کیا عورت کا کوئی گھر نہیں؟


عرصے بعد جب کسی پرانی دوست یا کسی عزیز و اقارب سے بات ہو۔ تو سلام دعا اور حال احوال دریافت کر لینے کے بعد ان کا اگلا سوال یہ ہوتا ہے کہ اور سناؤ کیا رہی ہو آج کل؟ جب میں عرض کرتی ہوں کہ جناب میں جاب کر رہی ہوں اور ساتھ ایم فل کر رہی ہوں۔ آگے سے فٹ سے یہ جواب ملتا ہے کہ آئے ہائے بس بھی کرو کتنا پڑھنا ہے اور تم نے! اب بس تم خیر سے اپنے گھر کی ہو جاؤ جلدی سے! اللہ بس تمہارے نصیب اچھے کرے! وغیرہ۔ میں یہ سب باتیں سن کر حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے لگتی ہوں۔ سمجھ نہیں آتی کہ میری پڑھائی کرنے سے کسی دوسرے کے پیٹ میں درد کیوں آٹھتا ہے۔ حالانکہ میں نے نہ تو آن سے کبھی اپنی یونیورسٹی کی فیس ادا کرنے کا تقاضا کیا اور نا ہی کبھی ان سے کبھی کسی اور بات کا شکوہ کیا۔

ارے بھئی اگر خود کسی وجہ سے آپ مزید تعلیم جاری نہیں رکھ سکے تو آپ کسی دوسرے کی راہ میں روکاوٹ ڈالنے کی ناکام کوشش کیوں کر رہے ہو؟

مجھے ایسے لوگوں کی سوچ پر بہت حیرت ہوتی ہے جو لڑکی کو اعلی تعلیم حاصل کرتے دیکھ کر فوراً سے اپنے بلا مقصد قیمتی مشوروں سے نوازنے لگتے ہیں۔ انہیں شاید ایسا لگتا ہے کہ لڑکی صرف ایک ہی مقصد کے لیے پیدا ہوتی ہے اور وہ مقصد ”شادی“ ہے اگر کوئی لڑکی شادی کا فیصلہ کرنے کی بجائے اعلی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کر لے تو یہ بات ان کو ہضم ہونا مشکل ہو جاتی ہے۔ اللہ جانے ہم کس دن کسی دوسرے کی خوشی میں خوش ہونا شروع کریں گے۔

اگر کوئی اپنی زندگی اپنے مطابق ہنسی خوشی گزار رہا ہے تو بجائے خوش ہو کر دعائیں دینے کے ہم مین میخ نکالنا فرض عین کیوں سمجھ لیتے ہیں۔

ایک اور بات میری سمجھسے بالاتر ہے کہ پتا نہیں ان کو یہ کیوں لگتا ہے کہ کنواری لڑکی اپنے گھر میں نہیں بلکہ کسی فٹ ہاتھ پر یا کسی سرائے میں زندگی گزار رہی ہوتی ہے۔ ماں باپ کے گھر میں رہنے کو لڑکی کا اپنا گھر تصور ہی نہیں کرتے۔

اچھا اگر ایسا ہی ہے تو پھر مجھے بتا دیا جائے کہ لڑکی کا گھر حقیقت میں کون سا ہوتا ہے؟ اگر تو ”اپنا گھر“ سے ان کی مراد شادی کے بعد والا گھر ہے تو جناب وہ تو شوہر کا گھر ہوتا ہے لڑکی کا تو نہیں! اگر لڑکی کا اپنا گھر وہ نہیں ہے جس میں وہ پیدا ہوئی ہلی بڑھی جوان ہوئی تو پھر شوہر کا گھر جو عموماً شوہر کو اپنے والدین کی جانب سے ورثہ میں ملا ہوتا ہے وہ کسی دوسرے کے پیسوں کا خریدا ہوا گھر، لڑکی کا گھر کیسے ہو گیا؟

چلو بالفرض ان کی بات مان بھی لی جائے تو مجھے یہ سمجھا دیا جائے کہ جب اس ”اپنے گھر“ میں زندگی بسر کرتے ہوئے لڑکی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے یا وہ اپنے اس گھر کے مکینوں کی خواہشات اور امیدوں پر باوجود بھرپور کوششوں کے پورا نہ اتر پائے تو بات بے بات اس کو گھر سے نکالنے کی کیوں دھمکی دی جاتی ہے۔ اسے بار ہا ساری زندگی اپنے شوہر اور اس ”اپنے گھر“ کے دوسرے باسیوں سے یہ کیوں سننا پڑتا ہے کہ جاؤ چلی جاؤاپنے ماں باپ کے گھر۔ اور کبھی کبھار تو بطور سزا بھیج بھی دیا جاتا ہے۔

اور سونے پہ سہاگہ تب ہوتا ہے جب لڑکی اس ”اپنے گھر“ میں سال ہا سال رہتی سب کی جی حضوری کرتی اپنی صحت سے غافل ہوجاتی ہے اور بدلے میں اسے کوئی نہ کوئی بیماری گھیر لیتی ہے تو پھر اس لڑکی کو اپنے ہی گھر سے بے دخل کر کے اپنے پرانے والے ”اپنے گھر“ میں بھیج دیا جاتا ہے کہ جاؤ اپنا علاج کراؤ اور جب مکمل صحبت یاب ہو جاؤ تو واپس ”اپنے گھر“ میں آ کر ہماری سیوا کرنے میں جت جانا۔ میں بہت ساری ایسی خواتین کو جانتی ہوں جو شادی کے کئی سال گزرنے کے بعد جب بیمار ہو گئیں تو انہیں اپنے والدین کے گھر رخصت کر دیا گیا۔ اور جب وہ صحت یاب ہو گئیں تو ان کے شوہر انہیں واپس لینے کے لیے آ دھمکتے ہیں۔

میرا سوال اتنا سا ہے کہ کیا واقعی ہر لڑکی کا ”اپنا گھر“ اس کا سسرال ہوتا ہے یعنی اس کے شوہر کا گھر!

اگر واقعی وہی اپنا گھر ہوتا ہے تو پھر اسے کیوں وہاں سے بے دخل کیا جاتا ہے یا دھمکایا جاتا ہے؟
کیا پھر صدیوں سے چلی اس روایت کو سچ مان لیا جائے کہ عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا!

رابعہ چوہدری، لاہور
Latest posts by رابعہ چوہدری، لاہور (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments