افغانستان میں امن کے امکانات روشن


افغانستان گزشتہ چار دہائیوں سے خانہ جنگی کے باعث تباہ حال ہوچکا ہے۔ 1979 میں سوویت یونین نے افغانستان پہ حملہ کر دیا اور قبضہ دس برس تک قائم رہا جس کو ختم کرنے میں اور سوویت یونین کی فوجوں کو پسپائی پہ مجبور کرنے میں افغان مجاہدین، امریکہ اور پاکستان کا بڑا کردار رہا۔ افسوس کہ سوویت یونین کی سرخ فوج کے انخلا کے بعد اسلامی ملکوں سے جو جہادی افغانستان آئے تھے ان میں سے کچھ نے اپنے وطن لوٹنے کی بجائے افغان سر زمین کو اپنا وطن بنالیا جبکہ خود مختلف افغان جنگجو اور متحارب گروہوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔

القاعدہ نامی تحریک نے اسلام دشمن عناصر کو اپنا ہدف بنانے کا فیصلہ کیا۔ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے شہر نیویارک میں جڑواں ٹریڈ ٹاور کی عمارتوں اور دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں عسکری ہیڈ کوارٹر پیٹنا گون سے کمرشل طیارے ٹکرا گئے جن کے نتیجے میں ہزاروں افراد جان بحق ہو گئے۔ ان حادثات کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی۔ دریں اثنا افغان خانہ جنگی کو ختم کرنے کی خاطر طالبان نامی گروہ کامیاب ہوا اور اپنے سربراہ ملا عمر کی قیادت میں افغانستان میں امن قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔

القاعدہ کے اپنے سربراہ اسامہ بن لادن اس وقت افغانستان میں مقیم تھے۔ امریکہ نے طالبان کو حکم دیا کہ اسامہ بن لادن کو ان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ نیویارک اور واشنگٹن پہ حملے کی وجہ سے انہیں خاطرخواہ سزا دی جاسکے۔ طالبان نے امریکہ سے درخواست کی کہ اسامہ بن لادن کے خلاف جو شواہد ہیں وہ ان کے حوالے کیے جائیں تاکہ ان کی روشنی میں اسامہ بن لادن پہ مقدمہ کا بل میں میں چلایا جاسکے۔ افسوس کہ امریکہ جو شدید غصے میں تھا، نے 2001 میں افغانستان پہ بھرپور حملہ کر دیا اور پہلے ہی سے جنگ اور خانہ جنگی سے شکستہ حال افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔

طالبان کو شکست ضرور ہوئی لیکن امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی طالبان کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ اسامہ بن لادن، ملاعمر اور ان کے ساتھیوں نے غاروں میں پناہ لے لی اور امریکی یلغار سے بچ گئے افغان طالبان آہستہ آہستہ اپنی قوت مدافعت میں اضافہ کرتے رہے اور اپنی گوریلا جنگ کی حکمت عملی سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ناک میں دم کرتے رہے۔

نیٹو افواج نے دسمبر 2019 میں اپنی فوجوں کا انخلا مکمل کر لیا لیکن 15,000 پہ مشتمل فوجی افغانستان میں برقرار رکھے ساتھ ہی افغان قومی فوج اور پولیس کی تربیت جاری رہی۔ تحریک طالبان نے افغانستان کے نصف سے زائد حصے پہ قبضہ کر لیا۔ امریکہ کی مدد سے پہلے حامد کرزئی نے حکومت کی پھر ڈاکٹر اشرف غنی افغان حکومت کے سربراہ ہیں گو ڈاکٹر عبداللہ ان کے مخالف ہیں لیکن فی الوقت حکومت میں ان کے شریک ہیں۔

امریکہ کی دیرینہ خواہش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو اور اس کی فوجیں وہاں سے مکمل طور پر انخلا حاصل کرسکیں۔ اس سلسلے میں وہ تحریک طالبان افغانستان سے امن مذاکرات کے لئے بھی تیار تھے۔ پاکستان نے امریکہ اور طالبان میں امن مذاکرات میں خاطرخواہ کردار ادا کیا گو اس سلسلے میں بہت سی رکاوٹیں پیش آئیں۔ پاکستان نے مری میں طالبان اور امریکی حکام میں مذاکرات کا ایک دور منعقد کرایا جس میں پاکستان اور چین مبصر کے طور پر شریک تھے۔

مذاکرات کا دوسرا دور جس دن شروع ہونا تھا اسی دن یہ خبر منظر عام پہ آ گئی کہ طالبان کے رہنما ملاعمر انتقال فرما چکے ہیں لیکن ان کی وفات کو پاکستان نے دو برس تک دبائے رکھا۔ مذاکرات ختم کروائے گئے۔ ملا عمر کی جانشین ملا منصور اختر مقرر ہوئے۔ انہیں پاکستان نے بمشکل مذاکرات پہ آمادہ کیا لیکن ایران سے واپسی کے سفر پہ ایران۔ پاکستان سرحد کے قریب امریکی ڈرون سے انہیں نشان بنایا گیا اور ہلاک کر دیا گیا۔ مذاکرات ایک مرتبہ پھر تعطل کا شکار ہو گئے۔

پاکستان نے اپنی کوششیں جاری رکھیں بالآخر اس برس کے اوائل میں قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکہ اور تحریک طالبان افغانستان میں امن معاہدہ طے پا گیا لیکن ابھی افغان حکومت اور طالبان میں امن مذاکرات ہونا باقی ہیں۔ افغان طالبان نے شرط عائد کر رکھی ہے کہ افغان حکومت جس کی تحویل میں 5000 طالبان قیدی ہیں انہیں رہا کیا جائے۔ افغان حکومت اس میں لیت و لعل کر رہی ہے۔ پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو کیونکہ پاکستان کے بیشتر ترقیاتی منصوبے مثلاًTAPI تاجکستان، افغانستان، بھارت گیس پائپ لائن کا سا 1000 CASA بجلی کا منصوبہ، چین، پاکستان اقتصادی راہداری سی پیک افغانستان میں امن سے منسوب ہیں۔

علاوہ ازیں تحریک طالبان پاکستان جس نے 2007 سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں کا بازار گرم کر رکھا تھا، 2014 کے پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب کے بعد افغانستان میں پناہ گزیں ہیں جہاں سے وہ گاہے، بگاہے پاکستان کی سرزمین پہ دہشت گرد حملے کراتے ہیں۔ سب سے خطرناک امر یہ ہے کہ بھارت کی بھرپور کوشش تھی کہ افغان سرزمین سے پاکستان پہ حملے کرائے جائیں را کے متعدد اراکین افغانستان میں فعال ہیں تاکہ پاکستان کو نقصان پہنچا سکیں۔

ماضی میں بھارتی حکومتوں نے افغان حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے پاکستان کے خلاف سازش کا جال پھیلایا۔ شکر ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت کو افغانستان میں امن مذاکرات سے دور رکھے ہوئے ہیں جس سے پاکستان کی راہ ہموار ہے لیکن یہ بھارت کو ناگوار گزر رہا ہے۔ ایک جانب وہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کو اکسا رہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف دہشت گرد حملے برقرار رکھیں دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ افغانستان میں دہشت گرد حملے کرا کے الزام پاکستان کے سر منڈھنے کی سازش میں ملوث ہیں۔

گزشتہ ہفتے پاک فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کابل کے دورے پہ تشریف لے گئے جہاں انہوں نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی سے بھی ملاقات کی اور ناظم الامور عبداللہ عبداللہ سے بھی دونوں کو پاکستان کی جانب سے پیغام تہنیت اور امن کی کوششوں میں مکمل حمایت کا یقین دلایا گیا۔ افغان طالبان بھی اپنے وطن میں امن قائم کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور وقت کی ضرورت یہ ہے کہ افغان حکومت ان کے مطالبات پہ غور کرے اور ان کے ساتھ نشست منعقد ہوتا کہ امن مذاکرات کو آگے بڑھایا جاسکے۔

پاکستان اس سلسلے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان اور افغانستان دونوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لاکھوں قیمتی جانیں قربان کی ہیں اور دونوں ملک امن کے خواہاں ہیں۔ اگر کوئی ملک امن کا دشمن ہے تو وہ بھارت ہے۔ افغانستان میں خانہ جنگی برقرار رکھنے کی خاطر بھارت اس وجہ سے سازشوں میں مشغول ہے کہ چپقلش کی آڑ میں وہ پاکستان کو غیر مستحکم کر سکے گا۔ علاوہ ازیں چین نے افغانستان میں اقتصادی تعاون کی پیشکش کی ہے جس کا افغانستان نے خیر مقدم کیا ہے۔

طالبان کے کچھ رہنماؤں نے چین کا بھی دورہ کیا ہے۔ بھارت جو چین سے رقابت رکھتا ہے، اس کوشش میں ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی برقرار ہے کیونکہ چین اس وقت تک افغانستان میں قدم نہیں رکھے گا جب تک وہاں امن قائم نہیں ہوجاتا۔ مستند ذرائع کے مطابق بھارت نے افغانستان میں داعش کو بھی اکسایا ہے کہ وہ دہشت گرد حملے برقرار رکھیں۔ اطلاعات کے مطابق سکھ گوردوارے، ہزارہ اجتماع اور ہسپتال میں میٹرنٹی وارڈ میں حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔

اغلب ہے کہ یہ حملے بھارت کی ایما پہ کرائے گئے ہوں جس طرح تحریک طالبان پاکستان بھی افغانستان میں بیٹھ کر بھارت کے اشاروں پہ پاکستان میں حملے کر اہا ہے۔ یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ بھارت افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کو پٹی پڑھا رہا ہے کہ وہ طالبان قیدی رہا کرنے میں جلدی نہ کریں۔ پاکستان کی افغان امن میں دلچسپی کی ایک اور وجہ وہ تین لاکھ افغان مہاجرین ہیں جواب تک یہاں مختلف کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور وہ اسی وقت اپنے وطن کو واپس لوٹیں گے جب وہاں امن قائم ہو جائے گا۔ پاکستان نے افغانستان کو مختلف امور پہ اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ کورونا وبا سے نمٹے کی خاطر، تعلیم، صحت اور فلاح و بہبود کے ترقیاتی منصوبوں میں پاکستان اپنے بھرپور تعاون کا وعدہ کرچکا ہے۔ ہم دعا گو ہیں کہ افغانستان میں جلد ہی امن قائم ہو۔ بقول فیض احمد فیض:

چند روز اور، مری جاں! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم

اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے، معذور ہیں ہم

جسم پر قید ہے، جذبات پہ زنجیریں ہیں،
فکر محبوس ہے، گفتار پہ تعزیریں ہیں

اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جئے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments