قرض کی مالا اور یہ زندگی


سوال کرنا اور اس کا جواب کھوجنا ہر انسان کا حق بھی ہے اور فطرت بھی اور اسی لئے انسان کو اشرف لمخلوکات کہا گیا ہے۔ آج کا سوال بہت اہم تو ہے پر اتنا منفرد نہیں۔ آپ کی زندگی کا حقیقی مقصد کیا ہے؟ بہت سے لوگوں نے اس سوال کو اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں سوچا ہو گا۔ کچھ کو شاید اس وقت اس کا جواب سمجھ نہیں آ سکا ہو پر وہ مرحلہ طے پا جانے کے بعد سب صاف سمجھ آیا ہو اس کی تشبیہ میں اس دھندلے آئینہ سے دینا چاہوں گی جو اپنے مقام پر آنے والی موسمی دھند کا سامنا کرتا ہے، وقت اس وقت تھم جاتا ہے مگر جیسے ہی یہ وقت گزرتا ہے دھندلاہٹ اس آئینہ سے بالکل صاف ہو جاتی ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی کوشش کے بغی نا تو موسمی دھند رکتی ہے اور نہ ہی وقت گزرنا یہ سب کچھ آپ کی کی گئی کوشش اور پراوریٹیز پر ہے، محض تنگی، بوجھ اور مشکل کی وجہ سے سوال کے جواب کھوجنا مت چھوڑیں۔ اس دھندلے آئینے کو دیکھ کر ایک بار ضرور سوچیں کے کیا اس کی جگہ صحیح ہے، کیا اس دھند کا وقت صحیح ہے، کہیں اس دھند کے آنے سے کچھ بہت اہم نظر انداز تونہیں ہو گیا، کیا اس دھند کا کوئی فائدہ بھی ہے یا یہ محض بے اثر وقتی دھندلا ہٹ ہے؟ کیا اس کو دھندلے پن سے ہٹانے کی آپ کی کوشش مکمل ہے؟

چند ضروری سوال آپ کو آنے والے وقت کے لیے ضروری اقدم اٹھانے کی ہمت فراہم کر دیں گے۔ اپنے دماغ کو آج پر مت چھوڑیں، آگے بڑھنے کے لیے آج سے محنت کریں اور دھیان دیں۔ اس دوران غلطی ہو جائے تو سر نا پیٹییں، اس غلطی کو سمجھ کر خود کو یہ باور کروائیں کہ وقتی خناس، احساس جرم، حسد جلن یا کسی بھی قسم کی نفرت پالنے سے آگے نہیں بڑھا جاتا۔ میرے مطابق زندگی کا حقیقی مقصد آگے بڑھنا ہے۔

اپنے دل و دماغ میں ٹھان لیجیے کہ دنیا ا یک ایسی جگہ ہے جہاں پر ہر کوئی ایک دوسرے کا مقروض ہے چاہے وہ والدین کا بچوں سے رشتہ ہو، بچوں کا اپنے والدین سے، ایک استاد کا اپنے طالب علم سے، طالب علم کا اپنے استاد سے، حکومت کا اپنی عوام سے اور عوام کا اپنی حکومت سے۔ سب سے پہلے قرض کی مالا تو والدین کی طرف سے آپ کے گلے میں ڈالی جاتی ہے، جب انہوں نے دن رات جاگ کر اپنی خوشی سے اچھے برے حالات میں آپ کی تعلیم و تربیت کی اور آپ کو اس قابل بنایا کے آپ سوچ سمجھ سکیں اور اپنی زندگی بھرپور طریقے سے گزار سکیں۔

چنانچہ آپ کو سب سے زیادہ خیال بھی اس قرض کی مالا کو اتارنے کا ہونا چائیے۔ ایسا کرتے ہوئے بہت سی دوسری مالاؤں میں بھی ہل چل محسوس کریں تو اپنے ہاتھ کی گرفت مضبوط رکھیں، سوچ پکی رکھیں کہ دنیا میں سب سے پہلا حق آپ پر آپ کے والدین کا ہے۔ ایسا کرنے سے آپ کو دو فائدے ضرور ہوں گے ; ایک آپ میں احساس ذمہ داری پیدا ہو گا دوسرا آپ زندگی میں آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو سمجھ لیں گے کہ یہ قرض کی سوغات صرف آپ کے حصے میں ہی نہیں آئی، ہر کوئی اس مالا کو گلے میں سجائے بیٹھا ہے۔ اور یہ وہی مالا ہے جو انسان کو انسان بناتی ہے، سوچنے سمجھنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ لہذا اپنے قرض کو بوجھ نا سمجھیں بلکہ ذمہ داری سمجھیں کیونکہ یہ وہی ذمہ داری ہے جو آپ کی وجہ سے کسی اور پر بھی ویسے ہے لا گو رہی جیسا کے آپ پر۔

ا پنے قرض کو پہچانیے، باری باری اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق دنیا کے قرض اتارتے جائیں، زندگی میں آگے بڑھتے چلے جائیں۔ زندگی آگے بڑھنے کا نام ہے۔ اپنے لئے، اپنے والدین کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جن کا قرض آپ محسوس کرتے ہیں پر اکثر چکا نہیں پاتے، دعا کریں۔ ہم دنیا میں رہتے ہوئے ان رشتوں کے اتنے مقروض ہوتے چلے جاتے ہیں کہ یہ بی بھول جاتے ہیں کہ ہم پر سب سے بڑھ کر قرض تو ایک اللہ کا ہے، جو اس کائنات کا خالق اور مالک ہے، ہمیں پیدا کرنے والا ہے، نوازنے والا ہے وہ ”کن“ کہہ دے تو سب ہو جائے اور پھر قرض تو آپ پر ادھر بھی ہے جو کلیرٹی آف تھاٹ، کوشش اور دعا مانگنے کی طلب پر منحصر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments