سیم سیکس میرج: دیار مغرب میں بدلتے ہوئے سماجی رویے


یونہی خیال آیا کہ مغرب میں رہتے ہوئے ان تجربات کے بارے میں لکھا جائے جن سے ہم گزر رہے ہیں۔ مغرب کی ان سماجی اور اخلاقی اقدار کے بارے میں لکھا جائے جو تیزی سے بدل رہی ہیں اور جن اقدار کو یورپی ممالک اور شمالی امریکہ کی عوام تسلیم کرنے میں گو مگو کا شکار ہیں۔

جنسی رویوں کے بارے میں لکھنا۔ اس پر سوال اٹھانا۔ بحث و مباحثہ کرنا۔ اور کوئی نتیجہ اخذ کرنا۔ پاکستان کے بند۔ گھٹے ہوئے۔ فرسودہ اور مذہبی معاشرے میں اگر گناہ نہیں تو کم از کم غیر اخلاقی اور معیوب ضرور سمجھا جاتا ہے۔ مغرب میں گزشتہ دو دہائیوں سے ایک مہم چل رہی ہے۔ یعنی ہم جنس پرستوں کو جنہیں یہاں ”گے“ کہا جاتا ہے۔ ان کے تحفظ کے لئے وہی قوانین بنائے جائیں۔ جو معاشرے میں ایک عام عورت اور مرد کو حاصل ہیں۔ ایک ہی جنس کے انسانوں کی شادیوں جنہیں سیم سیکس میرج یا گے میرج کہا جاتا ہے۔ اس کو مذہبی، قانونی اور اخلاقی طور پر جائز قرار دیا جائے۔

شادی کے بغیر عورتوں اور مردوں کا اکٹھا رہنا مغرب میں ایک عام بات ہے۔ اور کوئی اخلاقی یا سماجی پابندی بھی نہیں ہوتی۔ لیکن اس آزادانہ سماج میں اس وقت کھلبلی مچی جب ایک ہی جنس کے دو انسانوں نے باقاعدہ شادیاں کرنی شروع کر دیں اور میاں بیوی کی حیثیت سے زندگی گزارنے لگے جو خود مغرب کے بیشتر عوام کے نزدیک ایک غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر سماجی عمل تھا۔ اور نہ ہی چرچ چاہیے وہ چرچ آف انگلینڈ ہو یا ویٹیکن سٹی ہو اس بات کی اجازت دیتا تھا کہ ہم جنس پرستوں کی شادیاں مذہبی طور پر جائز قرار دے دی جائیں۔ مغربی سماج میں ہم جنس پرستوں یا گے میرج کا موضوع سالہاسال تک زیر بحث رہا۔ اس میں آئینی، قانونی، سماجی اور اخلاقی پہلو تلاش کیے گئے۔ قانون ساز، مذہبی پیشوا، حکومتیں، کلیسا، سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں سبھی اس بحث و مباحثے میں شریک تھے۔

انہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ آیا ایک ہی جنس کے دو افراد کی شادی اور میاں بیوی تسلیم کرنے کے حق کو قانونی، مذہبی، سماجی اور اخلاقی حیثیت دی جائے یا اس کو رد کیا جائے۔ بالآخر ایک طویل قانونی اور سماجی جنگ کے بعد گے رائٹس موومنٹ کو فتح نصیب ہوئی۔ اور 26 جون 2015 کو امریکی سپریم کورٹ نے 4 ۔ 5 کے ووٹ سے امریکی تاریخ کا ایک اہم ترین فیصلہ دیا کہ چودھویں ترمیم کے مطابق امریکہ کی تمام ریاستوں میں ہم جنس پرستوں کی شادیاں قانونی قرار دے دی گئیں۔ آئینی طور پر ان کے حقوق کو تسلیم کر لیا گیا۔ امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے دہائیوں سے جاری اس سماجی بحث و مباحثے کا خاتمہ ہو گیا۔ اس فیصلے سے ”گے“ برادری میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ جب کہ قدامت پرست افراد نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔

اسی طرح کینیڈا کے تمام صوبوں میں بھی سیم سیکس میرج کو قانونی طور پر جائز قرار دے دیا گیا۔ دسمر 2004 میں کینیڈین سپریم کورٹ نے ایک رولنگ دی کہ ہم جنس پرستوں کی شادیاں آئینی طور پر درست ہیں۔ البتہ مسیحت کے مختلف فرقوں کے درمیان اس معاشرتی اور سماجی مسلے پر بہت اختلافات تھے اور کلیسا کے مختلف فیصلوں میں سخت ابہام پایا جاتا تھا۔

مثلاً 2013 میں چرچ آف انگلینڈ نے یہ فیصلہ دیا کہ اگرچہ چرچ کے اندر ہم جنس پرستوں کی شادیاں قانوناً جائز نہیں ہیں۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اگر کوئی چرچ انفرادی طور پر چاہے تو ان شادیوں کا اہتمام کر سکتا ہے۔ یورپ میں کیتھولک چرچ نے ایک ہی جنس کی شادیوں کو قانوناً جائز قرار دینے پر سخت اعتراض کیا۔ پوپ جان پال نے ان شادیوں کی سخت مخالفت کی جب پہلی مرتبہ 2001 میں نیدرلینڈ میں ایک ہی سیکس کے لوگوں کو شادیوں کی اجازت ملی۔ اس کے علاوہ اسپین اور پرتگال کے کیتھولک پیشواؤں نے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی سخت مخالفت کی۔ اور اپنے معتقدین پر زور دیا کہ وہ اس قانون کی مخالفت میں ووٹ دیں۔ ڈیلی ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق آخر کار جولائی 2019 میں چرچ آف انگلینڈ نے پہلی مرتبہ ”گے“ افراد کی شادیوں کو جائز قرار دے دیا۔

اب ہم ان تجربات اور واقعات کی طرف آتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے دماغ میں اس موضوع کا خیال آیا۔ چند دن قبل گھر کے گیزر میں کوئی خرابی ہو گئی۔ کمپنی کو فون کر کے کہا گیا کہ کسی ٹیکنیشن کو بھیج کر صحیح کروا دیں۔ مقررہ وقت پر دیکھا کہ کسی مرد کی جگہ ایک ادھیڑ عمر کی دیو زاد خاتوں چلی آ رہی ہیں۔ 6 فٹ سے نکلتا ہوا قد، وزن تقریباً 300 پاونڈ، بھاری جوتوں کی دھمک سے لکڑی کا فرش ہل رہا تھا۔ خیر گیزر چیک کرنے کے بعد موصوفہ نے خرابی بتائی اور ٹھیک کرنے کے اخراجات بتا دیے۔ جانے سے پہلے کہنے لگیں جلدی سے بتا دیجئے میرے پاس وقت نہیں ہے۔ میری بیوی گھر پر ڈنر پر میرا انتظار کر رہی ہے۔ یہ سن پر ہمیں لگا کہ شاید ہماری قوت سماعت عمر کے ساتھ کمزور ہو گئی ہے۔ موصوفہ نے اپنا شوہر کہا ہو گا، ہم نے بیوی سمجھ لیا۔ لیکن ہماری انگریزی اتنی کمزور بھی نہیں ہے۔ ابھی ہم کچھ کہنے جا ہی رہے تھے کہ ہمارے صاحبزادے جو ان خاتون سے بات کر رہے تھے فوراً سمجھ گئے اور ہمیں آنکھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ بعد میں یہ عقدہ کھلا کہ یہ دیو زاد خاتون ”گے“ خانوادے سے تعلق رکھتی تھیں اور واقعی شوہر بننے کے لایق تھیں۔

یہاں امریکہ اور کینیڈا میں ایک ”گے ڈے“ منایا جاتا ہے یہ ایک میلہ ہوتا ہے جہاں پورے شہر کے ہم جن پرست مرد اور عورتیں اکٹھی ہوتی ہیں۔ اور وہ تمام کام ہوتے ہیں جنہیں ہم خرافات کہہ سکتے ہیں۔ گرمیوں میں ایک ویک اینڈ پر ٹورنٹو ڈاؤن ٹاؤن جانے کا اتفاق ہوا۔ عجیب و غریب قسم کے انسانوں سے واسطہ پڑا۔ دیکھا تو دو طویل قامت گورے بال سرخ رنگے ہوئے، گلے میں لمبی لمبی چین، کانوں میں بالے، میک اپ زدہ چہرہ، جسم پر چڈی بھی نہیں، صرف آگے ایک چیتھڑا سا لٹکا ہوا، پیچھے مڑے تو بالکل برہنہ۔ بس چند دھاگے لٹک رہے تھے۔ قریب کے ایک پارک میں دو ادھیڑ عمر کی خواتین بوس و کنار میں مصروف تھیں۔ ہماری بیگم تو یہ مناظر دیکھ کر حواس باختہ ہو گئیں۔ بیٹے اور بھانجے کو برا بھلا کہا کہ یہ شریفوں کے آنے کی جگہ ہے فوراً نکلو یہاں سے۔ صاحب زادے نے کہا سوری والد صاحب ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آج ”گے“ ڈے ہے۔

بہر حال اب تو ہم آئے دن ان تماشوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ یہ مغرب ہے۔ اگر آپ کو مغرب میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا شوق ہے تو پھر ان غیر اخلاقی اور سماجی مسائل کو جھیلنا پڑے گا۔ خیال رہے کہ یہ غیر اخلاقی اور بیہودہ حرکات ہم پاکستانیوں کے لئے ہیں۔ مغربی عوام کے لئے نہیں۔ اس لئے ہم اپنی رائے محفوظ رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments