والد کی یاد اور تقسیم کی لکیر


بٹوارے کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا، زمین ایک ہی رنگ کی فصل اور ایک جیسا پھل دینے کے لیے تا حد نگاہ پھیلی تھی۔ رات کے سناٹے میں سسکی، آہ اور ہنسی سب ایک سکوت میں گم تھے۔ کہیں کوئی ٹرانسزٹر برصغیر کے احوال کے بارے میں پہلے سے لکھی ہوئی خبر نشر کر رہا تھا۔ لوگ جو کان لگا کے بیٹھے تھے، وہ سن رہے تھے کہ جس دھرتی پہ ان کے آبا و اجداد نے زندگیاں بتائیں، وہ ان کے لیے اب پرائی ہونے والی ہے۔ اپنے پن کے تمام حوالے مکمل ناآشنائی میں بدلنے والے تھے۔

ان کی اولادیں اب کسی نئے تعارف سے جانی پہچانی جائیں گی۔ صرف وہی جانتے تھے کہ کیا ہونے کو ہے۔ صبح ایک آسمان کو چھوتی ہوئی مگر نہ نظر آنے والی دیوار اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ یہ دیوار بیشک تصوراتی تھی مگر اس کی اونچائی کو نظریے کی بنیاد سے چنا گیا۔ ۔ ۔ زمین پہ تقسیم کا خط ابھر چکا تھا، مکین مسافر بننے کو راضی تھے۔ چند سال پہلے جو وطن بدری پہ بپھر جاتے تھے، وہ اب بخوشی رضامند تھے۔ لکیر کے دونوں اطراف ہلچل مچ گئی تھی، بغل میں بیٹھا پڑوسی جس نے پچھلی رات کو اپنے بیٹے کی شادی کی دعوت دی تھی، صبح ہوتے ہی وہ متوقع مہمان پہ ٹوٹ پڑا تھا۔

سبھی جاننے والے اجنبی بن گئے، خوف نے اپنے سائے سے پوری زمین کو ڈھانپ لیا تھا۔ فصل جو پک کے تیار تھی، جس کی امید پہ کئی خاندانوں کا مستقبل روشن تھا، اسے انسانوں کے قافلوں نے روند ڈالا کیونکہ وہ فصل اب ایک ایسے دشمن کی تھی کہ جس کے ساتھ وہ بچپن میں گلی ڈنڈہ کھیلتے رہے اور تہواروں پہ پکڑ پکڑ کے ایک دوسرے کومٹھائیا ں کھلاتے رہے۔ دوست ازلی دشمن بن گئے تھے، بٹوارے کی سوچ نے سالوں کے یارانے کو گہن زدہ کر دیا۔ اب تعلق داری میں کوئی مان نہیں بچا تھا۔ چونکہ اب کے بعد نفرت کا قاعدہ ہے، آنکھیں پھوڑنے، گردن اڑانے اور عزتیں تار تار کر دینے کی رسم کا آغاز ہے۔

یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں تک انسانوں کا ایک سمندر بہہ رہا تھا اور اس میں گلابی رنگ کی کئی چھوٹی بڑی لکیریں نمودار ہو گئی تھیں۔ یہ خون تھا، انسانوں کا خون کہ جس کے لیے سب جواز بے معنی تھے مگر سچ یہ ہے کہ خون بہتا رہا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا، کچھ لوگ جہاں تھے وہیں رہنے کا فیصلہ کر گئے۔ کہیں بلونت کمار نے پرائی ہونے والی زمین کی مٹی کو آخری بار مٹھی میں بھرا ہی تھا کہ ہندوستان کا قافلہ تیار ہو گیا۔ اتنے میں کہیں سے نامعلوم برچھی بردار آئے تو اگلے لمحے وہی مٹی اس کے لہو سے تر تھی۔ لکیر کی دوسری طرف پاکستان کو آنے والے قافلے پہ بلوائیوں نے حملہ کر دیا اور ادھر فضل دین کے گلے پہ چھری چل گئی۔

تقسیم کے گھاؤ وہی بتا سکتی ہے کہ جو نسل اس عہد کی آخری ساعتیں جی رہی ہے۔ جنہوں نے وہ واقعات اور منظر پڑھے ہیں، وہ اس کی اذیت اور اس سے پیدا ہونے والے جذباتی بھونچال سے قطعی ناواقف ہیں۔ ان کے نزدیک کٹنے مرنے میں ہی تمام الجھنوں کا حل ہے۔ اگر چہ جنگ، تصادم اور فساد کبھی انسانی سماج استوار نہیں کرتے بلکہ اس کے نتیجے میں وحشت، دہشت اور خوف ہی پروان چڑھتے ہیں۔

میرا والد کے ساتھ تعلق ہمیشہ تقسیم ہند کے واقعات سے جڑا رہا، وفات سے کچھ ماہ قبل انہوں نے مجھ خود کہا کہ تم یہ باتیں قلمبند کیا کرو۔ میں نے ہاں میں ہاں ملائی مگر طبعی سستی کے تحت وہ موقع گنوا دیا۔ ہم باپ بیٹا جب بھی قریب بیٹھتے تو میرے والد ان ایام کو ضرور یاد کرتے تھے۔ فارسی اور اردو دونوں زبانوں پہ انہیں اچھی دسترس تھی۔ ان دنوں جب سب دنیا اپنے والد سے وابستگی کا اظہار کر رہی ہے تو میرے پاس بھی وہی گفتگو ہے جو وہ اپنی زندگی میں میرے ساتھ کرنا پسند کرتے۔

والد 1947 میں میٹرک کے طالب علم تھے، سخت دیندار آدمی تھے۔ مگر جب تقسیم ہندوستان کی بات ان سے ہوتی تھی تو وہ آبدیدہ ہو جاتے تھے، وہ اپنے ہمسایوں کی ہمیشہ تعریف کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کبھی ہندوؤں کی کوئی رسم ہوتی یا کوئی تہوار ہوتا تو مسلمانوں کی مساجد کے پاس پہنچ کے ان کے شادیانے بجاتے جلوس بڑی خاموشی اور احترام سے گزرتے تھے۔ عقیدے کو ٹھیس پہنچانے کا عنصر اتنا ہی تھا کہ جتنا آج مختلف ناموں اور حوالوں سے ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں ہوتا ہے۔

اس قدر تنگ نظری نہیں تھی کہ جتنی ہم تاریخ کی کتب میں پڑھتے ہیں۔ ویسے تو کئی واقعات ہیں مگر دوواقعات کا حوالہ ضروری ہے۔ ابا جی اپنے آبائی گاؤں میں پرائمری سکول میں زیر تعلیم تھے، ان کے استاد ایک ہندو تھے۔ ان صاحب کی اولاد نہ تھی۔ جماعت کے بچوں سے اس درجہ شفقت سے پیش آتے کہ گھر میں ان کی بیوی نے کوارگندل کا اچار بنا رکھا تھا۔ والد بتاتے تھے کہ ایک دفعہ ہمارے ایک ہم جماعت نے پیٹ درد کی شکایت کی۔ تو ماسٹر جی بولے کہ جاؤ میرے گھر اور بتانا کہ پیٹ درد ہے، ماسٹر جی نے بھیجا ہے۔ تھوڑا اچار کھانے کے واسطے دے دیں۔ بس پھر کیا تھا روز ہماری پیٹ میں مروڑ اٹھتی اور روز اسی بہانے ماسٹر جی کے گھر جاتے اور وہ لزیز اچار کھاتے۔ مجال ہے جو ایک دن بھی ماسٹر جی یا ان کی گھر والی نے توبہ پڑھی ہو یا آف کا کلمہ کہا ہو۔

اسی طرح نویں جماعت میں والد صاحب کے بورڈنگ میں قیام کے دوران ایک ہندو اور مسلمان لڑکے کی آپس میں ٹھن گئی۔ ہنگامہ ہوا، وارڈن تک بات پہنچی۔ اتفاقا وارڈن ہندو تھے، غلطی مسلمان لڑکے کی تھی لہذا سزا ملی۔ صبح سکول کے اوقات میں مسلمان لڑکے احتجاجاً ہیڈ ماسٹر کے دفتر کے باہر اکٹھا ہوئے کہ مسلمان لڑکے کے ساتھ تعصب کی وجہ سے امتیازی سلوک ہوا، ناحق سزا دی گئی۔ ہیڈ ماسٹر جو کہ خود بھی ہندو تھے انہوں نے وارڈن کو بلایا اور سوال کیا کہ ماجرا کیا ہے۔

اس وارڈن نے جواب میں استعفی جیب سے نکال کے میز پہ رکھ دیا۔ جب پوچھا گیا کہ اس کی وجہ کیا ہے، تو وہاں ایک تاریخی بات اس وارڈن نے کہی کہ دیکھیے جب تنازعہ ہندو مسلمان لڑکے کا ہے، سزا دینے والا بھی ہندو ہے، فیصلہ کرنے والا بھی ہندو ہے تو ایسے میں صفائی کون سنے گا۔ ویسے بھی پورے دیس میں نفرت کی آگ سلگائی جا رہی ہے تو میں ایندھن مہیا کیوں کروں۔ یہ جملے امر ہیں، اس سوچ کو کوئی گولی نہیں مار سکتا اور نہ تلوار سے قتل کر سکتا ہے۔

سب کچھ ایک ترتیب سے ہوا، بہت سے مر گئے، کئی لٹ گئے۔ اپنے گھروں، کھیتوں اور روزگار کو چھوڑ کے، اپنی یادوں کی گٹھڑی اٹھائے بھاری قدموں کے ساتھ چل پڑے۔ ایک طرف شہادت تھی دوسری طرف موت تھیں، مگر انسانوں کے تبادلے میں انسانیت ہی گھاٹے میں رہتی ہے۔ یہ کرب و ملال ہر گزرتی نسل کے ساتھ گزرتا جا رہا ہے، مگر زمین و آسمان نے سب کچھ ہوتے دیکھا ہے۔ ہم اس حقیقت کو کھرچ کھرچ کے بھی ہٹائیں تو بہت کچھ کتاب زیست کے پرزوں کی صورت پھر بھی باقی رہ ہی جائے گا۔ دیس نکالا ایک عذاب ہے وہ چاہے ہندو جھیلے یا مسلمان، کسی بھی رنگ اور نسل کا ہی کیوں نہ ہو اس درد کی کوئی دوا نہیں۔ بس تاریخ کا ایک سبق ہے کہ نفرت اور تعصب سے کبھی زندگی کا پودا نہیں اگتا اور نہ احساس کی نمو ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments