پہلے تولو پھر بولو!


چھوٹے ہوتے بارہا کتابوں میں یہ ضرب المثل پڑھتے آئے ہیں کہ ”پہلے تولو پھر بولو“ تب اس کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ بولتے وقت بھی بندا بھلا کیا تولے اور کیا بولے، یہ مشکل اردو بھی مشکل سے ہی سمجھ آتی تھی۔ لیکن خیر اب جب بڑے ہوئے تو وہ تمام ضرب الامثال کو اپنی عملی زندگی میں ہوتے دیکھا تو صرف مطلب ہی نہیں ان کا مقصد بھی باخوبی سمجھ میں آیا۔

ہمارے بڑے بزرگ بھی کہا کرتے تھے کہ بیٹا بولنے سے پہلے سوچ لیا کرو کیا کہنے لگے ہو، کون سی بات کہاں کرنی اور کیسے کرنی ہے، آج ان کی کہی یہ نصیحتیں بھی یاد آ رہی ہیں کہ وہ صحیح کہتے تھے۔ ہم تو منہ پھاڑ کر ہر بات بول دیتے ہیں اور پھر بعد میں سوچتے ہیں کہ یہ کیا کہہ دیا؟ اگلا بندہ کیا سوچتا ہوگا؟ کمان سے نکلا تیر اور زبان سے نکلے الفاظ بھی کبھی واپس لوٹے ہیں بھلا؟

یہ الفاظ اکثر کسی کے لئے تکلیف کا باعث بن جاتے ہیں اور بعض اوقات ہمارے خود کے لیے مذاق بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ آج کل ہورہا ہے۔ ہمارے قابل احترام سیاستدان بنا سوچے سمجھے ایسے ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں کہ جس سے کبھی عوام کی دل آزاری ہو جاتی ہے تو کبھی عوام کو ان کی دل آزاری کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔

لیکن میرا مقصد یہاں کسی کے احساسات مجروح کرنا نہیں میں تو بس اس ضرب المثل کی حقیقت بیان کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ جنہیں ہم بچپن سے پڑھتے آ رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے لغوی معنی کی حقیقت ہمیں عمر کے اس حصے میں سمجھ آتے ہیں جب ہم پر وہ سب گزر رہی ہوتی ہے۔

جی بالکل ایسا ہی کچھ موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ ہمارے ہی ووٹوں سے اقتدار میں آنے والے یہ سیاستدان ہمیں ہی کسی گنتی میں نہیں رکھتے۔ پہلے ووٹ لینے کے لیے ان سے اچھا ان سے سچا ان سے مخلص لیڈر ہی کوئی نہیں ہوتا، ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ بعد میں نا باغ دکھائی دیتا ہے نا باغ دکھانے والا۔ پھر صرف ہمیں ان کے بیانات ہی سننے کو ملتے ہیں۔

ووٹ لیتے وقت جو زندہ دلانے لاہور تھے آج وہی عوام جاہل ہوگئی، بالکل ٹھیک کہا ہم تو ہیں ہی کم عقل، جو اپنے ہاتھوں سے ان حکمرانوں کو خود پر مسلط کیا۔ ان کے لئے سڑکوں پر نکلے، 126 دنوں کے دھرنے میں کھلے آسمان تلے یخ بستا ہواؤں میں ٹھٹھرا دینے والی ٹھنڈ میں احمقوں کی طرح اس دھرنے میں شرکت کی۔ اس وقت کے حکمرانوں سے بھی ذلیل ہوئے اور جن کی خاطر یہ سب کیا اب ان سے بھی ذلیل ہو رہے۔ ہم ہیں ہی اس قابل، کس نے کہا تھا تبدیلی کا نعرہ لگاؤ اب لگایا ہے تو اس تبدیلی کا مزہ بھی چکھو۔

سب جانتے ہیں کہ آج کل پوری دنیا کس طرح کرونا وائرس سے لڑ رہی ہے۔ اگر دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پھر بات وہی آ کر ختم ہو جاتی ہے کہ ہمیں تو جہالت کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کہیں عوام ناقص العقل تو کہیں ماشاءاللہ قابل احترام ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے سیاستدان اور وزراء۔ چلو مان لیا ہم تو ہیں ہی جاہل ہمیں کوئی علم نہیں کوئی شعور نہیں اس وائرس کے متعلق، لیکن ہمارے وزراء تو پڑھے لکھے ہیں نا، ایسے ہی تو انہیں وزیر صحت یا وزیر موسمیاتی تبدیلی لگا دیا، ہمارے تو وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی بھی اپنے آپ میں بہت بڑے سائنسدان ہیں۔ اتنا ہی نہیں ہمارے تو وزیراعظم صاحب خود کسی سے کم نہیں۔

ایک ایک کرتے اس حمام میں سب ہی برہنہ ہوئے ہیں۔ ایک طرف ہمارے وزیراعظم صاحب خود کہتے ہیں کہ یہ وائرس کھانسی زکام سے زیادہ کچھ نہیں، پھر فون کالز پر چلنے والی مہم میں بھی اس کو خطرناک نہیں لیکن جان لیوا قرار دے دیا جاتا ہے۔ پھر کویڈ۔ 19 کے 19 نکات کا اپنا ہی ایک الگ مقام ہے۔ ایک طرف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی والے کہتے ہیں کہ اس کا کوئی علاج نہیں، ان کے بس کا نہیں یہ وائرس لہذا بس خود احتیاط کریں تو دوسری طرف ہمارے گورنر پنجاب صاحب نے تو اس کا علاج گرم پانی بتا دیا۔

اب آپ خود بتائیں یہ کند ذہن عوام کس کی سننے کس کا کہا سچ مانے۔ جنہیں ابھی تک خود اس مرض کی سنجیدگی کا اندازہ نہیں، اسی لیے تو پہلے خود ہی لاک ڈاؤن لگایا، پھر عید منانے کے لئے مارکیٹوں کو کھول دیا گیا۔ اب بچاری عوام اس مرض کی وجہ سے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی سنجیدگی کو سمجھے یا عید منانے کے لئے کیے گئے اس فیصلے کو جس سے اس مرض میں مبتلا متاثرہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ سب کے بیانات، قول و فعل میں تضاد ہے۔ انہیں خود اندازہ نہیں وہ کیا کہہ رہے اور کر رہے، تو پھر اس جاہل عوام سے آپ کیا توقعات رکھتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments