اسکول کھلیں گے پرماسک پہ لگی گندگی کو کون چیک کرے گا؟


شام کے وقت لان میں بیٹھی ساون کی پہلی رم جھم کی منتظر تھی جو بس برسنے کو تھی۔ سوچ رہی تھی کہ تیز آندھی اور ہوا سے کیا جراثیم بھی اڑ کے آ رہے ہوں گے۔ کیا مجھے ہٹ جانا چاہیے؟ مگر جب بوندیں برسیں، رم جھم رم جھم تو سکون کی سرحد کسی اور رخ لے گئی۔ یقیناً وہ کوئی پر سکون جزیرہ نہیں تھا اور پھر اچانک، ماہ جون کی تنخواہ یاد آ گئی۔

مئی کی تنخواہ بھی بڑی تاخیر سے کٹ کے ملی تھی تو اسی لیے اگلی یلغار کا بڑی بے تابی سے انتظار رہتا ہے کہ اب کیا ہو گا۔ کل تک مجھے یہ زعم تھا کہ انٹرنیشنل جگہوں پہ کام کرنے سے تنخواہ نہیں کٹتی مگر صاحب، زعم تو زعم ہی ہوتا ہے چاہے وہ یہ ہو یا محبوب کے کبھی نا روٹھنے کا زعم۔

قارئین، زندگی میں کچھ فیصلے بڑے غلط ہو گئے۔ میں یقیناً شادی کی بات نہیں کر رہی۔ میں نئے قارئین کو بتا دوں کہ درس و تدریس سے منسلک ہوں۔ اس پیشے کے حوالے سے کچھ کہنے کی ایک بار پھر جرات کر رہی ہوں اور یہ پیشہ میں نے اپنے لیے بغیر کسی مجبوری کے بڑے جوش و خروش سے چنا تھا۔ مگر زندگی میں اتنی گالیاں پارلیمنٹ کے حوالے سے نہیں سنی ہوں گی جتنی دو ماہ میں اس پیشے کے لیے سن لیں۔ منہ کھولنے کی جسارت کر بیٹھو تو جواب ملتا ہے کہ ہم نے اساتذہ کی شان میں کہاں گستاخی کی ہے، ہم تو پرائیویٹ اسکول مافیا کو کہہ رہے ہیں۔

پھر بھی اگر اساتذہ کے دفاع میں کوئی کمنٹ کر دو تو کہا جاتا ہے کہ آپ خود مافیا کے نمائندے ہیں۔ کوئی پوچھے کہ مافیا خود کھڑے ہو کے پڑھاتی ہے کیا۔ جس فورم پہ جاؤ ایک جنگ چھڑی ہے۔ ایک جذباتی جلوس تیار ہے۔ جو ہر بار شروع تو مافیا سے ہوتا ہے مگر اس کا اختتام اساتذہ پہ ہوتا ہے۔ ہر جنگ اور بحث کا لب لباب فیسیں نا دینا ہے۔ ایسے میں کوئی گندگی اور کیچڑ نہیں بچتی جو اساتذہ پہ نا اچھالی جاتی ہو۔ ان کے پڑھانے پہ انگلی اٹھتی ہے۔

کبھی بولنے کے انداز پہ سوال اٹھتا ہے۔ کبھی کسی متن کو تفصیل سے بتانے پہ کوسنے ملتے ہیں۔ یہاں کوئی کام دے دینا تو گویا سب سے بڑا گناہ ہوتا ہے کیونکہ ایسے میں والدین کی ا پنی قابلیت اور ضبط کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں، تھوڑی سی محنت جو کرنی پڑ جاتی ہے۔ موبائل چھوڑ کے بیٹھنا پڑ جاتا ہے۔ بچوں کو وقت دے دیا تو سوشل میڈیا پہ سب خرافات کون لکھے گا۔ لمبے لمبے پیراگراف، کمنٹ۔ لڑائی جھگڑے۔ دل تو چاہتا ہے کہ وہ سب سنہری الفاظ یہاں لکھوں تا کہ یہاں کمنٹ میں کوئی یہ نہ لکھے کہ میں نہیں مانتا، یہ کیا بچکانہ تحریر ہے، میں نہیں مانتی۔

ہمارے معاشرے میں اساتذہ کا مقام اچانک مئی کے مہینے میں گر گیا اور اتنا گر گیا کہ پڑھتے ہوئے یہ نہیں سمجھ آتا کہ اساتذہ کے بارے میں پڑھ رہے ہیں یا بازار کے۔ پھر انہی والدین کی تربیت کے سائے میں جو بچے پلتے ہیں وہ آن لائن کلاسز میں آ کے اپنے جوہر دکھاتے ہیں۔ اساتذہ کو گالیاں دیتے ہیں۔ حد درجہ گرے ہوئے جملے کستے ہیں۔ دوسرے طلباء طالبات کے بارے میں نازیبا جملے کہتے ہیں۔

اب دو گروپ ہیں۔ ایک وہ والدین جو آن لائن کلاسز کے خلاف ہیں اور تھوڑ ا تھوڑا چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں۔ دوسر ا وہ گروپ جو چاہتا ہے کہ فیس معاف ہو جائے اور اسکول بند رہیں۔ ان کا بچہ ان کی مرضی۔

آج نیا نوٹیفیکیشن آنے پہ خوب ہنگامہ ہوا کہ جو والدین فیس جمع کرائے بغیر اسکول سے فرار اختیار کریں گے ان کو بغیر این او سی کے اگلے اسکول میں ایڈمیشن نہ ملے گا۔ اس مد میں بھی تمام تر بحث کی ہنڈیا اساتذہ پر ہی پھوٹی۔ کسی نے یہ نہ سوچا کہ ایک اسکول آتا ہوا ایڈمیشن کیونکر ٹھکرائے گا۔

15 جولائی سے اسکول کھلنے کا معاملہ بھی زیر بحث ہے۔ نجانے وہ کون ستر فیصد والدین ہیں جن کا وزیر تعلیم شفقت محمود نے ذکر کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسکول کھل جائیں۔ SOPs پہ غور کیا جا رہا ہے اور فیصلہ 2 جولائی کو کیا جائے گا۔ اس ضمن میں بڑے اسکولوں نے تو والدین کو پروانہ بھی بھیج دیا ہے۔ جس پہ والدین نے مزید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتا کہ کن SOPs کو موثر بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ یہاں تو بنگلوں میں اسکول کھلے ہیں۔

باورچی خانوں میں کلاس روم بنے ہوتے ہیں۔ جہاں والدین خوشی خوشی اپنے بچے بھیجتے ہیں۔ اس طرح کے ایک کمرے میں دس بچے بیٹھتے ہیں۔ وہاں SOP کو موثر بنانے کے لیے دیوار توڑ کے کمرے میں ضم کرنا لازمی ہے۔ دوسری جانب 15 بچوں کے کلاس روم میں 22 بچوں کے ٹھونسنے کی جگہ بنائی جاتی ہے۔ کبھی مالک مکان نے بڑے پیار سے اپنی نو بیاہی دلہن کے لیے یہ ایک کمرہ بنایا ہو گا۔ اب وہاں 22 بچے بیٹھ کے مستقبل کے اسد عمر بنتے ہیں۔ اب ایسے میں SOP پہ کام کرنے کے لیے کیا توڑا جائے گا۔ ظاہر ہے مالک مکان کا دل۔ اسکول کیونکر کھل سکیں گے۔

چائنہ، جاپان اور ڈنمارک نے اسکول کھولنے کی جسارت کی کہ چھ فٹ کے فاصلے سے بچے کلاس میں بیٹھیں گے۔ مطلب ان کی بنچ میں اتنا فاصلہ ہو گا۔ کھڑکیاں لازمی کھلی ہوں گی۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ کھڑکیاں ہوں گی تو کھلی ہوں گی۔ خیر پہلے مڈل اسکول اور ہائی اسکول کھولے گئے۔ پھر پرائمری اسکول۔ ایسے HAT بنائے گئے کہ جن کو پہن کر بچے فاصلہ رکھنے پہ مجبور ہو جائیں۔ ماسک لگانا تو اب یونیفارم کا حصہ ہو گیا ہے۔ اسکول گیٹ پہ حرارت چیک کرنا لازمی قرار۔

لندن کے ایک اسکول نے 15 جون سے پہلے مرحلے میں دسویں گیارہویں کو چار گروپ میں تقسیم کیا۔ کہا گیا کہ ہر گروپ ہفتے میں ایک دن آئے گا۔ اسکول کا وقت تاخیر سے رکھا گیا تا کہ بچے سائیکل پہ آ سکیں اور انہیں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال نہ کرنی پڑے۔ اسکول کا دورانیہ چار گھنٹے رکھا گیا۔ جس میں صرف تین مضمون پڑھائے جاتے ہیں، حساب، سائنس اور انگریزی۔ باقی کے گروپ گھر سے کلاس لیا کریں گے بقیہ دنوں میں۔ 2 میٹر کا فاصلہ ہر جگہ قائم رکھنے پہ عمل درآمد کیا گیا۔ اپنا سینیٹائزر گھر سے لانا لازمی قرار دیا گیا۔ باہر سے اندر آتے ہوئے گلوز ضائع کر دینے ہوں گے۔ اسٹیشنری بھی لینے دینے پہ پابندی۔ اسکول گیٹ وقت سے پہلے نہیں کھولے جاتے۔

ہمارے یہاں اسکول کھلیں گے۔ جہاں ابھی تک پڑھا لکھا طبقہ بھی کتنے فیصد یہ کہہ رہا ہے کہ زہر کے انجکشن لگائے جا رہے ہیں یا یہ بیماری ایک ڈرامہ ہے۔ ایسے میں سب کو اپنے بچوں کو ماسک لگا کر بھیجنے میں کتنے اعتراضات ہوں گے اور پھر ماسک پہ لگی گندگی کو کون چیک کرے گا کیوں کہ مہینے سے پہلے تو ماسک تبدیل نہیں کیے جائیں گے۔ روزانہ اسکول کے گیٹ پہ منچلے نوجوان غریب گارڈ کو یا تو نوٹ دکھا رہے ہوں گے یا ما ر پیٹ کر رہے ہوں گے اور ایسے میں پھر اساتذہ کی عزت افزائی گیٹ پہ ڈیوٹی لگا کے بھی ہوا کرے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments