شاہ نورانی کے بے آسراؤں کے نام


\"noorulhuda

مزاروں پر دردِ دل کی دوا ملتی ہے دراصل۔ زمانے میں جو اب نایاب ہے۔ یہ لوگ جو مزاروں پر جاتے ہیں، دردِ دل کی دوا ہی کی تلاش میں جاتے ہیں۔ مگر اس دوا کا ملنا بھی اتنا آسان نہیں رہا اب۔ کبھی کبھی کسی مزار پر مل بھی جاتی ہے اور کبھی کہیں بھی میّسر نہیں ہوتی۔ مگر بس مٹھی میں ہسپتالوں کی پرچیوں کی طرح مزاروں کے نام پتے لیے پھر رہے ہوتے ہیں، کبھی اِس مزار پر اور کبھی اُس مزار پر، دردِ دل کے مارے یہ لوگ۔

دردِ دل کے یہ شفا خانے صدیوں سے زمین کے ان تمام حصّوں پر ہمیں ملتے ہیں، جہاں جہاں مسلمانوں نے جاہ و جلال کے ساتھ حکمرانی کی اور اسلام کو اپنے دربار کا تابع بنایا۔ علماء کو سرکاری نوازشات منہ کو لگیں اور انہوں نے حکمرانوں کے ناحق کے حق میں فیصلے دینے شروع کیے اور دین کی تشریح ان کی مرضی کے مطابق شروع کی۔ مسلمان حکمرانوں نے اپنی ذاتی حکمرانی کے پھیلاؤ کے لیے جب جب شمشیر زنی کی، درباری علماء نے اسے جہاد کا نام دیا۔ تکبّر اور جاہ و جلال اور اسلام کے نام پر خلافت کو موروثی بنانے اور آلِ رسولﷺ پر زندگی تنگ کرنے والے ماحول می‍ں جب عام مسلمانوں کی زبانیں حکمرانوں اور ان کی پالی ہوئی جابر قوّتوں کے خوف سے ساکت ہو چکی تھیں اور ان کی روحیں ان کے وجود میں مر چکی تھیں، اولیاء اکرام نے عشقِ الٰہی، عشقِ رسولﷺ اور آلِ رسولﷺ سے محبت کے ذریعے مسلماںوں کی مر چکی روحوں کو سیراب کرنا شروع کیا اور یاد دلانا شروع کیا کہ اصل اسلام کیا ہے۔

\"\"

پھر جہاں جہاں غیر مسلم انسانی آبادیوں پر مسلمان لشکر حملہ آور ہوئے، خونریزی کی، بت شکنی کی اور فاتح بنے، وہاں وہاں روحِ انساں کے طبیب پہنچے اور انہوں نے مظلوم، کمزور اور مفتوح انسانوں کے دلوں پر لگے زخموں پر مرہم رکھا اور انہیں اسلام کی اصل حقیقت سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں نبی کریمﷺ کی سیرت سے روشناس کرایا اور انہیں اللہ اور نبی کریمﷺ سے محبت کے راستے پر لے آئے اور یقین دلایا کہ اللہ ربّ العالمین ہے اور نبی کریم صلیﷺ رحمت العالمین ہیں۔ وہ سب کے لیے ہیں۔

یہ جو برصغیر کی تاریخ میں عام غیر مسلموں کے قبولِ اسلام کی روایت ہمیں ملتی ہے وہ قطعی فقہ و حدیث و تفسیر کی سمجھ سے نہیں آئی۔ نہ ہی اس کا کریڈٹ ان نام نہاد سرفروشوں کو جاتا ہے جو ظلم و بربریت بن کر انسانی آبادیوں ہر ٹوٹے اور درباری علماء نے ان کے لیے جہاد کے سرٹیفکیٹ جاری کیے اور درباری مورخین نے ان کی خونریزی کو تاریخ اسلام قرار دیا۔ یہ انہی روح کے طبیبوں کا کام ہے جو انہوں نے اللہ اور رسولﷺ کی محبت میں انجام دیا، اور آج ان مزاروں میں سوئے پڑے ہیں۔

\"sufi-shrine-9\"

مسلمان حکمرانوں نے اپنے درباری علماء اور مورخین کے ذریعے دورِ نبوتﷺ کی غزوات کی تاریخ کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور سیرت نبیﷺ کو عام انسانوں سے دور رکھا۔ مگر روحِ انساں کے یہ طبیب ہی تھے جو عوام میں سیرت النبیﷺ کا خزانہ لے آئے۔ ایسا قطعی نہیں ہے کہ مسلمان حکمرانوں اور فاتحین نے اسلام کے لیے ان علاقوں کے دروازے وا کیے۔ بلکہ یہ دروازے ان اولیاء اکرام اور صوفیاء اکرام نے آکر وا کیے۔ وہ فاتح لشکروں کے پیروں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے، لہولہان بستیوں کے پتے پوچھتے، اس زمانے کی کٹھن مسافتیں طے کرتے ہوئے ان علاقوں میں پہنچے اور انہوں نے وہاں زخمی دلوں کے لیے شفا خانے کھولے۔ اپنے ساتھ وہ جو مرہم لائے تھے وہ تھا عشقِ الٰہی اور عشقِ رسولﷺ، جو سیرت النبیﷺ کے حُسن سے لبریز تھا۔

وہ خود بھی حدیث، فقہ، قرآن و تفسیر کے علم کا خزانہ رکھتے تھے اور انہیں پتہ تھا کہ اسلام بزورِ شمشیر دلوں میں منتقل کرنے کا دین نہیں ہے۔ اگر بزورِ شمشیر یا بم کے دھماکوں سے ہی اسلام کو آنا تھا تو پھر اللہ کو کیا ضرورت تھی یہ بکھیڑا بکھیرنے کی! بھیج دیتا فرشتوں کو جو ایک ایک کو بالوں سے پکڑ کر سیدھا کھڑا کر دیتے اور کلمہ پڑھا دیتے! بس معاملہ اتنا ہی تھا نا اگر؟ پر اولیاء و صوفیاء کو پتہ تھا کہ یہ معاملہ کچھ اور ہے! ایسے ہی بشر کو پیغمبر نہیں بنایا گیا اور ایسے ہی اسے بار بار تاکید نہیں کی گئی کہ کہو کہ میں بشر ہوں اور تم جیسا ہوں۔ اس لیے کہ بندے کو بندہ چاہیے۔ جو اس کے روبرو ہو۔ جو اس کے ساتھ ہنسے بھی اور روئے بھی۔ جس کے عشق میں وہ مبتلا ہو تو وہ اسے نظر بھی آئے۔ جسے وہ چھو سکے۔ جو اس کا حالِ دل سامنے بیٹھ کر سنے۔ جو خود پہلے اپنے عمل سے بندگی کر کے دکھائے۔

\"sufi-shrine-3\"

بشریت کی یہ بندگی تھی جس کی تسبیح میں وہاں کے لوگوں کو پرویا ان اللہ والوں نے، جہاں عربی زبان کا گذر بھی نہیں تھا اور جن کا مزاج اور روح قطعی عرب مزاج سے مطابقت نہ رکھتی تھی۔ ان اولیاء و صوفیا اکرام نے ان ہی لوگوں کے دلوں کو دھیرے دھیرے، سانس بہ سانس عشق کے سمندر میں اتارا کہ رسولﷺ اور آلِ رسولﷺ کے عشق میں گرفتار ہوتے دل بلآخر االلہ کی ان دیکھی ذات کے سامنے سربسجود بھی ہوئے اور اللہ کے عشق میں بشریت کے اِس مقام پر انہوں نے امن اور رواداری کے ساتھ بت کدوں اور بت پرستوں کے قریب رہ کر بھی حقِ بندگی ادا کیا۔ مندروں میں بھجن گائے جاتے رہے اور مسجدوں میں پانچ وقت اذانیں آتی رہیں۔ مندر، مسجد اور گرجا پہلو بہ پہلو کھڑے رہے۔

اولیاء اکرام کی یہی دردِ دل کی دوا تھی جو اپنے عقیدے پر قائم بت پرستوں کو بھی خانقاہوں تک لے آئی۔ انہی اولیاء اکرام کی دعائیں تھیں اپنے رب کے حضور کہ ہیں تو یہ بھی تیرے ہی بندے۔ تو ان کا بھی پالنہار ہے۔ ان کے دکھ درد دور کر دے۔ رب نے کہیں بھی تو نہیں کہا کہ دعا و فریاد صرف مسلمانوں کی سنوں گا! یونہی تو وہ خود کو ربّ العالمین نہیں کہتا! ان اللہ والوں نے سب کی دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ ربّ کا وعدہ اور وفا نہ ہو! یہ کیسے ممکن ہے! بت پرست بھی دردِ دل کی دوا سے شفایاب ہوئے۔ انہی اولیاء اکرام کی صحبت میں صوفی شعراء نے اس عشق میں اظہارِ عشق کا رنگ بھرا۔ انسان عشق کا بوجھ تنہا نہیں اٹھا سکتا۔ وہ جس کے عشق میں مبتلا ہے اس کے سامنے اظہارِ محبت بھی چاہتا ہے۔ اسے بھی تو خبر ہو کہ اس کے عاشق پر کیا گذر رہی ہے! لیکن عشق کے لیے تو دل چاہیے مگر اظہارِ عشق کے لیے زباں چاہیے۔ دل تو بشر کے سینے میں رکھا ہی ہے مگر ہر زباں کو زباں ہونا میّسر نہیں۔ صوفی شعرا نے عاشق کی زباں کو زباں دے دی۔ زباں ملی تو عام بشر اس کی شدت کبھی برداشت کر پایا اور کبھی نہیں۔ قابو سے باہر ہوا تو لگا اپنے وجود کو دائرے کی صورت گھمانے کہ توُ یہاں بھی ہے، توُ وہاں بھی ہے۔ میں یہاں بھی تیرے گرد حالتِ طواف میں ہوں۔ میں وہاں بھی تیرے گرد حالتِ طواف میں ہوں۔

\"sufi-shrine-5\"

ملّا جو درباری علماء کا نمائندہ تھا، اس کی دکان بیٹھنے لگی تو اس نے عاشقوں پر کفر کے فتوے جاری کرنا شروع کر دیے۔ صوفی شعراء نے عاشقوں پر عشق کا وہ مقام منکشف کیا جہاں عاشق کو ملّا کے سرٹیفکیٹ کی پروا نہیں رہتی۔ سرٹیفکیٹ! اور وہ بھی اپنے ربّ سے عشق کا! اپنی بندگی کا! ربّ بھی وہ جو کہے کہ میں تمہاری رگِ جاں سے بھی قریب ہوں تمہیں اور جو کہے کہ میں تمہاری نیّت کو تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ کیا اسے نہیں خبر کہ میرا حالِ دل کیا ہے! میں اس پر کتنا ایمان رکھتا ہوں، کیا وہ نہیں جانتا! اور سرٹیفکیٹ دے گا ملّا جس کے نفس کا حال زمانے سے ڈھکا چھپا نہیں۔ صوفی شعراء نے ببانگِ دھل ملّا کا سرٹیفکیٹ رد کر دیا۔ علماء و صوفیاء نے ربّ کی ذات کو مسجد پر قابض ملّا تک محدود کرنے کے بجائے دلوں میں بسایا۔ دل ربّ سے محبت میں مبتلا ہو اور خوفِ خدا سے محروم رہے! یہ ممکن نہیں۔ یہ خوفِ خدا ہی ہے جس کے ذریعے ان اللہ والوں نے فاتح مسلمانوں کے اندر سے فاتح ہونے کا تکبّر نکالا۔ ان کے تنے ہوئے لشکری وجود کے کس بل نکالے۔ اسی خوفِ خدا کا احساس ان کے دلوں میں پروان چڑھا کر انہیں رحم، معافی اور درگزر کی روحانی تربیت کے ساتھ بتایا کہ تیرا ربّ کہتا ہے کہ زمین پر آہستہ قدم اُٹھا کر چل کہ تیرے چلنے سے زمین پر دھمک نہ ہو۔ رحم کر یتیموں، مسکینوں، بیواؤں، رشتہ داروں، قیدیوں، غلاموں، پڑوسیوں، مسافروں، والدین اور مسلمان بھائی پر۔

باقی کی فہرست میں کہیں بھی مسلمان ہونے کی شرط عائد نہیں کی اور یہ تب کا حکم ہے جب اکثر رشتہ دار کافر ہوا کرتے تھے۔ اکثر مساکین و یتیم قیدی و غلام اور پڑوسی تک کافر ہوا کرتے تھے۔ خوفِ خدا کے اس احساس کے ساتھ ان اللہ والوں نے فاتح مسلمانوں کی درس و تدریس کر کے انہیں مفتوح قوم اور ان کے مذاہب کا احترام کرنا سکھایا اور مفتوح قوم کو حلقہِ اسلام میں آنے کی ترغیب دی۔ ان نو مسلموں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ قرآن میں کیا ہے اور احادیث میں کیا ہے! انہیں جو چیز اسلام میں لے آئی وہ اسی درس و تدریس سے پھوٹ نکلا عشق تھا کہ کیسا رحیم و رحمان ہے ربّ! اور کیسا کریم و مہربان ہے اس کا پیغمبر۔ بہشت کا لالچ نہ تھا۔ بہشت و دوزخ تو ہر مذہب میں ہے! حوروں کا گمان تک نہ تھا۔ صرف وصلِ ربّ اور وصلِ نبیﷺ کی تمنّا تھی۔

\"sufi-shrine-6\"

مسلمانوں اور غیر مسلموں نے صدیوں یہ سفر ساتھ ساتھ طے کیا۔ صدیوں کے اس سفر میں علماء اور صوفیاء ایک ایک کر کے اپنے فرائض پیچھے آنے والوں کو سونپتے ہوئے خود وہیں، انہی لوگوں کے بیچ زمیں تلے جا سوئے۔

وہ لوگ جو دردِ دل کی شدت سے گھبرا کر اور بے اختیار ہو کر مسیحائی کے لیے ان کے سامنے بے دم ہو کر گرتے تھے اور مسیحا جن کے لیے بغیر کسی تفریق کے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھاتے تھے اب ان مسیحاؤں کی قبریں ان کے سامنے تھیں۔ انسان فطری طور پر وصل کا خواہشمند ہے۔ دوری سہہ نہیں پاتا۔ کرب کی شدت میں اپنے ربّ کو بھی پکارتا ہے کہ اب تو نیچے آ جا۔ بس آ جا میرے سامنے اور میری مدد کر۔ انسان کو رونے کے لیے کندھا چاہیے۔ لپٹنے کے لیے ماں جیسا سینا چاہیے۔ سو انہی اولیاء و صوفیاء کی قبریں ماں جیسا سینا بن گئیں۔

مگر مسلسل کروٹیں بدلتے زمانے نے انسان کو آج بے یار و مددگار حالت میں وقت کے چو راہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ صوفیاء اور اولیاء اب ناپید ہیں۔ انسان کی صورت پہچانی نہیں جا رہی کہ کون انسان ہے اور کون انسان کے لبادے میں درندہ! ضروریاتِ زندگی نے دلوں کو پتھرا دیا اور خوفِ خدا دلوں سے اُٹھ گیا۔ عجب نفسانفسی کا عالم ہے۔ زمانے بھر کو روٹی اور جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ خواہشات کا جنگل ہے جس میں آدمی کھو گیا ہے! کوئی روتا ہے تو کیا! مرتا ہے تو کیا! کسی کے بچے بھوکے سوئے تو کیا! کوئی بے گناہ ظلم کی سولی پر چڑھ گیا تو کیا! کسی کو ذلّت کی کیچڑ میں پھینک دیا گیا تو کیا! انساں کو انساں کا کندھا میسر نہیں۔ اوپر سے بیماریوں کا خوفناک صحرا۔ مسیحا اور شفا خانے، دوا اور مرہم، انسان کی بساط و دسترس میں نہیں رہے۔ حالِ دل سننے والا کوئی نہیں۔ صادق و امین کوئی نہیں۔ سائنس نے زمانے کو ترقی کے حیرت انگیز موڑ پر لا کھڑا کیا ہے مگر انسانی بستیاں جانوروں کا جنگل بنتی جا رہی ہیں۔ رہا اسلام تو وقت کی کایا پلٹ میں وہ واپس مسلمانوں اور مسلمانوں کے ہی ہاتھوں غیر مسلم عالمی طاقتوں کی power game کے tool کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے۔ علماء اور ان کے کارندے ملّا نے ایک اسلام میں سے کئی کئی اسلام نکال کر اپنی اپنی دکان کا مال بڑھا دیا ہے۔ مال بڑھا ہے تو بھاؤ بھی چڑھا ہے۔ کفر کے فتوے اس فروانی کے ساتھ بٹے ہیں کہ ہر مسلمان کو دوسرے پر کافر کا گمان گذرتا ہے۔ بہشت اور حوریں فرنٹ لائن میں رکھ دی گئی ہیں۔ خوفِ خدا اور عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول ﷺ اور محبتِ آلِ رسولﷺ سب کفر ٹھہرے۔ بلکہ اصحابہ اکرام اور آلِ رسولﷺ کے بیچ مقابلے کا کھیل گرم کر دیا گیا ہے۔

\"sufi-shrine-8\"

اس سارے اوسان خطا کر دینے والے زمانے میں یہ لوگ جو سوچکے اولیاء و صوفیا کے مزاروں پر جاتے ہیں یہ کسی کلچرل اور تفریحی سرگرمی کے پیچھے نہیں جاتے۔ انہیں تو پتہ بھی نہیں ہے کہ اس قبر کے اندر سویا ہوا مسیحا دراصل ہے کون! اس کا پس منظر کیا ہے! انہیں تو بس یہ امید ہوتی ہے کہ اس شفا خانے سے ان کے دردِ دل کی دوا مل جائے گی اور وہ شفایاب ہو جائیں گے۔ کیونکہ وہ خود تو بقول ملّا کے گنہگار ہیں، بیوی نام کی گندی عورت کے غلام ہیں، دوزخ ان کی منتظر ہے، کافر ہو چکے ہیں۔ ان پر قہر الٰہی ٹوٹنے والا ہے۔ ان کی دعا قبول نہیں ہو گی۔ تو پھر یہ گندے بندے کہاں جائیں؟ ایک عالم کہتا ہے کہ دوسرا عالم کافر ہے! یہ فرقہ کفر ہے اور وہ فرقہ مکروہ ہے۔ چلو پھر اسی بابا کے مزار پر جو یقیناً کافر نہیں ہے۔ جس نے یقیناً اپنی عبادت سے رب کی رضائیں حاصل کی ہیں! سنا ہے بڑا ولی اللہ تھا۔ سنا ہے اس کی دعا قبول پڑتی ہے۔ شاید اس در سے نامراد دامن بھرنے کا بندوبست ہو جائے۔ ایک عدد چادر تحفے کے طور پر بھی ساتھ لے چلو کہ کسی اعلٰی ہستی کے پاس خالی ہاتھ نہیں جایا جاتا۔ کام نہیں ہوتا تو پھر دوسری درگاہ پر چلتے ہیں۔ بس یوں یہ دردِ دل کے مارے لوگ ایک درگاہ سے دوسری درگاہ دعاؤں کے طالب بنے پھر رہے ہوتے ہیں۔

\"sufi-shrine-9\"

پھر انہی مزاروں پر بیٹھے فقیر، مسکین، بھوکے ننگے لوگ، معاشرے کے دھتکارے ہوئے لوگ پناہ لیے ہوتے ہیں۔ یہاں پیٹ بھر کھانا ملتا ہے۔ یہاں سونے کے لیے دو گز سے زیادہ زمین ملتی ہے۔ یہاں ان ذلّت کے ماروں کو عزت بھی ملتی ہے کہ کوئی دعا کے لیے کہتا ہے کہ اللہ کے ولی کے مزار پر بیٹھا ہوا فقیر ہے۔ دنیا کی بدی سے دور یہاں بیٹھا ہے۔ شاید اسی کی قبول ہو جائے۔ دم گھٹتے سماج کی چکی میں پستی عورتیں اور بچیاں جب انتہائی بے بس ہو جاتی ہیں تو اندر کا الاؤ جن بن جاتا ہے۔ ماں باپ نہیں جانتے کہ ماہرِ نفسیات کس بلا کا نام ہے! نفس کے جن سے نبرد آزما بچیوں کو اور شوہروں اور بھائیوں کے جبر سے جن میں پناہ لیتی بیویوں اور بہنوں کو انہی شفا خانوں پر لایا جاتا ہے۔ یہی شفا خانے ہیں جہاں وہ کھل کر، دل چیر کر آہ و بکا کر سکتی ہیں۔ یہاں کوئی ان کا مذاق نہیں اُڑاتا۔ یہاں ان کا جن سر چڑھ کر بولتا ہے اور دھمال کے ساتھ اپنے وجود کا کتھارسس کرتا ہے۔ جسم فروشی سے گذر بسر کرنے والی تک سیاہ چادر میں خود کو لپیٹ کر کچھ دیر کے لیے باعزت بن کر کھڑی ہوتی ہے یہاں۔ دعا مانگتی ہے اپنی ناتمام حسرتوں کے لیے۔ مسجد کا ملّا اسے مسجد میں گھسنے دے گا؟ ان درگاہوں نے انہیں بھی کبھی نہیں دھتکارا بلکہ جب یہ اولیاء زندہ تھے تب بھی معاشرے میں بے عزت قرار پائے کے لیے دروازے کھلے ہوتے تھے اور ان کے لیے دعا کی خاطر ہاتھ بھی اٹھتے تھے۔ پھر بے اولاد جوان جوڑوں کی محرومی و بے بسی کے بجھتے دیے بھی یہیں جل اٹھتے ہیں۔

درد اور ذلّتوں کے مارے ان لوگوں کے لیے اگر ان شفا خانوں کے دروازے بند کر دیے جائیں تو یہ کہاں جائیں؟ کہاں ہیں ان کے لیے پناہ گاہیں اور ہسپتالیں اور ان کی تڑپتی روحوں اور تنہائیوں اور محرومیوں اور معاشی و سماجی اضطراب کا علاج؟ کون ہے ان کا مسیحا؟

صرف کفر کے فتوے؟ صرف کفر کے فتوے؟ صرف کفر کے فتوے؟

\"sufi-shrine-7\"

کہاں جاکر یہ تلاش کریں اپنے ربّ کو؟ کہاں جا کر دہائی دیں؟ کس مسجد و فرقے کے ملّا کے پاس جائیں؟ کس طرح کی نماز پڑھیں؟ ہاتھ کھول کر پڑھیں یا باندھ کر؟ کس طرح دعا مانگیں؟ صحابہ کرام اور آلِ رسولﷺ کے بیچ مقابلے میں کس کا ساتھ دیں؟ کس طرح کی داڑھی رکھیں اور کس رنگ کی پگڑی باندھیں؟ کہاں جائیں یہ بدنصیب جو صرف دھماکوں میں اُڑا دینے کے لیے ہیں؟
یہ مشرک ہیں؟ یہ تو اللہ کی تلاش میں ہی مارے مارے پھر رہے ہیں۔ بڑے کام ہیں انہیں ربّ کی ذات سے۔ زندگی نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اس کا احوال پیش کرنا ہے انہیں۔ یہ مشرک ہیں؟ جو دعا کی قبولیت کے دروازے تلاش کر رہے ہیں اور ان مزاروں میں سوئے بابوں کی قبروں کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر، لپٹ لپٹ کر کہتے ہیں کہ بابا جی اٹھیے اور اللہ تعالیٰ کو بتائیے کہ میں بڑی مشکل میں ہوں۔ یہ شرک ہے؟

یہ بے بسی ہے اس بے یار و مددگار مسلمان کی جس کے دردِ دل کے سارے مسیحا زمین تلے سو چکے ہیں اور جو آج اسلام کے نام پر سجے بازار کی بھیڑ میں بے آسرا کھڑا ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ

تو کہاں ہے ربّا؟ ۔ نیچے آ جا۔ دیکھ تیرا بندہ۔ راکھ ہوگیا

نورالہدیٰ شاہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نورالہدیٰ شاہ

نور الہدی شاہ سندھی اور اردو زبان کی ایک مقبول مصنفہ اور ڈرامہ نگار ہیں۔ انسانی جذبوں کو زبان دیتی ان کی تحریریں معاشرے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

noor-ul-huda-shah has 102 posts and counting.See all posts by noor-ul-huda-shah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments