عمران خان کی تبدیلی اور سائیں مرنا کا اکتارہ   


بحیرہ احمر کے کنارے عقبیٰ کے مقام پر شاہی محل میں امریکی خاتون اول ہیلری کلنٹن کی سالگرہ منائی جا رہی تھی۔ وہ ان دنوں وہاں سرکاری دورے پر تھیں۔ جب اردن کی ملکہ نور کیک پر لگی موم بتیوں کو پھونکوں سے بجھانے میں ناکام رہیں تو اردن کے شاہ حسین نے ان کو بجھانے میں کا ساتھ دینا چاہا۔ مگر وہ بھی ناکام رہے۔ہیلری کلنٹن نے اپنی یاد داشتوں میں لکھا کہ شاہ حسین کی سانس پھول گئی اور آنکھیں نمی سی جگمگانے لگیں۔ اسی عالم میں بولے۔ کبھی کبھی بادشاہوں کا حکم بھی پورا نہیں ہوتا۔

ہمارے جمہوری تماشے میں جلال بادشاہی کا رنگ نمایاں ہے۔ پہلے پہل ریاست مدینہ میں سادگی کے چلن کا بہت پرچار ہوا۔ وزیر اعظم ہاﺅس کو یونیورسٹی بنانے اور لاہور گورنر ہاﺅس کی دیواریں گرانے کی باتوں کا بہت شور شرابہ تھا۔ کچھ وجوہات ہوں گی، وزیر اعظم کی یہ خواہش یا حکم پورا نہیں ہوا۔ اب لوگوں کو بھی یہ سب کچھ بھول گیا ہے اور عمران خان کو بھی۔

سائیں مرنا اکتارا بجایا کرتے تھے۔ ایک تار والے اس ساز نے سائیں مرنا کی انگلیوں میں نئی زندگی پائی۔ وہ اسے موسیقی کی کسی گرائمر کی رو سے نہیں بجاتے تھے۔ چند دھنیں انہوں نے خود ہی طے کر رکھی تھیں۔ یہ دھنیں خود ان کے اپنے موڈ کا اظہار تھیں۔ اس شخص نے موسیقی کی گرائمر کا ٹنٹنا سرے سے پالا ہی نہیں تھا۔ جب ایک مرتبہ سائیں مرنا سے پوچھا گیا کہ آپ ایک تار پر کیا بجاتے ہیں تو انہوں نے حیرت سے اپنا منہ اوپر اٹھایا اور بولے۔ ”میں تو کچھ نہیں بجاتا۔ بس اس تار کو سمجھا رہا ہوں لیکن یہ سمجھتا ہی نہیں“۔ جو کچھ وہ اکتارے کے ایک تار کو سمجھانا چاہتے تھے کیا وہ خود بھی سمجھتے تھے؟ یہ سوال سائیں مرنا سے پوچھا ہی نہیں گیا۔ سو وہ اس کا جواب کیا دیتے۔

ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں عام طور پر منشور کی بجائے کسی ایک فرد کے گرد گھومتی ہیں۔ تحریک انصاف خالصتاً اکتارا پارٹی ہے۔ یہ عمران خان سے شروع ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ چلتی جا رہی ہے۔ عمران خان کی من مرضی کا نام تحریک انصاف ہے۔ معراج خاں، جسٹس وجیہہ الدین اور جاوید ہاشمی جیسے قد آو ر لوگ اسی لئے اس جماعت سے کنارہ کش ہو گئے کہ یہاں ان کی کسی داد فریاد کی شنوائی نہ تھی۔ تحریک انصاف کے اکتارے کی تار تبدیلی کی تار ہے۔ 2014ء میں تحریک انصاف کا لانگ مارچ کا قافلہ شب بسری کیلئے گوجرانوالہ سپر ایشیا ہاﺅس میں رکا۔ اگلی صبح دن چڑھے انہوں نے اسلام آباد کا قصد کیا۔ سپر ایشیا ہاﺅس کے وسیع و عریض لان میں عمران خان کالم نگار کو گاڑی میں بیٹھے دکھائی دیئے۔ آگے بڑھ کر اشاروں کی زبان میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھے عمران خان سے گاڑی کے دروازے کا شیشہ نیچے سرکانے کو کہا۔عمران خان نے گاڑی کا دروازہ کھولتے اور نیچے اترتے ہوئے بتایا۔ گاڑی بلٹ پروف ہے اسلئے اس کا شیشہ نیچے نہیں کیا جا سکتا۔ ان دنوں عمران خان ابھی اقتدار کی گاڑی پر سوار نہیں ہوئے تھے۔ سو انہیں نیچے اترنا مشکل نہیں تھا۔ کالم نگار نے عرض کی۔ ”تحریک انصاف کی ساری رام کہانی مختصر لفظوں میں یوں کہی جا سکتی ہے کہ ہم نے تبدیلی کیلئے ووٹ ڈالا لیکن ہمارا ووٹ ہی تبدیل کر دیا گیا“۔ یہ ریفری کی انگلی اٹھنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ پھر دھرنا بھی ہوا اور طویل عدالتی جنگ بھی۔

2018ء تک ایک لمبی کہانی ہے تبدیلی کی اور تبدیلی والوں کی۔ پھر یوں ہوا کہ 2018ء میں تبدیلی والے برسر اقتدار ضرور آگئے لیکن تبدیلی کہیں دکھائی نہ دی۔ وہی اک بے ڈھنگی چال جو پہلے تھی سو اب بھی رہی۔ ہمارے وفاقی بجٹ کے مطابق ہمارے اخراجات 7100 ارب ہیں اور متوقع آمدنی 5400 ارب۔ سو مرزا غالب کی طرح ہمارا سارا گزر گزران بھی مہاجن سے ہے۔ مرزا غالب قرض کی مَے پیتے لیکن سمجھتے تھے کہ یہ فاقہ مستی اک دن رنگ ضرور لائے گی۔ ہم غالباً ایسے خطر اندیشے سے بھی بے نیاز ہیں۔ پھر تبدیلی والوں کے ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے آوازے اب کرونا میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

پچاس لاکھ گھروں کا ذکر آیا۔ آج پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ یہی رہائش کا مسئلہ ہے۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں رہائشی سہولتوں میں قلت کے سبب ایک کمرے میں 3.5 فیصد افراد رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شرح 1.1 فیصد ہے۔ قبرستانوں میں بھی یہی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ کالم نگار نے پچھلے دنوں ”کرایہ دار مرنے سے باز رہیں“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا۔ اس میں بنیادی بات یہ بتائی گئی تھی کہ آپ جیتے جی کسی کرائے کے مکان میں رو دھو کر زندگی بسر کر لیں گے لیکن اگر آپ کرایہ دا رہیں تو آپ کا مردہ ضرور خرا ب ہو گا۔ اسے دفن کیلئے کہیں جگہ نہیں ملے گی۔ ہاﺅسنگ سوسائیٹیز میں دفن کیلئے کرایہ نامہ نہیں، ملکیت کے کاغذات دیکھے جاتے ہیں۔ پھر بھرا پیٹ بھوکے پیٹ کے مسائل کیسے سمجھ سکتا ہے؟

برسوں پہلے ملتان ”نوائے وقت“ کے دفتر کی افتتاحی تقریب تھی۔ ہمارے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سابق صدر پاکستان نے اپنے صدارتی خطبہ میں قوم کو خبردار کر دیا تھا کہ جس طرح زمین مڈل کلاس طبقے کے پاﺅں کے نیچے سے سرکائی جارہی ہے یہ ملک میں طبقاتی جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ اب عمران خان نے ملک میں رہائشی مسئلے کو ایک مسئلہ سمجھتے ہوئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ دس لاکھ گھر ہر سال بنائے جائیں گے۔ یہ بات چھوڑیں کہ دو برسوں میں کتنے گھر بنے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بے گھری کے ساتھ بے زری بھی ایک مسئلہ ہے۔ یہ غریب بیچارے بے گھر لوگ مکان کی قسطیں بھی ادا نہیں کر سکتے۔ اب کیا یہ تبدیلی ہے؟ اگر یہی تبدیلی ہے تو انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں۔ اب اللہ جانے عمران خان تبدیلی کا کیا مطلب سمجھتے ہیں۔ یا پھر وہ بھی سائیں مرنا کی طرح ہی تبدیلی کو کچھ سمجھا رہے ہیں جو وہ سمجھتی ہی نہیں۔ چھوڑیئے ! ساری خواہشیں تو بادشاہوں کی بھی پوری نہیں ہوتی۔ سبھی احکام ان کے بھی نہیں مانے جاتے۔ پھر ہم آپ اور عمران خان کس کھیت کی مولی ہیں۔ رشید امجد کے افسانہ ”نوحہ کے گرد لپٹا موسم “ سے ایک جملے سے کالم تمام کرتے ہیں۔ ”یہاں کوئی قانون نہیں، صرف دعا ہے۔ قبول ہو گئی تو ٹھیک ورنہ۔۔۔۔“۔ سو آپ بھی دعا کیجئے اور مجھے بھی اپنی دعاﺅں میں یاد رکھیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments