سر منصور کا بار


تمام پاکستانی دین دار گھرانوں کی طرح اور خصوصا مولویوں کے خاندان سے تعلق کے پیش نظر، ہوش سنبھالتے ہی والدین نے اس خادم کو ناظرہ قران پڑھوانے کی فکر کی۔ ایک مولوی صاحب کا تقرر کیا گیا کہ وہ گھر پر آ کر تعلیم دیں۔ مولوی صاحب اپنے طبقے کے اکثر افراد کے مانند تنک و خشک مزاج تھے چنانچہ دوسرے ہی روز کسی غلطی کی پاداش میں گال پر زور کا تھپڑ کھینچ مارا۔ والدہ محترمہ بیٹھک اور دالان کے بیچ کے دروازے کے قریب بیٹھی خود بھی تلاوت کر رہی تھیں اور اس خادم کی تعلیم پر بھی نظر رکھے ہوئے تھیں۔ تھپڑ لگتا سن کر تڑپ اٹھیں اور مولوی صاحب کو کھڑے کھڑے رخصت کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد، دیگر بہت سے ہنر، علم اور آگہی کی طرح، ناظرہ قران پڑھانا بھی والدہ محترمہ نے اپنے ذمے لے لیا۔ اس خادم کی عمر سات برس سے کچھ کم تھی جب یہ مرحلہ طے ہوا۔

محترم والد صاحب کا دستور تھا کہ شروع سے ہی کھلونوں کی بجائے کتابوں رسالوں کے شوق کی حوصلہ افزائی فرماتے۔ اس سے قبل وہ دفتر یا بیرون شہر دورے سے لوٹتے وقت اپنی پسند سے کوئی نہ کوئی کتاب رسالہ لے آتے۔ سو یہ خادم اسی عمر سے تعلیم و تربیت، نونہال، ہونہار، بچوں کی دنیا وغیرہ سے روشناس ہوا جو ابتدا میں والد صاحب یا والدہ صاحبہ پڑھ کر سناتے اور بعد میں اٹک اٹک کر خود بھی پڑھنا سیکھ گیا۔ اس روز لیکن ناظرہ قران ختم کرنے کی خوشی میں والد صاحب اس خادم کو سائیکل پر بٹھا کر جناح روڈ لے گئے اور زندگی میں پہلی بار کتابوں کی باقاعدہ دکان، “گوشہ ادب” میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ دکان کے کاونٹر سے والد صاحب کو آتے دیکھ کر ایک نوجوان، جو یوں بھی راست قامت تھا اور مجھے اپنے پستہ قد کے موازنے میں اور زیادہ لمبا لگا، تعظیم دینے کو دروازے پر آیا۔ والد صاحب نے تعارف کروایا کہ “یہ ہیں منصور بخاری صاحب، میرے پرانے دوست منظور بخاری کے صاحب زادے”۔ یہ تھا منصور بھائی سے پہلا تعارف جو ایک روز قبل ان کی وفات تک کم و بیش پینتیس برس پر محیط رہا۔

منصور بھائی کا تعلق کوئٹہ کے سربرآوردہ سادات کے گھرانے سے تھا۔ ان کے والد منظور بخاری صاحب جوانی میں سٹیج ڈراموں میں ہیرو کا کردار ادا کیا کرتے تھے اور کوئٹہ کی متحرک سماجی و ثقافتی شخصیت تھے۔ اہلیہ ان کی بنگالی تھیں۔ منظور بخاری صاحب اور ان کے چچا زاد سب کاروباری لوگ تھے لیکن ان کے ایک صاحب زادے سید ناصر بخاری کو ترقی پسند سیاست کا چسکا پتا نہیں کہاں سے لگ گیا کہ اسی کی دہائی میں آل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن اور پاکستان کمیونسٹ پارٹی سے قریبی ربط رکھنے والی بلوچستان لیبر فیڈریشن کے مرکزی عہدے داروں میں شمار ہونے لگے۔ اس دور کی کلرکوں اور مزدوروں کی جدوجہد ہماری ترقی پسند تحریک کا ایک درخشاں باب ہے۔ پھر یہ تنظیمیں کمیونسٹ پارٹی کی اندرونی اکھاڑ پچھاڑ اور نام نہاد نظریاتی تطہیر کا شکار ہو کر ٹوٹ پھوٹ گئیں۔

اس خادم کی رائے میں بلوچستان میں نوجوانوں کی جمہوری سیاست سے بددلی اور شدت پسندانہ سرگرمیوں کی جانب راغب ہونے کا سبب پارٹی رہنماوں کی عاقبت نا اندیشانہ پالیسیوں سے بھی جُڑا ہوا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو منصور بھائی، ان کے برادران خرد مسعود بھائی اور شاہد بھائی بھی کاروباری شخصیات ہونے کے باوجود ترقی پسند اور قوم پرست سیاست سے ہم دردی رکھتے تھے۔ بلوچستان میں ستر کی دہائی کی شورش پر سیلگ ہیریسن کی کتاب کا ترجمہ مسعود بھائی نے کیا اور گوشہ ادب کے زیر اہتمام شایع کرنے کا جوکھم بھی اٹھایا۔ اس کے علاوہ بھی بائیں بازو کے ہر قسم کے لٹریچر اور بلوچستان کی تاریخ پر کسی بھی زبان میں لکھے گئے مواد کو طلبا اور سیاسی کارکنوں تک پہنچانے میں گوشہ ادب اور اس کے بطن سے جنم لینے والی “سیلز اینڈ سروسز” کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

یہ تو خیر گریز تھا جو حسب عادت طول کھینچ گیا۔ سکول کے آخری زمانے سے کالج کی تعلیم اور یونیورسٹی کی چھٹیوں میں کوئٹہ آنے پر یہ گویا ہفتہ وار فرض ٹھہرتا تھا کہ جناح روڈ پر بک لینڈ، کوئٹہ بک سٹال، گوشہ ادب اور سیلز اینڈ سروسز کا طواف کیا جائے۔ ان دکانوں کے مالکان، منصور بھائی کے عم زاد سلیم بخاری صاحب، پروفیسر جمشید اور ان کے حال ہی میں کورونا کا شکار ہوکر رخصت ہونے والے بھائی روحیل، سب نہایت خلیق اور متواضع تھے لیکن منصور بھائی کا دفتر تو گویا دکان سے زیادہ کسی کے مہمان خانے کا منظر پیش کرتا تھا۔ اکثر وہاں سیاسی رہنماوں، طلبا، ادباء، شعراء میں سے کوئی نہ کوئی بیٹھا مل جاتا تھا۔ چائے کا دور چل رہا ہوتا تھا اور حالات و واقعات پت تبصرہ جاری رہتا تھا۔ مجھ جیسے طلباء جن پر ہمارے دوست ڈاکٹر عصمت درانی کا شعر صادق آتا ہے کہ

ستم ظریفیِ تقدیر دیکھنا عصمت

کہ بخت تنگ ملا اور دل کشادہ ملا

منہگی کتابوں کو ندیدی نظروں سے گھورتے پائے جاتے تو منصور بھائی مسکرا کر کہتے، کہ لے جاو اور قیمت قسطوں میں ادا کر دینا۔ ساتھ یہ بھی اضافہ کرتے کہ حساب خود رکھنا۔ اس خادم نے پیسوں کا حساب کتاب تو کم و بیش چُکتا کر دیا تھا مگر جو احسان کا بوجھ منصور بھائی لاتعداد طلباء اور سیاسی کارکنوں کے شانوں پر ڈال گئے ہیں اس کی ادائیگی ناممکن ہے۔ کورونا کی وبا بہت سے حبیب و لبیب دوستوں اور بزرگوں کو دنیا بھر میں اپنا نوالہ بنا چکی ہے۔ اس خادم کے وطن عزیز کوئٹہ پر تو اس کی خصوصی توجہ لگتی ہے۔ ہر ایک کا غم اپنی جگہ جان کاہ ہے لیکن منصور بھائی کا صدمہ ان میں سب سے نمایاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments