شیر شاہی بیٹیاں اور افسر شاہی – دوسرا رخ


کیا واقعی بیٹیاں پیدا کرنے کا تاوان بیٹیوں کا سی ایس ایس کے امتحان میں پاس ہونا قرار پایا ہے؟ تب ہی کیا بیٹی پیدا ہونے کا جواز درست ثابت ہو سکے گا؟ ورنہ کیا زندگی بھر بیٹی پیدا کرنے کی پاداش میں والدین کا سر اس معاشرے میں ہمیشہ جھکا رہے گا؟ یہ ہم آج بھی کس صدی کا ماتم لئے بیٹھے ہیں کہ اگر کسی کے گھر چار یا پانچ بیٹیاں پیدا ہو گئیں تو سب کو سی ایس ایس میں کامیابی حاصل کر کے ہی ملک و قوم کی خدمت کرنے کا موقع ملے گا اور اس کے سبب ہی انہیں عزت و مقام مل سکے گا۔

یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک بیٹی کی کام یابی کو سی ایس ایس جیسے فرسودہ اور بوسیدہ حکم رانی کے امتحان سے جوڑا جا رہا ہے جبکہ یہ ایک ذی شعور کے لیے کوئی فخر کی بات نہیں کہ وہ ایک گلے سڑے نظام کو للکارنے کے بجائے اس کا حصہ بن جائے اور اگر بن جائے تو اس پر فخر بھی کرے۔

بیٹی ایک مکمل وجود ہے جسے اس طرح کے کسی بھی جواز کی ضرورت نہیں ہے خود کو منوانےکے لئے۔ ہر بیٹی قابل احترام ہے چاہے وہ کسی بھی شعبے میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہو یا اپنے بچوں کی پرورش کر رہی ہو۔

یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اس طرح کے امتحانات یا بڑے تعلیمی اداروں میں اپنی اولاد کو تعلیم دلوانا یا نہ دلوانا صریحا والدین کے معاشی اور سماجی حالات سے جڑا معاملہ ہے۔

پہلے تو ہمیں سی ایس ایس یا اس جیسے مقابلےکے امتحانات کو مثالی بنا کر پیش کرنے سے گریز کرنا چاہئےکیونکہ یہ کسی بھی شخص کی ذہانت اور قابلیت کوجانچنے کا ایک کمتر بلکہ ناکارہ درجہ ہے۔

خاص طور پر جنرل ضیاءالحق کے آمرانہ دور میں سی ایس ایس کے نصاب میں جو ردوبدل کئے گئے تھے اس کے نتیجے میں آج ہماری افسرشاہی میں اکثریت تنگ نظروں کی نظر آتی ہے۔ اس امتحان میں جس قسم کےسوالات نئی نسل سے پوچھے جاتے ہیں وہ کسی بھی طرح روشن خیال، سیکولر، لبرل اور ترقی پسند نہیں ہوتے بلکہ تنگ نظری اور قوم پرستی سے بھرپور ہوتے ہیں جوہماری آنے والی نسلوں کے ذہنوں کو کھولنے کے بجائے مزید محدود کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ ہماری ریاست کوسوچنے سمجھنے والے، سوالات اٹھانے والے اور ان سوالوں کے جوابات کھوجنے والے اعتدال پسندی کے قائل لوگ نہیں درکار۔ انہیں رٹے رٹائے جواب دینے والے شاہ دولا کے چوہے چاہیئں۔ یہی وجہ ہے کہ افسرشاہی میں چند گنےچنے ہی افسر آج کسی کو یاد ہوں جنہوں نے واقعی عوام دوستی کی مثالیں قائم کی ہو۔

اور کیا سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے افسرشاہی کا حصہ بننے والے ہی ملک وقوم کی خدمت سرانجام دے سکتے ہیں؟ سچائی تو البتہ یہ ہے کہ سول اور فوجی افسروں کو جتنی مراعات اور اختیارات میسر ہوتے ہیں اس کے لالچ میں ضرور یہ امتحان دینا بنتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس دیگر شعبو ں میں خود کو منوانے کے لیے اسے کہیں زیادہ محنت اور قابلیت درکار ہوتی ہے کیونکہ ملازمت حاصل کرنے کے باوجود بھی مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکامی کی صورت میں ملازمت سے کسی بھی وقت ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ جبکہ سول اور فوجی افسر ایک بار نوکری میں بھرتی ہو گیا تو پھر مدت ملازمت پوری کر کے پینشن کے ساتھ ہی نکلے گا۔ پھر اس طرح کےامتحانات کو عظمت کا پیمانہ قرار دینا کہاں کی دانشمندی ہے۔ دیگرتمام شعبوں میں ایک اعلی مقام پر پہچنے کے لیے مسلسل محنت اور قابلیت درکار ہوتی ہے نہ کہ اس طرح کے امتحان میں کامیابی حاصل کر کے افسرشاہی کا حصہ بننے میں۔

جن بچوں کی پرورش ایک روشن خیال، لبرل، سیکولر اور ترقی پسند گھرانے میں ہوئی ہو وہ یا تو یہ امتحان دینے کا سوچیں گے نہیں اور اگر دیں گے تو ناکام ہوں گے۔ یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ کامیاب ہو جائیں لیکن اس طرح ان کی ذات کی نفی ہو گی۔

تو ایسے مقابلے کے امتحانات کے ساتھ بیٹیوں کی کامیابیوں کا جواز ڈھونڈنے والوں سے گزارش ہے کہ بیٹیوں کو اس طرح کے ترازو میں نہ تولیں۔

بیٹیوں کا افسر شاہی میں آنا اچھی بات ہے مگر اس پر فخر اسی وقت کیا جانا چاہیے جب وہ واقعی انداز حکم رانی میں کوئی تبدیلی لا سکیں اگر نہیں تو پھر وہ تمام بیٹیاں زیادہ فخر کے قابل ہیں جو کسی نہ کسی طرح سماج کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہیں یا وہ جنہوں نے افسر شاہی کا حصہ بن کر حکم رانی کے فوائد سمیٹنے کے بجاے بالادست بیانیے کو للکارا چاہے وہ پروین رحمان ہوں، سبین محمود یا عاصمہ جہانگیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments