صدر کراچی کے ٹھگ


ہندوستان کے ٹھگ تو ایک پورا موضوع ہے۔ جنھوں نے ٹھگی کے ذریعے لوٹ مار کی اور نا جانے کتنے لوگوں کا خون کیا جن کی قبریں بھی نہ ملیں۔ انگریزوں نے ٹھگوں پر کس طرح قابو پایا یہ قصہ بھی تاریخ کا موضوع ہے۔ آج تک ضابطہ فوجداری کے کتاب میں ٹھگ لفظ کی معنی انڈین پروفیشنل ڈاکو ہے۔ سندھ میں دہلی اور بمبئی کے ٹھگوں کی کہانیاں قصے اور محاورے بڑے مشہور ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریز خود بھی یہاں تاجروں کے روپ میں لٹیرے تھے اور پھر ہندستان پر قبضہ کر لیا۔

لیکن کون ہے اس شہر کراچی کا باشندہ جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ کراچی میں صدر کے ٹھگوں سے بچ سکا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ ٹھگ قتل نہیں کرتے بلکہ ضرورت پڑنے پر ہاتھا پائی ضرور کرتے ہیں۔

ان ٹھگوں کی لاتعداد کہانیاں، قصے ہیں۔ جن کو اگر جمع کیا جائے یا پھر ایک ٹھگ کی آب بیتی جیسی شہرہ آفاق کتاب کی طرح جمع کیا جائے تو دلچسپ داستان جمع ہو جائے۔ جو کہ خود بھی سادہ لوح لوگوں کو ان سے بچنے کا سامان مہیا کردے۔ اگر یہ قصے پڑھ کر آپ کے من میں قانونی کارروائی اور پولیس کی مدد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو اس کے لئے پیشگی معذرت اس ملک میں بڑے بڑے ٹھگ ملک بیچتے پھرتے ہیں۔ آپ کے خون کی کمائی ویسے ہی ہڑپ ہوجاتی ہے۔ اس لئے اس مضمون سے ایسی کوئی توقع نہ رکھیں بس اگر آپ بھی کبھی کسی ایسے ہی قصے کا کردار بنے ہیں تو لکھ ڈالیں۔

اگر آپ کراچی کے رہائشی باشندے ہیں تو پہلی دفعہ لٹ کر آپ نے ارادہ کر لیا ہے کہ اب کوئی مہم جوئی یا اعتبار نہیں کرنا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ ٹھگ کوشش یہی کرتے ہیں کہ ان کا شکار کراچی کا شہری نہ ہو بلکہ کوئی مسافر ہو تو اچھا ہے کہ وہ واپس آکر کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرے گا۔

آئیے کچھ قصہ پڑھ لیتے ہیں۔

اگر آپ کسی اور شہر سے کراچی میں آئے ہیں اور آپ نے صدر کا رخ کیا ہے تو آپ کو شکل صورت رنگ ڈھنگ کو دیکھ کر کوئی سلام کر کے ملے گا اور کہے گا کہ بھائی آپ کے آنکھوں کے نیچے حلقے بن گئے ہیں اور دوائی بتاؤں فی سبیل اللہ۔ آپ نے اگر اس کی بات سن لی اعتبار کر نا شروع کیا تو وہ آپ کو قریب کسی پنساری یا حکیم صاحب کی دکان پر لے جا کر ہزار پندرہ سو کا چونا لگا دے گا اور کچھ سستی سی جڑی بوٹیوں کا مرکب آپ کے ہاتھ میں پکڑا دے گا۔

چونا لگانا بھی کراچی کا محاورہ ہے۔

کسی جگہ دکاندار آپ کو الیکٹریکل سامان اسپیکر پر واک نیلامی پر بیچتے ملے گا۔ اور آپ یقیناً صدر گھومنے آئے ہیں تو آپ اس دکان پر رک کر یہ نیلامی ضرور دیکھیں گے آپ کو لگے گا کہ کچھ بندے مہنگا سامان واک میں کامیابی پر سستے ترین ریٹ پر لے جا رہے ہیں اور لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ پھر آپ بھی راڈو کی دو نمبر سنہرے کلر کی گھڑی خریدیں گے۔ یا نیشنل کی استری واک میں خریدیں گے جو کہ اصل قیمت سے بھی مہنگی ہوگی۔ اکثر تو آپ کے ساتھ واک لگانے کے لیے کھڑے شخص بھی دکاندار کے پارٹنرز ہوں گے۔ اور آپ کے واک والی چیز کو لینے کے لئے ایک دوسرے سے الجھ پڑیں گے اور پھر وہ چیز آپ کے کم ریٹ والے واک پر بھی آپ کے گلے میں ڈال دی جائے گی۔

اسی طرح یہ دکان الیکٹرک سامان قرعہ ڈال کر بھی دے رہے ہیں۔ آپ کے سامنے قرعہ میں دوسروں کے انعام نکلیں گے اور آپ ناکام ہی رہیں گے۔

پھر کہیں کوئی آپ ایک چادر، کھیس، کپڑا یا کوئی سامان ہاتھ میں پکڑے نظر آئے گا اس نے کاندھے پر اسی کپڑے کی پوری گٹھڑی اٹھائی ہوگی۔ آپ ایک کپڑے کی قیمت پوچھیں گے تو وہ آپ کے توقع سے انتہائی زیادہ دام بتائے گا آپ خاموشی سے اپنا راستہ لیں گے اور آپ کے پیچھے لگے گا کہ آپ اپنا دام بتاؤ آپ جان چھڑانے کے لیے کہیں گے کہ بھائی مجھے نہیں لینا۔ وہ کہے گا گہ نہیں آپ بتائیں۔ آخر آپ تنگ آ جائیں گے وہ آپ کو آپ کی شکل اور صورت اور کنگلا پن کے طعنے دینے لگے گا آپ کی غیرت جوش مارے گی آپ کو مجبوراً بتانا پڑے گا کہ آپ کنگلے نہیں ہیں اور آپ کے پاس پیسے بھی ہیں مگر آپ کو سامان خریدنا نہیں ہے وہ اور طعنے تنکے مارنے پر اتر آئے گا اور ضد کرے گا کہ آپ جو وڈیرہ سائیں یا چودھری صاحب بن کے صدر گھوم رہے ہیں اصل میں آپ ایک مفلوک الحال اور کنگال شخص ہیں۔

اور آپ کو جذباتی کر کے اسی ایک کپڑے کی قیمت میں یا قیمت میں کچھ اضافہ کر کے آپ کو پوری گٹھڑی خریدنے کی آفر کرے گا اور آپ کو چیلنج دے گا کہ آپ اگر کنگلے نہیں ہیں تو اس قیمت پر یہ پوری گٹھڑی خرید کر دکھائیں۔ آپ جوش میں آکر وہ پوری گٹھڑی خرید ہی لیں گے جو کہ اصل میں ہوگی ہی اتنی قیمت کی یا اس سے بھی کم۔

پھر فٹ پاتھ پر آپ بوٹ خریدیں گے تو سائڈ پر بیٹھا موچی آپ کو نصیحت کرے گا کہ یہ پرانے جوتے ہیں ان کو کیل لگا کے مضبوط بنائیں۔ آپ کو کچھ خوبصورت انداز سے کیل لگے جوتے بھی دکھائے گا۔

آپ مزدوری پوچھیں گے تو کہے گا جو مناسب ہو دے دیجئے گا اگر آپ نے حامی بھری اور اپنا اندازہ لگا کر جوتا اس کے حوالے کیا اور کیل لگنے کے بعد وہ مناسب اندازے والی اجرت دینے لگیں گے تو وہ لڑنے پر اتر آئے گا۔

آپ کے ہاتھ سر پر آ جائیں گے جو اجرت وہ طلب کرے گا۔ اس کی اجرت اتنی ہوگی کہ آپ ایک اور جوڑی جوتوں کی خرید کر سکتے ہیں۔ پیسے تو آپ کو دینے ہی پڑیں گے۔ ورنہ قریب کے دکاندار آپ کو پکڑ کر ماریں گے اور آپ کے کپڑے پھاڑنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

اگر آپ جلدی میں ہیں اور موبائل فون خریدنا چاہتے ہیں تو روڈ پر کھڑا شخص یا کوئی دکاندار آپ کو اصلی موبائل فون دکھا کر پیسے لے کر ڈمی فون آپ کو پکڑا سکتا ہے۔ خراب موبائل فون لگ گیا تو لگ گیا۔ کوئی تو تو میں میں نہیں ورنہ صدر کے دکاندار۔ ہوش کر پیارے۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی دکاندار آپ کو پانچ سو روپے والا کیمرہ کی قیمت ساڑھے پانچ ہزار بتائے اور پھر آپ کی منتوں پر آخر میں پانچ ہزار رعایت کر کے آپ کو وہ پانچ سو روپے میں فروخت کردے۔ مگر یاد رہے دکاندار آپ سے ایک ہی گزارش کرے گا کہ آپ کو کسی کو خریدی قیمت نہیں بتانی ہماری مارکیٹ خراب ہوگی ہم نے بس آپ کے کی خوشی کے لیے یہ گھاٹے کا سودا کیا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کو سلام کرے ہاتھ ملائے آپ کے علاقے کا پتہ پوچھ کر آپ کے آبائی ضلعی کے پڑوسی کسی اور ضلع کا رہائشی بتائے اور آپ کی زبان میں بات کر کے آپ سے جیب کٹ جانے کی بات کرے اور عورتوں کے ساتھ ہونے کی بات کر کے پیسے نکال لے۔ آپ سے پیسے مانگنے کا واحد سبب اور احسان فقط آپ کا اس کے ہم دیسی ہونا ہے۔

اب اگر آپ نے خریداری مکمل کر کے اپنے شہر واپسی کے لئے کسی بس میں بیٹھے ہیں تو کوئی شخص آپ کو شاپر میں پیک اور استری سے تہہ کیے کپڑوں کے سلے ہوئے چار جوڑے پانچ سو روپے میں بھی فروخت کر کے جائے گا اور بعد میں کھولنے پر وہ کسی بھی طرح پہننے کے قابل نہیں ہوں گے، بوسیدہ پرانے پھٹے ہوئے نکلیں گے۔

صدر میں آپ عطائی حکیم سے سنگ چور سانپ دیکھنے کی آس میں کھڑے ہوں گے اور بات یہاں پہ ٹوٹے گی کہ آپ پچاس روپے میں دوا خرید کر چوبیس گھنٹے میں طاقتور بننے کے خواب دیکھ رہے ہوں گے۔

شاید سانڈے کا تیل اور فٹ پاتھ پر ملتی سی ڈی کا دور ختم ہوگیا ہے۔ لیکن اب بھی دانتوں اور کانوں کے سرجن فٹ پاتھ پر بیٹھے آپ کو ملیں گے اور پروفیسر اور اس کا طوطا آپ کے قسمت کا حال سنانے کے لئے بھی موجود ہیں۔

مگر یاد رہے کہ یہ صدر کراچی کی حقیقی پہچان قطعی بھی نہیں ہے۔ صدر کراچی کی حقیقی پہچان ہے سب سے سستی مارکیٹ۔ شہر میں سب سے سستا فروٹ، ڈرائی فروٹ، دنیا جہان کی چائے، سبزی مصالحہ جات، الیکٹرانک کا سامان، گھڑیاں، سی ڈی ڈی ٹی وی ریموٹ کنٹرول، کمپیوٹرز، لنڈا بازار کا سامان، سردی کے کپڑے، ریڈی میڈ کپڑے، بیگز، برتن، بچوں کے کھلونے، فوٹوگرافی کے دکان، سستے رہائشی ہوٹلز، سستے کھانے، نہاری اور بہت ساری اقسام کی چیزیں جو کہ شہر کا سفید پوش طبقہ یہاں سے خریدتا ہے۔ کراچی کی سب سے پرانی مارکیٹ ایمپریس مارکیٹ جو کہ آج بھی موجود ہے۔ کچھ دن پہلے ایک ریاست کی طرف سے جبری توڑ پھوڑ کی لہر چلی اور ایمپریس مارکیٹ کے آس پاس کی سیکڑوں دکانیں مسمار کردی گئی۔ سیکڑوں ہاکرز کو بے دخل کیا گیا جو کہ قابل مذمت عمل ہے۔

چھوٹے دکانداروں اور ہاکرز کو بے دخل کر کے ریاست اپنی رٹ قائم کرنے چاہتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس شہر میں مافیاز نے راج کیا ہے۔
اس لئے کراچی شہر کے بے بس شہری ساتھی بھائی آپ کو فقط کسی ایسے ہی معمولی ٹھگ کے ہاتھوں بے وقوف بننے کی اپنی کہانی سنانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments