یہ خط آپ سب کے نام


جی ہاں۔ آپ کو بالکل بھی کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی۔ میں آپ سب سے مخاطب ہوں جو ان لفظوں کے اس پار کھڑے ہیں۔ اور اس پار ہوں۔ میں۔ اور یہ لفظ جو ہمارے بیچ ہیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے مجھے ایک عمر جکڑے رکھا یا شاید میں نے انہیں۔ کہ ان کی توقیر کرنے والا کوئی دستیاب نہیں تھا۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں کون ہوں؟ آپ مجھے نہیں جانتے۔ اب آپ سوچیں گے کہ اگر آپ مجھے نہیں جانتے تو میرا مخاطب آپ کیوں ہیں؟ تو میرا مخاطب آپ اس لئے ہیں کیونکہ اگر آپ مجھے جانتے یا جاننے کی کوشش کرتے تو میں آج آپ کے درمیان سانس لے رہا ہوتا۔

آہ۔ سانس لینے سے یاد آیا کہ سانس لینا بھی کیا اذیت ہے۔ جب آپ کے وجود میں پنجے گاڑے بیٹھا عفریت ہر لمحہ آپ کی سانس کی تاروں کو الجھانے میں مصروف ہو ایسے میں ایک ایک سانس بھیک کی طرح لے کر زندگی کی گاڑی کھینچنا آسان ہے بھلا؟ ارے نہیں میں آپ کو یہ سب کیوں بتارہا ہوں۔ آپ نہیں سمجھیں گے۔ اچھا؟ آپ سمجھنا چاہتے ہیں؟ واقعی؟ یعنی مجھے بھی کوئی سننے والا ہے؟ چلیں دیر آئے درست آئے۔ آپ مجھے نہیں پہچان پائے لیکن شاید۔ میں۔ ۔ ۔ مجھ جیسے کسی کی پہچان کا وسیلہ بن سکوں۔ ایسے تو ایسے ہی سہی۔

میں وہی ہوں جس کی پہچان ”اداکار“ ہے (نام سے فرق نہیں پڑتا درحقیقت میرا کوئی نام نہیں ہے جب پہچان ہی مبہم ہے تو نام میں کیا رکھا ہے ) ۔

میں وہی اداکار ہوں جو فلک شگاف قہقہوں کے بیچ بھیگتی آنکھوں کے ساتھ آپ سب کے سامنے موجود تھا لیکن قہقہوں کی بھیڑ میں ان آنسوؤں کو ”خوشی کے آنسو“ کہہ کر نظر انداز کر دیا گیا۔

میں وہی ہوں جسے دنیا ”مصور“ سمجھتی ہے۔ خوشی کا مصور۔ جس کی تخلیقات سے جھلکتی خوشی کا مصنوعی پن کسی نے نہ دیکھا یا شاید دیکھ کر ان دیکھا کر دیا۔

میں وہی ہوں جسے ”کروڑ پتی“ کا لقب دے کر دنیا کے ہر غم سے مستثنٰی خیال کیا گیا۔
میں وہی ہوں جس کو ”کامیاب“ دیکھ کر آپ نے اپنی کامیابی کے اصول وضع کیے ۔

ہاں! میں اداکار ہوں کہ میرے چہرے کے پیچھے ایک کال کوٹھڑی ہے جہاں وحشتوں کی چمگادڑیں ڈیرا ڈال کر بیٹھی ہیں۔

میں ”مصور“ ہوں جس نے اپنی تخلیق کو سنوارنے کے دھن میں اس کو اتنے رنگوں ہیں چھپا دیا کہ اس کا اصل رنگ کوئی نہیں جانتا۔

میں ”شاعر“ ہوں جس کے شعروں پہ ابھرنے والی آہ کی بجائے واہ کی آواز سماعتوں پہ تازیانے برساتی ہے۔

میں ”کروڑ پتی“ ہوں جس کی دولت کاغذ کے ٹکڑے ہیں۔ اور ان کاغذ کے ٹکڑوں کا ڈھیر بھی ایک ہمدرد کی دستیابی یقینی نہیں بنا سکتا۔

میں وہ ”کامیاب“ ہوں جس کی کامیابی رشتوں کو سنبھالنے کی کوشش میں عبرتناک شکست کے روبرو آکر اپنے وجود پر سوال اٹھاتی ہے۔

میں اداسی کا استعارہ ہوں۔

آپ نہیں جانتے سالگرہ کی تقریبات کا کیک کاٹتے چھری میرے ہاتھوں میں کیوں کانپی تھی۔ رات کی تنہائی میں مجھے شدید پیاس کے باوجود کچن میں جانے سے خوف کیوں آتا تھا۔ گیس کا سیلنڈر۔ چھریاں۔ چاقو۔ مٹی کا تیل۔ دیا سلائی۔ پنکھا۔ رسی۔ ریل کی پٹری یہ سب چیزیں میرے ذہن میں کیا طوفان اٹھاتی تھیں۔ ۔ ۔ اور پھر ایک دن آیا جب مصروفیت کے بوجھ تلے دبے وجود فون کی گھنٹی۔ میسج کی بیپ اور نوٹیفکیشن کی دستک کے جواب میں بے ساختہ کہہ اٹھے

”اررے اس نے خود کشی کرلی؟ یہ تو بہت خوش مزاج اور ہنستا کھیلتا انسان تھا۔ اسے کس چیز کی کمی تھی بھلا؟“ یہی سوال تھوڑے سے ردوبدل کے ساتھ میسج کی بیپ۔ اور نوٹیفکیشن کی دستک سے چند لمحے پہلے پوچھ لئے جائیں تو شاید اس سب کی نوبت ہی نہ آئے۔

میں نے بہت کوشش کی زندگی کی ڈور تھامے رکھنے کی۔ تنہائی کے سمندر کی بپھری لہروں سے لڑتے میں نے بہت ہاتھ پاؤں چلائے لیکن کسی کو میرے وجود کے گردلپٹی خون آشام لہریں دکھائی نہیں دیں۔ لوگ کہتے ہیں ”ہم جیسوں“ کے لئے موت آسان ہے۔ ہرگز نہیں موت آسان نہیں ہے لیکن پل پل کی موت سے یکلخت موت قدرے آسان لگتی ہے۔

”اس سے تو بات کرنا بے کار ہے اس کے موڈ کا کچھ پتہ نہیں چلتا“
”پتہ نہیں گھنٹوں کمرے میں بند کیا کرتا/کرتی ہے“
”تمہیں کیا پتہ۔ ترسنا کسے کہتے ہیں؟“
”تمہیں کس چیز کمی ہے بھلا“
اس سے بات کرکے اپنا موڈ خراب ہوتا ہے اس کے تو رونے کی ختم نہیں ہوتے ”
”تم دنیا میں اکیلے پریشان نہیں ہو، لوگ تم سے زیادہ مشکلات میں ہیں، ناشکری مت کرو“

اگر آپ کے گرد ایسے یا اس سے ملتے جلتے ”القابات و اعزازت“ کا حقدار ٹھہرایا جانے والا کوئی وجود ابھی تک سانس لے رہا ہے تو۔ اس کی خبر لیجیے۔ کیونکہ رسی، چھریاں اور دیاسلائی ہر گھر میں موجود ہے اور تنہائی کا کیا ہے وہ تو مل ہی جاتی ہے۔

بس آخر میں میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ
”ڈپریشن مذاق نہیں ہے“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments