میراثی کا انصاف


بنارس ہندؤں کا مقدس ترین شہر ہے۔ پڑھے لکھے مسلمان اسے بنارس اور عقیدت مند ہندو ’کاشی‘ کے نام سے پکارتے چلے آئے ہیں۔ تقیسم ہند کے بعد سرکار نے اسے ورناسی کا نام دیا۔ یہ ہر دل عزیز شہر ہے۔ پیار سے لوگوں نے کئی نام رکھے اور نفرت میں کئی بدلے۔

الہ آباد کے مقام پر گنگا اور جمنا بغلگیر ہوکر بنارس کی طرف ہو لیتی ہیں، بنارس پہنچ کے گنگا انگڑائی لیتی ہے تو دریا کی ہلالی شکل بنتی ہے۔ شہر دریا کے شمال میں آباد ہے اور نجانے کتنی صدیوں سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے۔ ہندؤں کے مطابق یہ شہر شیو جی نے آباد کیا۔ فرنگی مورخین لکھتے ہیں کہ اگر یہ پتا چل جائے کہ بنارس کب اور کس نے آباد کیا تو وہ یہ بھی معلوم کر لیں گے کہ کوہ ہمالیہ کب اور کس نے کھڑا کیا۔

یہاں ملک بھر سے ہندو لوگ اپنے مردے جلانے آتے ہیں۔ ان کا عقیدہ یہی ہے کہ ورناسی کے آسی گھاٹ پے جلائی گئی چتا زندگی اور موت کے دائروں سے نکل کر موکشا پا لیتی ہے۔ موکشا ایک ابدی کیفیت ہے۔ جیسا کہ اسلام میں مرنے کے بعد ابدی زندگی کا عقیدہ ہے۔

سینکڑوں برس قبل کسی اچھوت نے یاں مذہب بدھ اختیار کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر بدھ بن گیا۔ مورتیاں گنگا کی ریت ہوئیں۔ وید کی جگہ ترپتاکا آ گئی۔ بھجن خاموش ہوگئے، اشلوک بجنے لگے۔ لیکن بنارس پھر بدلا، ویساک گیا دیوالی آئی۔ چند شبوں کو برات ملی، کچھ آوازیں اذان ہوئیں۔ فقیر وں کو ولایت عطا ہوئی۔ پیروں نے طریقت پائی۔ راجے بنے مہارجے۔ ان سب کے بیچ دنگے، لڑائی، فساد بھی برابر بپا رہا۔ آج بھی جاری ہے۔ لیکن ایک زمانے میں ایسا قحط الرجال آیا کہ پورے شہر میں بادشاہت کے لئے کسی بھی معزز گھرانے میں ایک بھی موزوں فرد نہ بچا۔

اس گمبھیر صورت حال میں رام پور کے ایک میراثی نے اعلان کیا کہ بنارس والو! تمہیں ترقی اور دولت تو کوئی بھی دے سکتا ہے لیکن اگر اسے موقع دیا جائے تو وہ لوگوں کو دن غروب ہونے سے پہلے سستا اور معیاری انصاف مہیا کرے گا۔ میراثی سمجھ کر لوگ اسے نظر انداز کر تے رہے۔ لیکن شہر کے کچھ با اثر لوگ جو میراثی کی استطاعت اور تابعداری سے واقف تھے ایک دن جیسے تیسے اسے تخت پے بٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔

میراثی بادشاہ روزانہ کھلی کچہری لگاتا۔ ایک دن قتل کا مقدمہ آیا۔ ایک شہری نے شکایت کی کہ میرا بھائی فلاں شخص کے گھر چوری کرنے گیا۔ دیوار پھلانگتے ہوئے اینٹ اکھڑی، ہاتھ پھسلا، نیچے گرا اور دم توڑ گیا۔ لہذا مالک مکان کو پھانسی کی سزا دی جائے۔

مالک مکان کو حاضر دفتر کیا گیا۔ اس نے دہائی دی، حضور میرا کیا قصور، دیوار میری تھی لیکن بنائی تو راج گیر (مستری) نے ہے۔ لہذا معمار ذمہ دار ہے۔ بادشاہ سلامت نے مستری کو پیش کرنے کا حکم صادر کیا۔ مستری بھی گڑگڑا اٹھا کہ حضور جو اینٹیں اور چونا مصالحہ مزدور نے بنایا وہ لگا دیا، دیوار کی کمزوری میں بے چارے مستری کا کیا دوش، بلکہ مزدور اس سارے مسلے کی جڑ ہے۔ مزدور کی باری آئی تو اس نے بھی اپنی دلیل پیش کی کہ جب میں سیمنٹ مصالحہ بنا رہا تھا تو میرے سامنے سے شوخ رنگ کے جوڑے میں ملبوس ایک دوشیزہ گزری۔ دھیان چوک گیا۔ قصور اس چنچل کا ہے۔

سب لوگوں کو انتظار تھا کہ اب بادشاہ اس شوخ رنگ کو بلائے۔ میراثی کے انصاف پے سب کو یقین تھا۔ وہی ہوا۔ کوئی ررعایت نہ برتی گئی، اس عورت کو بھی سر عدالت لایا گیا۔ وہ بولی ’عالم پناہ لباس کو رنگا کس نے، اس نے صرف پہنا ہے۔ رنگ ساز قصور وار ہے۔ رنگ ساز کی باری بھی آ گئی۔ اس نے اپنا مدعا رنگ بنانے والے پے ڈال دیا۔ نہ رنگ بنتا، نہ معاملہ خراب ہوتا۔

عالی جاہ نے رنگ بنانے والے سے بھی جواب الموجوب طلب کر لیا۔ رنگ بنانے والے نے کہاکہ رنگ پتھروں سے بنا، پتھر خدا نے بنائے۔

حاضرین مجلس کے جم غفیر میں سناٹا چھا گیا کہ اب بادشاہ کیا کرے گا۔ بات خدا تک جا پہنچی ہے۔ بادشاہ نے بغیر کسی توقف کے رنگ بنانے والے کو پھانسی کے تخت پے لٹکانے کا فیصلہ سنا دیا۔ بھاری بھر کم جلاد بھرے مجمع کے بیچ ایٹریاں رگڑتے، دہایاں دیتے رنگ بنانے والے کو دار تک گھسیٹ کر لے گئے۔ دو نے اسے گردن تک کالا کپڑا پہنایا، ایک پھندہ لے کر آیا، دار کی چرخی گھمانے والا بھی اشارے کامنتظر تھا۔ اسی اثنا میں جلادوں نے بادشاہ کو مطلع کیا کہ اس رنگ بنانے والے کی گردن چھوٹی ہے، پھندہ کھلا ہے۔ لہذا اس پھندے سے اسے پھانسی نہیں دی جا سکتی۔ نیا اور تنگ پھندا درکار ہے جو کہ دو دن تک تیار ہو گا۔ لہذا فیصلے پے عملدرآمد موخر کیا جاوے۔

بادشاہ نے وزیر کی طرف دیکھا، جو فوراً جھکا اور عرض کرنے لگا کہ عالی جاہ معاملہ غروب آفتاب کے قریب ہے، آپ نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ روٹی کپڑا اور مکان ملے نہ ملے انصاف دن غروب ہونے سے پہلے ملے گا۔ بادشاہ جلال میں آ گیا اور جلادوں کو نیا حکم صادر فرمایا کہ رنگ بنانے والے کو چچھوڑو، مجمع میں موجود جس تماش بین کی گردن میں پھندہ پورا آ جائے اسے سورج ڈوبنے سے پہلے لٹکا دو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments