کورونا زدہ لاشیں بیچ کر ڈالر کمانے والے ڈاکٹر



مقامی ایم این اے جو دل کے نیک اور کردار کے شریف النفس انسان تھے، بوڑھی عورت کے ہمراہ مقامی اسپتال کے ڈاکٹر کے گھر پہنچے۔ ڈاکٹر، ایم این اے صاحب اور لوگوں کے مشتعل ہجوم کو دیکھ کر گھبرا سے گئے۔ ایسے میں ڈاکٹر کی بیگم صاحبہ باہر تشریف لائیں۔ ان کو الہام ہو چکا تھا کہ انصاف مانگتے عوام حکومت کے نمائندہ کے ہمراہ ان کی چوکھٹ پر کس مقصد سے آئے تھے۔ بیگم صاحبہ کا ضمیر پہلے سے بیدار تھا۔ ماحول پر چھائے سکوت کو اپنی بلند آواز سے توڑتے ہوئے فرماتی ہیں لوگو دیکھو! میرا شوہر غدار ہے، اس نے ایمان بیچ دیا ہے۔ میرے گھر کے اندر آؤ، میں دکھاؤں اس غدار کی کارستانی۔ میرا گھر نوٹوں سے بھرا پڑا ہے۔

ایم این اے جو ایک نیک انسان تھے، لوگوں کے ہمراہ گھر میں داخل ہوئے، گھر کے کمرے نوٹوں سے بھرے پڑے تھے۔ جابجا امریکی ڈالر کے نوٹ بکھرے تھے۔ بیگم صاحبہ اپنے ڈاکٹر میاں کی جانب اشارہ کر کے فرماتی ہیں کہ اس نے مریضوں کو کرونا کا ثابت کر کے ان کے اعضاء نکال کر بیچے ہیں۔ یہ زہر کے ٹیکے لگاتا ہے اور میتوں کو پھینک دیتا ہے۔

کرونا کے مریض کی میت کو کھولنے نہیں دیا جاتا، لواحقین دیکھ نہیں پاتے۔ حکومت جو تابوت بھیجتی ہے اس میں میت نہیں مٹی کے پتلے ہوا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کی بیوی چپ ہوئی تو مبینہ مریض کی ماں کی آہ و زاری شروع ہوئی۔ میرا بیٹا مجھے دیکھنے نہیں دیا، باہر کے ملک سے آیا تھا، اٹھا کے لے گئے۔ میرے خواب میں آیا اور کہتا میں تابوت میں نہیں ہوں۔ انہوں نے میری آنکھیں، گردے، دل نکال کر امریکیوں کو دے دیے۔ قبر کشائی کی تو دیکھتے ہیں کہ قبر میں مٹی کے پتلے پڑے تھے۔ (معاذ اللہ)

یہ ہے جھوٹ کی داستان جو چند ویوز اور لائکس کی لالچ میں سنائی جا رہی اور انسانی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ ایک ماں کی فریاد پر کون یقیں نہیں کرے گا؟ کہانی مرتب کرنے والے نے نا تو ایم این اے صاحب کا نام لکھا، نا مقام۔ دکھ اور غم کو داستان بنا کر بیچنا بہت آسان عمل ہوا کرتا ہے۔ جہاں غم اور الم پیش کیا جائے وہاں یقین کرنا مشکل نہیں رہتا۔ مدعے کو سازش اور کفار کا بگھار لگا کر جو بھی سالن بنایا جائے گا، عام آدمی مزے لے کر کھائے گا۔ جہاں عام انسان کی شعوری افزائش ہی سنسنی اور خوف کے سہارے کی جائے وہاں ایسے مرکبات کی دوا شعور کا ہاضمہ خراب کیے رکھتی ہے۔

امریکیوں کے لئے بہت آسان ہے کہ وہ اپنے لاکھوں بے گھر افراد جن کو امریکی معاشرہ حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے، پاکستانیوں کو لاکھوں ڈالر دیے بنا باآسانی ان کے اعضاء نکال لے (خدا نہ کرے)۔ ہمارے یہاں رسم ہے کہ اپنی ہر کوتاہی اور نا اہلی کو امریکیوں کے زمرے میں ڈال دیا جائے۔ بے شک وزیراعظم سے لے کر صحت کے وزیروں مشیروں نے نا اہلی اور غفلت کا کھلم کھلا ثبوت دیاہے جہاں عوام نے بھی جان لیوا وبا کو جگت بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

مگر بات کو اپنی دانش سے سمجھا اور پرکھا تو جا سکتا ہے۔ کرونا کے مریضوں کو ہاتھ اس لئے نہیں لگانے دیا جاتا کہ وائرس کی منتقلی کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اسی لئے تابوت نہیں کھولے جاتے۔ جنازے میں کم سے کم لوگوں کا ہونا لوگوں تک وائرس کی منتقلی کو روکنا ہے۔ وائرس میت سے اڑ کر نہیں آئے گا مگر ہو سکتا ہے کہ جنازے میں شریک کسی کو وبا ہو اور وہ زیادہ افراد میں پھیل جائے۔ باہر سے آئے لوگوں کو قرنطینہ کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وائرس گاؤں، علاقے یا گھر میں نہ جائے۔ حکومت سے بڑھ کر عوام کا فرض بھی یہی فرض ہے۔ اتنے ڈالر کوئی نہیں دیتا کہ کمروں کے کمرے لدا لد بھر جائیں۔

جب ترقی کرنے اور تعلیمی اداروں میں منطق اور معقولیت کی تعلیم دینے کا وقت تھا تب غیر آئینی اقتدار اور بے معنی منصوبوں کو طول دینے کی غرض سے آمر آئین میں امتیازی اور بے منطق ترامیم کرنے میں محو تھے۔ یہی نہیں جب بھی معقولیت کا نقطہ اٹھایا جائے درس و تدریس پر دھاوا بول دیا جاتا ہے جو حال ہی میں دیکھنے کو بھی ملا۔

وبا کو لے کر سیاست ہی نہیں کی گئی، اپنی ذاتی سیاست بھی خوب چمکائی گئی ہے۔ کسی مذہبی پیشوا نے انا کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا تو خود ساختہ دانشوروں نے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے وبا کو سرمایہ دارانہ نظام، کمیونزم اور بائیو وار فئیر کی اصطلاحات بول کر اپنی دانشوری کی جھاڑو دی۔ جن ممالک نے بروقت اقدامات اٹھائے ان کو وبا کاموجد قرار دیا گیا، اور جہاں کی نا اہل حکومتوں نے حفاظتی تدابیر نہیں اپنائی وہاں وبا کو بائیو ویپن انہی کی سالمیت کے خلاف ثابت کیا جانے لگا۔

کرونا وبا کو لے کر جتنے بھی علاج تشخیص کیے گئے اس کی کہانی تو ایک جانب لکھی ہی جائے گی، چہ جائیکہ زہر کے ٹیکوں کی داستان بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ یہ بات اس لئے اہم ہو چکی ہے کہ اس پر سنگین پراپیگنڈہ کیا جار ہا ہے اور لوگ مریضوں کو علاج کے لئے اسپتال لیجانے سے کترا رہے ہیں۔ جھوٹ اتنی بار عقیدت سے دہرایا گیا ہے کہ سچ ہو گیا ہے کس کی بدولت دن بدن ہلاکتوں اور مریضوں میں اضافہ بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

عوام کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے اور جن پر علم نازل ہوا وہ بھی اس بات پر گماں رکھتے نظر آتے ہیں کہ حکومت اور ڈاکٹر زہر کے ٹیکے لگا کر انسانی اعضاء کو امریکہ بیچ رہے ہیں۔ اگر گلیوں محلوں کا ایک دورہ کریں تو حقیقت کا پردہ چاک ہوگا۔ لوگ اس بات پر ایمان لاتے دکھائی دیں گے۔ ڈاکٹروں کے مطابق آج تک زہر کا کوئی بھی ٹیکا ایجاد نہیں ہوا۔ ایسی ہی افواہوں اور غفلت کی بنا پر مریض کی حالت بگڑتے بگڑتے اسٹیج چہارم تک پہنچ جاتی ہے تب ورثاء مریض کو اسپتال لے کر آتے ہیں۔ اسٹیج چہارم آخری سیڑھی ہے جس کے بعد مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ اسٹیج چہارم نہ بھی ہو، تب بھی یہ ڈاکٹروں کے بس میں نہیں کہ مریض سو فیصد صحتیاب ہو سکے گا۔

یہ یاد رہے کہ کرونا وائرس 19 کی اب تک کوئی دوا سامنے آئی نہ ہی اس سے بچاؤ کی ویکسین۔ چند مختص کردہ ادویات ہی ہیں جن کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس وبا کا کوئی مستند علاج نہیں ہے۔ پلازمہ تھراپی، مصنوئی سانس، ادویات وغیرہ ابھی بھی ابتدائی مراحل میں ہیں جو مفید ثابت ہو رہے ہیں۔ کسی مریض پر اثر ہوتے ہیں تو کسی پر نہیں۔ وائرس نے اب تک ان گنت اسٹرین یا ساخت بدلی ہے۔ ہر دوا ضروری نہیں کہ ہر مریض یا خطہ کے لوگوں کے لئے موثر بھی ہو۔ وہ ٹیکے زہر کے نہیں ایکٹیمرا کے ہیں جو صرف علاج کی ایک صورت ہیں۔ یہ ٹیکے پہلے سے موجود ہڈیوں کے درد کے مریضوں کو لگائے جاتے تھے۔ مریضوں کو ایک تجویز کردہ دوا کے طور پر ٹیکا لگ رہا ہے، بہت سے مریض شفا پاتے ہیں بہت سے نہیں۔ جس کی بڑی وجہ مریض کی قوت مدافعت کی تنزلی ہے۔

کثیر تعداد میں مریض پلازمہ تھراپی سے شفایاب ہو رہے ہیں، بہت سے نہیں بھی جاں بر ہو پاتے تو کیا پلازما پر بھی سازش شروع کر دی جائے؟ سازشی ہنڈیا پھوڑنے والوں کے لئے پلازما ابھی ایک نئی اصطلاح ہے اس لیے اس بابت دھیان نہیں گیا۔ ٹیکا چونکہ ہر سردرد پر لگانے میں عوام ماہر ہوچکے ہیں تو زہر کے ٹیکے کی مدرغ کہانی بیچنا آسان ہے۔

یہ سائنس کی ہر گز ناکامی نہیں کہ وہ اب تک اس کا علاج کیونکر نہیں ڈھونڈ پائی۔ سائنس متواتر ترتیب پانے والے عمل، تجربات کا نام ہے جس میں وقت درکار رہتا ہے۔ سائنس طلسم ہے نہ کوئی کرشمہ جو چٹکی بجاتے ہر شے کا علاج نکال لائے۔ صد افسوس صابن سے ہاتھ دھونے کی بجائے جھوٹ اور سازش کی قیمت پر انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو رہے۔ دراصل یہ زہر کے ٹیکے تو ہماری عقل کو لگے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments