میرے ابا جی اور میاں محمد بخش سے آشنائی


ذکر کرنا ہے میاں محمد بخش سرکار کا اور ان کی سیف الملوک کا۔ مجھے نہیں پتہ شہزادہ سیف الملوک کون تھا اور وہ پری بدیع الجمال کیا ہوئی۔ مجھے تو بس میاں صاحب کے ان چند شعروں سے غرض ہے جن کے مصرعوں میں میرا بچپن پرویا ہوا ہے۔ وہ دن جب میرا لڑکپن تھا اور ابا جی جوان تھے۔

اول حمد ثنا الٰہی ’جو مالک ہر ہر دا
اس دا نام چتارن والا کسے میدان نہ ہردا
کام تمام میسر ہوندے ’نام اوہدا چت دھریاں
رحموں سکے ساوے کردا ’قہروں ساڑے ہریاں

یادش بخیر! مولوی غلام رسول اور مولوی عبدالستار نے بہ زبان پنجابی جو قصہ یوسف زلیخا لکھا ہے ’ہمارے ابا جی کو ان کے صفحات کے صفحات زبانی یاد ہیں۔ یہ دونوں کتابیں ہوش کی آنکھ کھولی تو گھر میں موجود پائیں۔ ان کے علاوہ سیف الملوک کے بے شمار اشعار اباجی کو زبانی یاد تھے اور وہ موقع بہ موقع ان کتابوں کے اشعار پڑھا کرتے تھے۔

چوتھی جماعت میں ہمیں جو اردو کی کتاب پڑھائی جاتی تھی ’اس میں ایک سبق میاں محمد بخشؒ پر بھی تھا۔ مجھے یاد ہے جس روز ہم نے جماعت کے کمرہ میں یہ سبق پڑھا تو اس کے آخر میں درج پنجابی شعر میں نے بہ اہتمام یاد کیا کہ ابا جی ہر وقت شعر سنایا کرتے تھے‘ آج میں ان کو سناؤں گا۔ پھر جب انیس صد اڑسٹھ ماڈل کی اس گاڑی پر ’جس کی اگلی سیٹ بھی پچھلی کی طرح بنچ جیسی لمبی ہوتی تھی‘ ابا جی مجھے سکول سے لینے آئے تو بستہ میں نے ابا جی اور اپنے درمیان پٹخ کر چھوٹتے ہی کہا ”ابا جی! شعر سناواں۔ ۔ ۔ ؟“

انہوں نے کہا ضرور سناؤ۔ تب میں نے بڑی ترنگ میں میاں صاحب کا یہ شعر سنایا
دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے
اس بے فیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے

انہیں خود سینکڑوں شعر یاد تھے مگر پتہ نہیں میرا دل رکھنے کو یا واقعی ان کو پسند آیا تھا یہ شعر ’میری بڑی تعریف کی۔ پھر وہ اکثر کہا کرتے ”یار او شعر سنا میاں صاحب والا“

ا س کے بعد پھر عالم لوہار اور شوکت علی سے سن کر سیف الملوک کے بہت سے شعر یاد کیے ۔ ابا جی ایک شعر پڑھا کرتے جس کی مجھے اس وقت سمجھ نہ آتی مگر اسے سن کر خوف سا محسوس ہوا کرتا تھا۔

لوئے لوئے بھرلے کڑیئے جے تد بھانڈا بھرنا
شام پئی بن شام محمد گھر جاندی نے ڈرنا
خوف کیوں آتا تھا؟ ذرا رک کر یہ منظر دیکھئے۔

جہانیاں منڈی کا سٹیشن ’لودھراں خانیوال ریلوے لائن پر واقع ہے۔ اس کے لمبے سے اکلوتے پلیٹ فارم کے آگے تین ریلوے پٹڑیاں لیٹی ہوئی ہیں جو اپ اور ڈاؤن‘ دونوں اطراف کچھ فاصلے پر جاکر ایک ہوجاتی ہیں۔ یہ منظرنامہ اڑتیس چالیس برس پہلے کا ہے۔ پلیٹ فارم سے اتر کر ان تین لائنوں کو پار کرکے ریت کا میدان تھا۔ ٹیلے تو نہیں مگر ریت کی اونچی نیچی سطح تھی۔ ایک چھوٹا سا قبرستان اور قبروں کے درمیان سے گزرتا ریتلا راستہ جس پر گڈ اور بیل گاڑیوں کے چلنے سے پہیوں کے نشانات والی دو نالیاں سی متوازی چلی جاتی تھیں۔ راستے کے ساتھ اور قبروں کے درمیان اگے آک اور دوسرے صحرائی پودے۔

یہ راستہ جاکر جرنیلی سڑک سے مل جاتا۔ کچی مگر بے حد چوڑی جرنیلی سڑک، جو دور کہیں جاکر شیرشاہ سوری کی بنائی ملتان دہلی روڈ سے بغل گیر ہوتی۔ ریت کا یہ مختصر سا قطعہ ختم ہوتا تو ہمارے چک کی زمین شروع ہوجاتی جو آباد اور پکی تھی۔ چک کی آبادی وہاں سے کوئی پون کلومیٹر دور تھی۔ جرنیلی پر چڑھ کر ڈیڑھ دو سو قدموں کے بعد درختوں کا وہ گھنا جھنڈ جرنیلی کو اپنی آغوش میں لے لیتا جس کے ایک طرف ٹیوب ویل تھا اور دوسری طرف ایک بڑی سی قبر جس پر شام کے بعد کبھی کبھی دیا بھی جلتا نظر آتا۔ ٹیوب ویل سے نکلتا پانی کا کھالا جرنیلی کراس کر کے قبر کے پہلو سے ہوتا آگے کہیں نکل جاتا۔ یہاں اس جھنڈ کے عین درمیان اس کھالے پر پلیا بنی تھی۔ چک سے منڈی آنے جانے کا یہی راستہ تھا۔ اس پلیا سے گزرتے مجھے عجیب سے خوف اور سحر کا اثر محسوس ہوتا تھا۔

چھٹیوں میں یا ویک اینڈز پر جب چک گئے ہوتے تو کزنز کے ساتھ آوارہ گردی کرتے ’شہر جاتے‘ ریلوے لائن پر سکے رکھتے اور ذرا بڑے ہوئے تو کبھی سینما دیکھنے شہر جاتے۔ تب واپسی اسی راستہ سے ہوا کرتی ’عجیب آسیبی سا سفر ہوتا اس راستے پر پیدل چلنے کا۔

میاں محمد بخش صاحب کا یہ شعر سن کر یہی راستہ میری نظروں میں گھوم جاتا۔ مجھے لگتا جیسے چک کی کوئی لڑکی سٹیشن پر لگے ہتھ نلکے سے پانی کا گھڑا بھرنے گئی ہے اور میاں صاحب اس کو نصیحت کر رہے ہیں کہ جلدی کرو ’یہ نہ ہو شام اتر آئے اور پھر تم گھر کو لوٹتے ہوئے ڈر اور خوف کا شکار ہوجاؤ۔ وہ ریتلا قبرستان اور درختوں کے جھنڈ‘ ان کے سائے میں لپٹی اندھیری قبر اور اس پر ٹمٹماتا مریل سی لو والا دیا۔ پھر تصور میں ایک سہمی ہوئی لڑکی آجاتی جو ڈھاک پر گھڑا دھرے ڈری ڈری اس راستے پر اکیلی چلی جاتی ہے۔

اب اتنے سارے برس گزر چکے ہیں اور مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ میاں صاحب کون سے بھانڈے کو کس روشنی میں بھرنے کی بات کر رہے ہیں اور اندھیرا ہوجانے پر کون سے گھر کو واپس جاتے ’ڈرنے کا تذکرہ فرمارہے ہیں۔

سچ فرماتے ہیں میاں صاحب۔ گھر کو تو ہم نے بہرحال لوٹنا ہی ہے ’اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ روشنی ہے کہ تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہے اور ہمارے برتن خالی ہیں‘ اسی لئے ہم واپسی سے خوف زدہ رہا کرتے ہیں۔ ورنہ موت کے خوف کی کیا مجال کہ انسان کے قریب بھی پھٹک سکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments