بینظیر بھٹو، پاکستانی سیاست کی ساحرہ


بینظیر بھٹو پاکستانی سیاست کی ساحرہ تھیں۔ تھیں کہنا شاید مناسب نہیں ہوگا۔ وہ اب بھی پاکستانی سیاست کی ساحرہ ہیں۔ 86 میں وطن واپسی اور 88 میں وزارت عظمیٰ سے لے کر مرتے دم تک بلکہ آج تک ہماری سیاست ان کے سحر سے باہر نہیں آ سکی۔ یہی کمال ان کے والد مرحوم کا تھا۔ کئی دہائیوں تک لوگ ان سے تعلق میں گرفتار رہے۔ چاہے وہ تعلق محبت کا تھا یا نفرت کا۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں ان کی طرز سیاست کا مداح نہیں تھا۔ ہمارا گھرانہ روایتی طور پر دائیں بازو کا حامی تھا اور ہمارا شہید ضیاء الحق تھا۔

ٹھیک اسی طرح جیسے اکثر لیفٹسٹوں کے شہید بھٹو صاحب تھے۔ (اس زمانے میں اسی طرح اپنا اپنا شہید ہوا کرتا تھا۔ ماشاءاللہ، اب ہم اپنا اپنا کافر اور اپنا اپنا غدار بھی پیدا کر رہے ہیں ) کئی ایسی محفلوں میں جانا ہوتا جہاں بی بی کے ٹھٹھے اڑائے جاتے۔ منہ بگاڑ بگاڑ کر ان کی طرح گلابی اردو بولی جاتی۔ ایک زمانے میں اذان بج رہا ہے کا جملہ ان کی زبان سے ادا ہوا تو کس طرح چسکے لے لے کر اسے مدتوں بیان کیا جاتا رہا۔

زرداری صاحب سے شادی بھی ان کے ہم جیسے مخالفین کی ضیافت طبع کا باعث رہی۔ ویسے بھی اہل پنجاب کو مدتوں بعد نواز شریف کی صورت میں ایسا لیڈر مل گیا تھا جو انہی میں سے تھا۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ بھٹو صاحب کے برعکس بی بی نے یہ کوشش بھی نہیں کی کہ پنجاب کو اپنا پاور بیس بنائیں۔ ان کے گرد زیادہ تر سندھی رہنما ہی موجود رہے۔ ان پر سندھ کارڈ استعمال کرنے کے الزام بھی لگے۔ ایک فیکٹر شیعہ سنی کا تھا۔ ضیاء الحق اس ملک میں جو عفریتیں چھوڑ کر گیا ان میں ایک عفریت فرقہ واریت کی بھی تھی۔

پھر مذہب کے ٹھیکے داروں کی فتوؤں کی فیکٹریاں تھیں جن میں عورت کی حکمرانی کے خلاف آرڈر پر فتوے تیار کیے جاتے تھے۔ سکھوں کی لسٹیں انڈیا کو دینے کے الزامات الگ تھے، یہ ماحول تو تھا ہی لیکن منیر نیازی کے بقول کج شہر دے لوگ وی ظالم سن، کج سانوں مرن دا شوق وی سی۔ افسوس خود ان کی اپنی پارٹی نے اس تاثر کو دور کرنے کوشش نہیں کی۔ ان کا طرز حکومت ڈھیلا ڈھالا سا رہا۔ وہ عوام کو ڈیلیور نہیں کر سکیں۔ کرپشن کے الزامات نے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔

ستم یہ کہ وزارت عظمیٰ کے دوران بھائی قتل ہوا تو اس کا الزام بھی انہی پر لگایا گیا۔ شاید سمجھوتوں سے لیا گیا اقتدار بی بی کو راس نہیں آیا۔ رہی سہی کسر اس دور کے ”ارطغرل“ میاں نواز شریف نے پوری کر دی۔ دس بارہ سال کی اس لڑائی کا نتیجہ وہی نکل سکتا تھا جو صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے اپنی ایک نظم میں نکالا، لڑتے لڑتے ہوگئی گم، ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔ مشرف کے آنے سے پاکستانی سیاست کا دھارا بدلا۔ اس دور نے ایک نئی بینظیر بھٹو کو جنم دیا، وہی بینظیر جو ضیاء الحق کو سڑکوں پر اور جلسوں میں للکارتی تھی اب مشرف کو بند کمروں میں مذاکرات سے پچھاڑ رہی تھی۔ سیاستدان ایسا ہی ہوتا ہے۔ بند گلیوں میں راستے نکالتا ہے اور بساط پر ہاری ہوئی بازی ایک چال سے الٹ دیتا ہے۔ بی بی نے مشرف کا پورا اقتدار ہی الٹ دیا لیکن اس ایک چال میں ان کی جان چلی گئی۔ بھٹو صاحب کی پھانسی سیاہ رات کا نقطہ آغاز تھی جبکہ بی بی کا قتل آمریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔

تیرہ سال گزر گئے، سنتھیا رچی کے الزامات میں ڈوبی پیپلز پارٹی کی قیادت سے سوال تو بنتا ہے کہ کون سا آسیب تھا جس کو دیکھنے سے وہ پتھر کے ہوگئے اور ایسے ہوئے کہ اقتدار کے پانچ برسوں میں ان کے قاتلوں کے نام بھی نہیں بتا سکے۔ قدیم یونانی روایات میں ایک چرواہے کا قصہ ملتا ہے جو پہاڑ پر مویشی چرایا کرتا تھا۔ اس پہاڑ کی آب و ہوا اسے اتنی پسند آئی کہ راتیں بھی وہیں بسر کرنے لگا۔ کبھی کسی پتھر کو تکیہ بناکر اس کی آغوش میں سر رکھ دیتا اور کبھی کسی چشمے کے کنارے سکون پا کر سو جاتا۔

ایک رات چاند کی دیوی saline اس مرغزار کی سیر کو آئی تو چرواہے کا خوابیدہ حسن دیکھ کر اسے دل دے بیٹھی اور ساری رات اس کے جانوروں کی رکھوالی کرتی رہی۔ پھر یہ اس کا معمول بن گیا۔ رت جگوں سے saline کی رنگت زرد پڑ گئی تو موسم اور انصاف کے دیوتا zeusنے اس سے بازپرس کی۔ saline اس کے سامنے گڑگڑا کر کہنے لگی Endymion (چرواہے کا نام) بہت حسین اور اس کا محبوب ہے۔ اس نے خواب میں دیکھا ہے کہ وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوگا بلکہ ہمیشہ ایسا ہی خوبصورت اور جوان رہے گا۔

Zeus نے روایتی سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زہرخند لہجے میں کہا کہ دیوتا کسی کو ابدی جوانی اور دائمی حسن نہیں دے سکتے، ہاں وہ انہیں ابدی نیند ضرور سلا سکتے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ حسین اور جوان رہیں۔ Endymion بھی اب دائمی نیند سوئے گا اور ابد تک حسین اور جوان رہے گا۔ گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ساحرہ بھی ابدی نیند سو رہی ہے۔ اس کا سحر اسی طرح برقرار ہے، اب خدا جانے انصاف کے دیوتا اسے دیکھ کر کیا محسوس کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments