طارق عزیز، ذوالفقار علی بھٹو اور عوام کی نفسیات
ہر دلعزیز استاد، دانشور، صحافی، صداکار، اداکار، اور چلتا پھرتا چھوٹا سا پاکستان طارق عزیز پیوند خاک ہوا۔ میری ان بہت سے لوگوں سے نیاز مندی رہی جن کی نیاز مندی طارق عزیز صاحب سے رہی۔ جی چاہا ان پہ کچھ لکھوں مگر اس بات کو کسی اور وقت پہ اٹھا رکھتے ہیں۔ ویسے بھی طارق عزیز صاحب کی شخصیت اور ان کی زندگی سے جڑے واقعات کو اک کالم میں سمونا ناانصافی ہوگی۔ اس طرح کے موضوعات زندگی کے ساتھ ساتھ ایسے چلتے ہیں جیسے چاندنی رات میں چاند ساتھ چلتا ہے۔
طارق عزیز صاحب کی قبر کو اللٰہ کریم نور سے بھر دے۔ وہ اک بے چین روح لے کر اس جہاں میں آئے تھے۔ یہی بے چینی بے قراری انہے قریہ قریہ کوچہ کوچہ لیے پھری۔ طارق عزیز صاحب اور ساغر صدیقی ہم نشین رہے۔ اسی لیے کبھی عرش پر کبھی فرش پر کبھی ان کے در کبھی در بدر۔ طارق عزیز صاحب کا تعلق سیاست سے بھی رہا اور تعلق بھی ایسا کے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی قربت نصیب ہوئی۔ طارق عزیز صاحب نے صحافت بھی کی اور نوائے وقت میں عمدہ کالم لکھے۔ طارق عزیز صاحب کے کالمز پہ مبنی کتاب ”داستان“ سے اک واقعہ احباب کی نظر جو استادم ارشاد عارف صاحب کے توسط سے مجھ تک پہنچا۔
”جدوجہد کے دنوں کا ایک واقعہ یاد آ گیا کہ بھٹو صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ تو ڈرامہ کرتے ہی تھے۔ لیکن سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے وہ اپنی اولاد سے بھی ڈرامہ بازی کر جاتے تھے۔ اس وقت یادوں کی گٹھڑی سامنے کھلی پڑی ہے آئیے اس واقعہ کے لطف میں آپ بھی شامل ہو جائیں۔ یہ جدوجہد کے دن تھے خیبر سے کیماڑی تک پاکستان پیپلز پارٹی کا ترنگا بڑی آب و تاب کے ساتھ لہرا رہا تھا۔ روٹی، کپڑا اور مکان کے نعروں سے پورا ملک گونج رہا تھا، لرز رہا تھا اور مخلوق خدا کے حلقوم سے ایک ہی صدا نکل رہی تھی۔“ جئے بھٹو سدا جئے بھٹو ”۔
انہی دنوں کراچی میں ایک بہت بڑا جلسہ ہو رہا تھا۔ بہت بڑا اسٹیج بنایا گیا تھا جس پر پارٹی کے تمام عہدیدار اور سینیٔر لوگ بیٹھے تھے۔ میں اور معراج محمد خان بھی اس جلسے میں موجود تھے۔ میری اور معراج محمد خان کی تقریر کے بعد آخری مقرر بھٹو صاحب تھے۔ جن لوگوں نے ان دنوں بھٹو صاحب کے جلسے دیکھے اور سنے ہوں، ان کو بھٹو صاحب کا سارا بانکپن اور اسٹائل یاد ہو گا وہ لوگوں کی نفسیات کے بہت ماہر تھے اور لوگوں کو خوش کرنے کی دھن میں کبھی کبھی حد سے بھی گزر جاتے تھے۔
اس دن ہماری تقریروں کے بعد جب حسب معمول بھٹو صاحب تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ بھٹو صاحب نے عوامی سوٹ شلوار قمیص پہنا ہوا تھا اور اٹھنے سے پہلے انہوں نے اپنے ایک کف کا بٹن بھی کھول لیا تھا۔ بھٹو صاحب نے ہاتھ ہلا ہلا کر لوگوں کی محبتوں کا جواب دیا۔ پھر انہوں نے اپنے روایتی انداز میں تقریر شروع کی۔ کچھ دیر کے بعد انہوں نے ایک دو مقرروں کے نام لے کر ان کے خیالات سے اختلاف بھی کیا اور کہا کہ یہ لوگ صحیح صورت حال سے واقف نہیں ہیں۔
انہوں نے میرا نام لے کر بھی میری تقریر کے کچھ ایسے حصوں کے بخیے ادھیڑے جو کچھ میں نے ہارون فیملی کے بارے میں کہا تھا۔ حالانکہ تقریر سے پہلے بھٹو صاحب نے خود مجھے وہ پوائنٹ بتائے تھے اور تاکید کی تھی کہ میں اپنی تقریر میں اس کا ذکر ضرور کروں۔ پھر جب بھٹو صاحب نے میرا نام لے کر میرے انہی پوائنٹس کی نفی کی تو میں حیران رہ گیا کہ ”یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے“ ۔
ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے کہ اچانک بھٹو نے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے اپنے بیٹے شاہ نواز سے مخاطب ہو کر کہا۔ شاہ نواز تم یہاں کیوں بیٹھے ہو۔ تمہیں یہاں بیٹھنے کی اجازت کس نے دی ہے۔ یہاں صرف پارٹی کے رہنما بیٹھیں گے جنہوں نے عوام کی خدمت کی ہے تم یہاں سے اٹھو اور نیچے عوام کے ساتھ جا کر زمین پر بیٹھو تم میرے بیٹے ہو تو گھر میں ہو۔ یہ سب میرے بیٹے ہیں تمہیں ان کے ساتھ بیٹھنا ہے چلو اترو اسٹیج سے اور میرے ان لاکھوں بیٹوں کے ساتھ بیٹھو تاکہ تمہیں ان کے دکھ درد کا احساس ہو شاہ نواز بے چارہ حیران پریشان بلندی پر بنے ہوئے اسٹیج سے اٹھا اور سیڑھیاں اتر کر سامنے دری پر لوگوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔
بھٹو صاحب کی اس ادا پر پوچھئے نہیں کہ لوگوں کے جوش و خروش کا کیا حال ہوا۔ کم و بیش پانچ سات منٹ تک فضا جئے بھٹو کے نعروں سے گونجتی رہی۔ پھر بھٹو صاحب نے غیر ملکی نامہ نگاروں اور ٹیلی ویژن کے لئے کوریج کرنے والی ٹیموں کی طرف منہ کر کے دو چار منٹ انگریزی میں تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ”میری پارٹی میں وہی عزت پائے گا جو عوام کی خدمت کرے گا۔ میری پارٹی میں خون کے رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں“ جلسہ بہت دیر تک جاری رہا اور بڑی کامیابی کے ساتھ ختم ہوا۔
دوسرے دن میں اور معراج محمد خان بھٹو سے کسی کام کے سلسلے میں ملنے کے لئے کلفٹن گئے تو بھٹو صاحب سے پہلے شاہ نواز سے ملاقات ہو گئی۔ شاہ نواز بچہ ہی تو تھا۔ ہمیں دیکھ کر کچھ جھینپ سا گیا۔ ہم نے پوچھا شاہ نواز تم تو کبھی اس طرح جلسوں میں نہیں جاتے تھے۔ کل کیسے آگئے۔ شاہ نواز نے روہانسا سا ہو کر جواب دیا کہ ڈیڈی نے خود مجھے جلسے میں آنے کے لئے کہا تھا۔ میں نور محمد کے ساتھ گیا۔ مجھے اسٹیج پر بیٹھنے کے لئے کہا گیا اور پھری ڈیڈی نے سب کے سامنے مجھے اسٹیج سے اتار دیا۔ ہماری سمجھ میں ساری بات آ گئی۔ ہم نے شاہ نوازکو دلاسا دیا کہ بھٹو صاحب آپ کے ڈیڈی ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کیا ٹھیک ہی کیا ہو گا۔ اس میں کوئی مصلحت ہو گی۔ پھر دو چار ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد ہم ڈرائینگ روم میں بھٹو صاحب کے پاس چلے گئے۔
- مچھر مار سپرے اور لندن میں حملہ - 23/05/2021
- عالیہ اور عظمیٰ - 09/05/2021
- جنرل ضیاء کے جوتے اور جمہوریت سے انتقام - 05/07/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).