کیا طاقت کا توازن بدل رہا ہے؟


\"khurram1\"آخر کار سی پیک کا افتتاح ہو گیا اچھا ہوا۔ شاہ نورانی دربار پر حملہ ہوا برا ہوا۔ سی پیک کے افتتاح کی خوشی ہوئی اچھی بات، مگر شاہ نورانی دربار پر 60  ہلاکتوں کے بعد بھی موسیقی کی محفل بری بات۔ سی پیک کے افتتاح پر نواز شریف کا جانا اچھی بات، لیکن پچھلی حکومت کے نمائندگان کو بالکل بھلا دینا اور صرف مولانا فضل الرحمان کو ساتھ رکھنا بری بات۔ جب ہم اپنے ساتھ غلط کرنے کے لیے تیار ہیں تو کوئی ہمارے ساتھ غلط کیا کرے گا۔
میرا آج کا موضوع پاک چین اقتصادی راہداری براہ راست نہیں ہے۔ آج امریکہ کے نئے صدر کے حوالے سے لکھنا چاہتا ہوں۔ آپ سب بھی کہیں گے کہ ان کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ صاحب کے صدر کے لیے مطلوبہ الیکٹورل ووٹ سے زیادہ حاصل کرنے سے پہلے بھی اور بعد میں بھی مگر آج امریکہ کو اپنے ہی اندر جن حالات کا سامنا ہے وہ پہلے نہیں تھے۔ آج جس طرح لوگ سڑکوں پر ہیں یہ حالات امریکہ نے بہت مدت بعد دیکھے ہیں۔ لوگ بہت دور دور کی کوڑیاں لائے کہ عوام نے فیصلہ خلاف توقع دیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا ووٹ چھپا ہوا تھا۔ ٹرمپ نے امریکہ کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا کہا۔ ہیلری نے صرف اقلیتوں پر توجہ دی۔ وہ اپنی بنیادی ریاستوں پر توجہ نہ دے سکیں۔ اگر بات اتنی ہی ہوتی تو Popular ووٹ میں ہیلری جیتی ہے۔ ٹرمپ تو اصل میں اس انتخابی طریقہ کار سے جیتے ہیں جس میں پہلی مرتبہ 1876 میں ردفورڈ ہینز صرف ایک الیکٹورل ووٹ زیادہ لے کر جیتے تھے اور صدر بنے تھے۔ جب کہ Popular  ووٹ زیادہ فورٹ کے مدمقابل سیموئیل ٹلڈن کو پڑے تھے جنھوں نے بیالیس لاکھ اٹھاسی ہزار ووٹ لیے۔ جب کہ فورڈ نے صرف چالیس لاکھ چونتیس ہزار ووٹ لیے تھے۔

میرے جو چند دوست احباب امریکہ میں ہیں ان سے بات کرنے اور ان کے تعاون سے وہاں کی سیاست پر دہائیوں سے نظر رکھنے والوں سے جو باتیں سامنے آئی ہیں اُن کے مطابق یا یوں کہہ لیں کہ ان کو اور پہلے سے کہی گئی سب باتوں کا موازنہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ سب ایک سوچا سمجھا اور بڑا نَپا تُلا الیکشن تھا۔ ہمارے کچھ بھائیوں نے تو پاکستان میں یہاں تک کہہ ڈالا کہ امریکہ نے ایک قسم کی موروثی سیاست کو مسترد کر دیا ہے کہ پہلے کلنٹن پھر اس کی بیگم ہیلری۔ یا دو مرتبہ ڈیموکریٹس کی حکومت تیسری مرتبہ امریکیوں نے ان کو مسترد کر دیا۔ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ یہ امریکہ کے اندرونی الیکشن ہیں اس سے پاکستان کا کچھ لینا دینا نہیں کیونکہ دونوں امیدواروں نے اپنی تقاریر اور مباحثوں میں پاکستان کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے۔

میں سب کی رائے کا احترام کرتا ہوں اور انتہائی ادب اور احترام کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب جو ملک اپنے آپ کو سپر پاور کہہ رہا ہو، جو ملک سوویت یونین کے بعد بلاشرکت غیرے دنیا پر حکومت کر رہا ہو، پاکستان کا تمام میڈیا جس کے الیکشن پر خصوصی ٹرانسمیشن کرے اور اس میں ’’طاقتور ترین صدر‘‘ کا لقب استعمال کرے کیا وہ ملک تمام دنیا سے بے خبر ہو کر تمام باہر کے مسائل سے توجہ ہٹا کر صرف اندرونی سیاست کی بنیاد پر اتنے بڑے الیکشن کروائے گا۔ اور اس کے الیکشن کے نتائج فوری اثر بھی مرتب کرتے ہیں اور کلیدی ممالک کی اسٹاک ایکسچینج بشمول امریکہ مندی کی جانب جاتی ہیں اور پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کا آغاز ہی مندی سے ہوتا ہے۔ میرے اندازے کے مطابق یہ تجزیہ اپنے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔

یہاں اپنے قارئین کو بتاتا چلوں کہ امریکی الیکشن سے چند دن پہلے FBI نے ہیلری کو 35 ہزار ای میل والے قصے سے پاک کیا۔ مطلب بری کیا، مگر اس سے 2 دن پہلے امریکہ میں اپنے بھائی اور ایک کزن کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بارے میں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ بھائی کا امریکہ میں ایک گیس اسٹیشن اور ایک مارٹ ہے جو اس نے 5 ماہ پہلے وہاں سرمایہ کاری کی اور نیا بزنس شروع کیا جب کہ میری کزن ایک ہاؤس وائف ہیں مگر معاشرتی اعتبار سے کافی پراثر ہیں اور کافی مقبول ہیں۔ ہیلری کو کلیئر کروانے سے 2 دن پہلے FBI والے بھائی کے گیس اسٹیشن اور مارٹ پر آئے اور بھائی کے حوالے سے تمام معلومات لیں کہ کب امریکہ آیا، کب کاروبار کا آغاز کیا۔ پیسہ کہاں سے آیا، کب آیا۔ کہاں رہتا ہے۔ کتنی گاڑیاں ہیں اور کون کون سی۔ گاڑیوں کے نمبر۔ کب آتا ہے کب جاتا ہے۔ اور گھروں کے حوالے سے معلومات لی جار ہی تھیں کہ آپ لوگ کب کب اکٹھے ہوتے ہیں، کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں۔ جس پر پاکستانی اور مسلمان کمیونٹی میں آپس میں ایک فیصلہ کیا کہ کسی شخص کو بھی اگر پولیس بلائے تو اکیلا نہیں جائے گا وکیل ساتھ لے کر جائے گا۔ اور اگر راستے میں پولیس روکے تو گروپ میں پیغام دے یا پولیس اسٹیشن پہنچنے سے پہلے اپنے وکیل سے رابطہ کرے، اگر وکیل نہیں تو گروپ میں بتائے تاکہ اس کے لیے وکیل کا بندوبست کیا جائے۔ یہ تمام بات بتا کر چھوٹے بھائی نے کہا کہ بھائی جان ٹرمپ آ رہا ہے بطور صدر۔ پھر جب ہیلری کو FBI نے کلین چٹ دی تو میں نے دوبارہ فون کیا جناب اب تو ہیلری آ رہی ہے اسے کلین چٹ مل گئی ہے تو اس نے کہا کہ بھائی جان یہی تو چکر ہے اس کنفیوژن کا جو جان بوجھ کر کھڑی کی جا رہی ہے۔ اب تو بالکل مہر ثبت ہو گئی ہے کہ ’’اسٹیج‘‘ ٹرمپ کے لیے بنا دیا گیا ہے۔ میں پھر بھی اس سے یہ ضد کرتا رہا کہ نہیں ہیلری آ رہی ہے۔ اس نے کہا بھائی جان کاش ایسا ہو، مگر لگتا نہیں ہے کہ ایسا ہو گا۔ میں نے کہا کہ کیا ایجنسیاں ایسا کر رہی ہیں تو اس نے کہا کہ نہیں جناب بڑی سرمایہ دار لابی جو دنیا کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتی ہے۔

میں نے پھر اسے کہا کیوں ایک بدتمیز اور عقل سے عاری انسان کو لابی ایک طاقتور ملک کا صدر بنائے گی؟ تو اس کا جواب تھا کہ بھائی جان پہلی مرتبہ باقاعدہ سیاست میں آنے والے ایک شخص کو جس کے پاس صرف پیسہ ہے باقی کچھ نہیں کنٹرول کرنا آسان ہے یا ایک ایسی پارٹی کو اور اس کی بھی اس عورت کو جو اپنے شوہر کے دور سے طاقت کے ایوانوں میں تشریف فرما ہے جو تمام دنیا کو کس طرح لے کر چلنا ہے جانتی ہے۔ جو اپنے ملک کو بھی جانتی ہے اور جس کا ہاتھ دنیا کی نبض پر بھی ہے۔ جس کی پارٹی اور حکومت نے امریکہ کو اسامہ، طالبان، عراق جیسے خطرات سے نجات دلائی ہے۔ اور امریکہ میں امریکی بیٹوں کی جو لاشیں آنے کا سلسلہ بند نہیں ہو رہا تھا اس کو خاطر خواہ لگام ڈالی۔ ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ کا فائدہ یہ بھی تھا کہ امریکی ہاکس کے ساتھ میل کھاتا تھا۔ فیصلے کہیں اور سے ہوں گے سامنے چہرہ ٹرمپ کا ہو گا۔ ہیلری کے ہونے سے ایسا نہیں ہو سکتا تھا۔

ایک اور بات جس کی جانب توجہ دینا ضروری ہے کہ ٹرمپ ایک بزنس مین ہے۔ بزنس مین کسی بھی ملک کا ہو وہ اپنے ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے بگاڑتا نہیں ہے۔ یہی حال ٹرمپ کا بھی ہے۔ دوسرا اسٹیبلشمنٹ کے لیے ایسا صدر زیادہ موزوں ہے جس کا اپنا معاشی فائدہ دنیا کے انہی ممالک میں ہو جو سرمایہ دار لابی کے لیے ضروری ہے یا جو امریکہ جیسے ملک میں موجود ایجنسیوں کے لیے ہر خطے میں اہمیت رکھتے ہوں۔ جیسا کہ اگر میں پاکستان کے اعتبار سے دیکھوں تو امریکہ (پینٹا گون) کا جھکاؤ انڈیا کی جانب زیادہ ہے کیونکہ امریکہ کے لیے مستقبل کا خطرہ چین ہے جس کو کاؤنٹر کرنے کے لیے امریکہ اس خطے میں بھارت کی پشت پر ہاتھ رکھنا چاہتا ہے اور اگر ٹرمپ صاحب کو دیکھا جائے تو ٹرمپ اپنے باپ دادا کے کاروبار کی طرح ان کی بھی بہت بڑی سرمایہ کاری بھارت میں موجود ہے جس کی نشانی بمبئی اور پونا میں 300 اپارٹمنٹ کے دو پراجیکٹس ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جن کی مالیت 2 سے 2.5 ملین ڈالر ہے۔ اور باقی اور پراجیکٹس بھی زیر غور ہیں بلکہ اکثر پر کام شروع ہے۔ اسی لیے ٹرمپ کے جیتنے پر انڈیا میں خوشیاں منائی گئی ہیں۔ اور حال ہی میں ٹرمپ کی سترویں سالگرہ پر انڈیا کے دائیں بازو کے شیو سینا کے ہندو لیڈروں کی جانب سے خوشیاں منائی گئیں، کیک کاٹے گئے، پوسٹر لگائے گئے۔ جب کہ پاکستان کے حوالے سے اس کے وہی نظریات ہیں جو کہ امریکی CIA اور FBI اور پینٹا گون کے ہیں۔

اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ٹرمپ کا اقتدار پر آنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سو سالہ مستقبل کی پلاننگ کا حصہ ہے۔ جس کے اثرات آتے آتے آئیں گے مگر ہمیں آنکھیں کھلی رکھنا ہوں گی اور بیدار رہنا ہو گا۔ مگر ایک سوال نے مجھے تنگ کیے رکھا کہ جو میڈیا رپورٹس آ رہی تھیں، سروے آ رہے تھے وہ کیا تھے۔ تو پھر خود سے ہی جواب ملا کہ سرویز وغیرہ کے مطابق تو پاکستان میں بھی حالات کچھ ہیں اور زمینی حالات کچھ اور۔ باقی اللہ بہتر جانتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments