر ان میں سے کچھ بیرون ملک نکل گئے تھے۔ معظم کو بھی سعودی عرب میں ایک امریکی کمپنی میں ملازمت مل گئی اور وہ بھی سیاست کے خارزار سے نکل گئے۔

چند سال قبل ان کی زندگی میں ایک اور خاتون آئیں اور ہم سب کو یوں لگا کہ کہ قدرت نے ان کے دکھوں کا مداوی ٰ کر دیا ہے۔ میں انہیں اکثر کہتی تھی کہ آپ دونوں کو دیکھ کر مجھے کرشن چندر اور سلمیٰ صدیقی یاد آتے ہیں۔ کرشن چندر سے تو ملاقات کا شرف ہمیں حاصل نہ ہو پایا تھا مگر ان کی تحریروں کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ ایک مرتبہ بہت پرانی بات ہے۔ سلمیٰ صدیقی جب پاکستان آئی ہوئی تھیں تو میں نے ان کا انٹرویو کیا تھا۔ کرشن چندر کی محبت میں ڈوبی ہوئی سلمیٰ نے جس طرح آہیں بھرتے ہوئے کرشن چندر کی باتیں ہمیں سنائی تھیں، ان کو یاد کر کے میں آج بھی دکھی ہو جاتی ہوں۔

معظم کے انتقال کی خبر سن کر میں نے ان کی بیگم نور کو فون کیا تو وہ بھی اس طرح مجھے معظم کی باتیں سنانے لگیں۔ ستم ظریفی تو دیکھئے نور کورونا پازیٹیو ہیں اور اسپتال میں پڑی ہوئی ہیں۔ ان کو اسپتال میں داخل کرانے کے چند دن بعد معظم کی طبعیت زیادہ خراب ہوئی تو گھر والے انہیں جناح ہسپتال لے گئے، گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور کورونا ٹیسٹ بھی پازیٹو نکلا اور آج صبح ان کے جانے کی خبر ملی۔ ہنسی مذاق کی جتنی انہیں عادت تھی مجھے یقین ہے کہ فرشتہ اجل کو بھی جان دینے سے پہلے انہوں نے کوئی لطیفہ سنایا ہو گا۔

کرشن چندر کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ انہیں بہت شوق تھا اپنے شاعر ادیب دوستوں کی مدارات کرنے کا لیکن ان کی پہلی بیگم کو ان کے دوست ایک آنکھ نہیں بھاتے تھے اور پھر جب انہیں سلمیٰ کی شکل میں ایسی رفیق ملی جو ان کے مزاج کو سمجھتی تھیں اور اور ان کے شاعر اور ادیب دوستوں کی قدر دان تھیں تو کرشن چندر چل بسے۔ معظم اور نور کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ہماری نسل کے بہت سے سیاسی ایکٹوسٹس اپنی تعلیم بی اے کے بعد جاری نہیں رکھ سکے تھے۔

نور کے مل جانے کے بعد معظم نے اپنی یہ حسرت بھی پوری کی۔ دونوں نے مل کر پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے ایم اے سیاسیات کا امتحان دیا اور کامیابی حاصل کی۔ معظم کھانے پینے کے بھی بہت شوقین تھے اور نور ان کی ہر فرمائش پوری کرتی تھیں۔ نور نے ایک مرتبہ بتایا تھا کہ ایک روز رات کو سوتے سے اٹھ بیٹھے اور کہنے لگے کہ کچھ میٹھا کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔ نور اسی وقت اٹھ کھڑی ہوئیں اور کچن میں جا کر سوئیاں بنانے لگیں۔ معظم نور کے کھانوں کی بہت تعریف کرتے تھے اور مجھے، واحد اور رینوکا کو اصرار کر کے دعوت پر بلاتے تھے۔

معظم ایک حساس، زود رنج اور خودار شخص تھے، ہماری طرح روپے پیسے کی انہوں نے بھی کبھی پروا نہیں کی، سب کچھ پہلی خاتون کے سپرد کر کے ہاتھ جھاڑ کے نکل آئے۔ مجھے لگتا ہے ساٹھ اور ستر کی دہائی کے لیفٹسٹس سب ایک جیسے ہوتے تھے، دوسروں کے بارے میں سوچنے والے، میں نور سے کہا کرتی تھی ’مجھے لگتا ہے کہ معظم اور میں پچھلے جنم میں بہن بھائی رہے ہوں گے کیونکہ ہماری سوچ یکساں تھی لیکن جب وہ مذاق کرتے ہوئے پھکڑ پن پر اتر آتے تھے تو مجھ سے بہت ڈانٹ کھاتے تھے۔ میرے دوستوں میں شاید ہی کسی نے معظم سے زیادہ مجھ سے ڈانٹ کھائی ہو لیکن وہ برا نہیں مناتے تھے۔

تو بس یوں ہے کہ ایک اور دوست رخصت ہوا جس نے جوانی میں انقلاب کے خواب دیکھے تھے، اسی خواب کے تعاقب میں کبھی قومی متحدہ محاذ میں شامل رہے، کبھی متحدہ مزدور فیڈریشن کے ساتھ کام کیا اور بعد میں مالی دباؤ کے تحت بائیں بازو کے چند دیگر کارکنوں کی طرح این جی اوز میں آگئے۔ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments