جامعات کا نیا مجوزہ ایکٹ اور اعلی تعلیم کی صورت حال


پاکستان میں اعلی تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے ہی معمولی ترجیج کا حامل رہا ہے۔ 2002 ء میں ایچ ای سی کے قیام کے بعد پاکستان میں اعلی تعلیم کے معاملات پر خاصہ اہمیت دی گئی۔ جامعات میں سیاسی مداخلت ختم کرنے، جامعات میں تحقیق کے کلچر کو پروان چڑھانے، معیار تعلیم کو بہتر کرنے، بین الاقوامی سکالرشپس، جامعات میں سائنسز و سوشل سائنسسز کے مضامین پر خصوصی کے توجہ کے ساتھ ساتھ صوبوں کے درمیان اعلی تعلیم کے مسائل پر روابط پر گفتگو کا آغاز ہوا۔

بنیادی طور پر ایچ ای سی کو جامعات کی طرح ایک آزاد اور خود مختار ادارے کے طور پر قائم کیا گیا مگر گزشتہ چند سالوں میں ایچ ای سی کے مسائل کی طرح جامعات میں بھی سیاسی مداخلت اور خود مختاری ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور اب مکمل طور پر پنجاب بھر کی جامعات میں نئے مجوزہ ایکٹ کے ذریعے وائس چانسلرز کو سینڈیکیٹ کی صدارت سے ہٹا کر ریٹائرڈ ججز اور بیوروکریسی کے حوالے کرنے کی صف بند کی جارہی ہے جو یقیناً جامعات سمیت وائس چانسلرز اور اساتذہ کی خود مختاری پر براہ راست حملہ ہے۔

پاکستان میں اس وقت ایچ ای سی کے منظور شدہ 214 سرکاری میں سے 73 کا تعلق پنجاب سے ہے یعنی جامعات کا بڑا حصہ اس اس ترمیمی ایکٹ کے بعد زیر عتاب آئے گا، اگر بڑی تعداد رکھنے والے صوبے میں اس طرح کے تجربات سے نظام تعلیم کو گزارہ جائے گا تو یقیناً ملک بھر کی جامعات میں اس بارے اضطراب اور بحران کی کیفیت ضرور محسوس ہوگی، 2008 ء کے بعد نئی بننے والی جامعات کی سینڈیکیٹ پہلے ہی وزیر ہایئر ایجو کیشن کی سربراہی میں منعقد ہوتی ہیں اور اب پنجاب کی پرانی اور بڑی جامعات جن کی سینڈیکیٹ میں پہلے سے موجود تین اراکین صوبائی اسمبلی، عالم دین، ہایئر ایجو کیشن ڈیپارٹمنٹ اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کے نمائندے شامل ہیں اور اب مزید سربراہی کسی بیورو کریٹ اور ریٹائرڈ جج کو دینا انتہائی غیر مناسب رویہ ہے۔

غیرجانبدارانہ تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک وائس چانسلر پہلے ہی سیاستدانوں اور بیو رو کریسی کے درمیان اپنی جامعہ کے لئے میرٹ پر مبنی آزادانہ فیصلے کرنے پر خاصہ مشکل حالات میں نظر آتا ہے۔ جامعات کے نئے ترمیمی ایکٹ کے ذریعے وائس چانسلرز کو اپنی ہی یونیورسٹی میں ایک سول سرونٹ کا سٹیٹس حاصل ہوگا اور سال میں دو بار وائس چانسلرز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔ حکومت کی یہ منطق تعلیمی ماہرین کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک یونیورسٹی کے انتظامی معاملات ایک ماہر تعلیم سے زیادہ ایک بیو رو کریٹ بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔

اسی سلسلہ میں انٹر یونیورسٹی کنسورشیم برائے فروغ سوشل سائنسز کے زیر اہتمام ایک لیکچر سیریز کے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے بین الاقوامی ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر سہیل نقوی کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں ملک بھر کی جامعات کے لئے اہم موقع ہے کہ بین الاقوامی تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے جامعات کو جدت کی طرف لائیں، انہوں نے اس ضمن میں چار اہم نکات کی طرف بھی اشارہ کیا جس میں گورننس، خود مختاری اور احتساب، یونیورسٹی کی حکمرانی اور انتظام کا ڈھانچہ مضبوط اور آزاد کوالٹی انشورینس سسٹم اور فاصلاتی نظام تعلیم کوجدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا شامل تھا۔

بین الاقوامی سطح پر تمام جامعات خود مختار اداروں کی طرح کام کرتی ہیں۔ تاہم حکومت کی جانب سے کسی متعلقہ سٹیک ہولڈر سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ دلچسپ طور پر اس ایکٹ کی مذمت میں اساتذہ سمیت طلباء نے بھی آواز بلند کی ہے۔ ملک بھر کی جامعات کے اساتذہ کی نمائندہ تنظیم فپوآسا کے صدرڈاکٹر سہیل یوسف نے اس ایکٹ کو پاکستان کے اعلی تعلیمی نظام کو غیر مستحکم کرنے کی ایک کوشش قرار دیا۔ اساتذہ کا موقف ہے کہ جامعات کو پنجاب یونیورسٹی اور بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کی طرز پر خود مختاری دی جانی چاہیے۔

جامعات کی سینڈیکیٹ کی سربراہی اور فیصلوں کا اختیار وائس چانسلرز کو ہی ہونا چاہیے۔ سرکاری جامعات میں ترمیم کے معاملے پر ایسوسی ایشن آف آل پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز کے ترجمان میاں عمران مسعود نے بھی حکومت کے اس اقدام کی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے اعلی تعلیمی شعبہ کو شدید نقصان کا خدشہ ہے، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ کرونا کی موجودہ صورتحال میں ملک کا اعلی تعلیمی نظام پہلے ہی بحران کا شکا ر ہے اس تناظر میں حکومتوں کو غیر سنجیدہ رویہ یقیناً تعلیم کے شعبے میں نئے مسائل پیدا کر ے گا۔

ایک تدریس و تعلیم سے وابستہ شخص ہی کسی تعلیمی ادارے کو بہتر انداز میں چلا سکتا ہے۔ جامعات میں کسی بھی دوسرے فریق کی موجودگی نہ صرف فیصلوں بلکہ معیار پر بھی سوالیہ نشان ہوگی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ملک میں تعلیمی اصلاحات کی ہمیشہ سے خواہاں رہی ہے انہیں چاہیے کہ اعلی تعلیم کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اس معاملے میں حصہ بنا کر ایک طویل مشاورت کریں اور صوبائی حکومتوں سمیت ایچ ای سی کا یہ بنیادی فرض ہے کہ بند کمروں میں فیصلے کرنے کی بجائے جامعات کے معاملات میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کی رائے کو لازمی شامل کریں تاکہ سنجیدہ اور اہم معاملات پر کوئی ابہام باقی نہ رہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس طرح کے معاملات میں جامعات کو الجھانے کی بجائے پاکستان کے اعلی تعلیمی شعبہ کو دنیا بھر میں اہم مقام دلوانے، نئی ایجادات اور تحقیق میں جامعات کے کردار، گورننس اور جامعات کے معیار تعلیم کو بہتر کرنے پر توجہ مرکوز کریں کیونکہ جب تک اعلی تعلیمی شعبے میں بہتری نہیں آئے گی اس وقت پاکستان ترقی کے منازل طے نہیں کرسکے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments