پیغام دوستی اور انتقامستان


ابھی کچھ عرصہ قبل ہمیں اخلاقیات کی کلاس میں طلبہ سے ایک موضوع پر بڑی عجیب آراء سننے کو ملیں۔ اخلاقیات کی کلاس میں عموماً کوئی نہ کوئی اخلاقی دوراہا بیان کرکے اس پر اخلاقی رائے لی جاتی ہے۔ پھر مختلف اخلاقی نظریات کا اس معاملے پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ معاملہ چند سال پرانا تھا اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے ضمن میں اس کا تذکرہ ہوا۔ چلئے ہم آج اس موضوع کا تجزیہ اخلاقیات اور انسانیت دونوں ہی رخ سے کرتے ہیں تاکہ ہم اس اخلاقی معاملے اور اس کے نتائج اور سماج پر اس کے اثرات کو سمجھ سکیں۔

واقعہ 2 یا 3 سال پرانا ہے۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ ایک دستاویزی فلم ساز خاتون کی بہن کراچی کے ایک مقبول اسپتال میں علاج کے لئے گئیں اور جس ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کیا اس نے اگلے روز فیس بک پر ’فرینڈز ریکویسٹ‘ یعنی دوستی کی درخواست بھیج دی۔ اس پر مذکورہ محترمہ اور ان کی بہن بہت جلال میں آئیں اور نا صرف اسپتال میں شکایت کی بلکہ کافی سارے ”ٹویٹ“ بھی فرما دیے اور نتیجتاً مذکورہ ڈاکٹر صاحب کو ان کی نوکری سے برخاست کر دیا گیا۔

اس واقعے میں چار کردار ہیں۔ پہلا کردار وہ ڈاکٹر صاحب جنھوں نے معائنہ کیا اور دوستی کا پیغام بھیجا۔ دوسرا کردار وہ خاتون جن کو یہ پیغام موصول ہوا۔ تیسرا کردار خاتون کی بہن یعنی ڈائریکٹر صاحبہ اور چوتھا کردار وہ اسپتال جہاں ڈاکٹر صاحب ملازم تھے۔ کسی بھی واقعے کا صحیح تجزیہ کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے سارے ہی کرداروں کے تمام افعال کا بنظر غائر تجزیہ کیا جائے اور کسی کے ساتھ بھی کسی بھی قسم کا تعصب نہ برتا جائے۔

مجھے ان ڈاکٹر صاحب اور ان کی دوستی نہ قبول کرنے والی خاتون کی عمر تو معلوم نہیں، لیکن لگتا ہے کہ دونوں جوان ہی کہلائیں گے جبکہ ڈائریکٹر صاحبہ پچاس پچپن سال کی ہیں اور اسپتال شاید 25، 30 سال کا ہے۔ اداروں کی بھی عمریں ہوتی ہیں اور وہ ان کے رویوں میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس پورے واقعے میں سب سے معمر ڈائریکٹر صاحبہ ہی ہیں اور اس پورے واقعے میں سب سے اہم کردار انھوں نے ہی ادا کیا ہے۔ اسپتال کا کردار اس پورے واقعے میں بس اتنا ہی تھا جتنا عیسائی روایت میں حضرت عیسیٰؑ کے مصلوب ہونے میں رومی گورنر کا تھا ( یعنی مجبور محض) ۔

اب یہاں پر پیشہ ورانہ اخلاقیات کا سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس پورے واقعے میں دو پیشہ وروں یعنی ڈاکٹر اور اسپتال نے صحیح کیا یا غلط کیا؟

ڈاکٹر صاحب نے اپنی مریضہ کو فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی۔ انھوں نے اصولاً غلط کیا، ا سلئے کہ یہاں وہ پیشے اور ذاتیات کی باریک سی سرحد کو عبور کر گئے۔ جب میں علم نفسیات کی عملی تربیت حاصل کر رہا تھا تو وہاں ہمارے لئے یہ بات سختی سے ممنوع تھی کہ ہم اپنے پاس علاج کے لئے آنے والے افراد سے کسی بھی قسم کا ذاتی رابطہ استوار کریں۔ حد تو یہ کہ ہمیں اپنے ذاتی فون نمبروں سے ان کو فون کر کے اپوائنٹمنٹ تک دینے سے منع کیا گیا تھا۔

مریض اور معالج کے درمیان ایسے بے حد معاملات ہوتے ہیں جن کی رازداری ضروری ہوتی ہے۔ بعض مرتبہ علاج گاہ سے باہر مریض کو سلام کر دینا بھی اس کے لئے کئی قسم کی پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ یعنی یہ تو طے ہے کہ ڈاکٹر صاحب سے غلطی تو کی۔ اب آتے ہیں اس واقعے کے دوسرے کردار یعنی ان خاتون کی طرف کہ جن کو یہ دوستی کی درخواست بھیجی گئی۔ فیسبک پر جب دوستی کی درخواست کسی کو موصول ہوتی ہے تو اس کا علم کسی کو بھی نہیں ہوتا سوائے اس شخص کے جسے یہ درخواست بھیجی گئی ہو اور فیسبک پر ایسا آپشن موجود ہے کہ آپ اس کے ’سرچ انجن‘ سے اپنا نام نکال سکتے ہیں یعنی آپ اس پر ہوں گے لیکن کوئی آپ کے نام سے آپ کو تلاش نہیں کر سکے گا۔

ایک اور بھی آپشن موجود ہے کہ آپ کو صرف آپ کے دوستوں کے دوست ہی دوستی کا پیغام بھیج سکیں اور ایسا بھی آپشن موجود ہے کہ کوئی غیر آپ کو دوستی کا پیغام کیا، کوئی پیغام ہی نہ بھیج سکے۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ محترمہ نے ان میں سے کسی بھی آپشن کو استعمال نہیں کیا تھا، اسی لیے محترمہ کو ایک انجان شخص نے پیغام دوستی ارسال کر دیا۔ یعنی بے احتیاطی تو محترمہ پر بھی ثابت ہے۔ پھر اس کے بعد سب سے بڑی بات یہ کہ اگر ان کو کسی ناپسندیدہ شخص سے پیغام دوستی موصول بھی ہو گیا تھا تو وہ اس کو رد کر کے اس قصے کو یہیں پر بھی ختم کر سکتی تھیں۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کوئی انشورنس پالیسی بیچنے والا آپ کے دروازے پر دستک دے تو آپ دروازہ نہ کھولیں اور اس کو چلتا کر دیں۔ اگر محترمہ کو ڈاکٹر صاحب سے مزید کوئی ڈر تھا تو وہ ان کو فیسبک پر بلاک کر سکتی تھیں اور اس صورت میں وہ ان کا پروفائل بھی نہ دیکھ سکتے۔ لیکن محترمہ نے بس یہیں پر بس نہیں کی بلکہ اپنی نابغہئی روزگار بہن کو خبر کر دی جیسے بعض دفعہ بچے اپنی ’آپی‘ کو لے آتے ہیں کہ ’دیکھیں آپی یہ مجھے بکری بول رہا تھا‘ بالکل اسی طرح آپی جی جو کہ اس کہانی کا تیسرا کردار ہیں، آ گئیں اور انھوں نے اپنی بہن کو پیغام دوستی بھیجنے کی جرات رندانہ کرنے والے ڈاکٹر پر اپنے ٹویٹ تیزاب کی طرح پھینک دیے اور ا سکو ’فیس سیونگ‘ کی بھی جگہ نہ دی۔

وہ صرف یہیں تک نہ رکیں بلکہ انھوں نے اسپتال کی انتظامیہ سے شکایت بھی کی اور بقول ذرائع ابلاغ، اسپتال پر پر دباؤ بھی ڈالا کہ فوری اور سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔ اس مقام پر اس واقعے کے چوتھے کردار یعنی اسپتال کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ اس لیے کہ اس ملک میں اب کلاشنکوف والوں کے ڈر کی جگہ کیمرے والوں نے لے لی ہے۔ نجی اسپتال جو پیسہ بنانے کے لئے بنائے گئے ہیں، ان کے پاس اتنی استطاعت کہاں کہ وہ کوئی کمیٹی قائم کر کے اس واقعے کے اخلاقی زاویے پر غور کریں اور دیکھیں کہ آیا یہ حرکت غیر اخلاقی ہے؟

اور اگر ہے تو اس کی سزا کتنی ہونی چاہیے؟ جس طرح ملکی قوانین میں سب سے بڑی سزا، سزائے موت ہے بالکل اسی طرح ادارہ جات کے قاعدے میں سب سے بڑی سزا نوکری سے برخاستگی ہے۔ ایک لمحے کو دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا یہ اتنی بڑی غیر اخلاقی حرکت تھی کہ اس پر اس ڈاکٹر کو نوکری سے برخاست کر دیا جاتا؟ اور اتنی بڑی ذلت کا ٹیکا لگا کر کیا اس ڈاکٹر کو اب دوبارہ کسی اسپتال میں نوکری مل سکے گی؟ کیا یہ کافی نہ تھا کہ ادارہ پہلی وارننگ دے کر ڈاکٹر سے معافی طلب کر لیتا اور نوکری سے برخاست نہ کرتا؟ لیکن یہاں نوجوان ادارے کی ٹانگیں معمر ڈائریکٹر صاحبہ کے کیمرے کے جلال سے ایسی کانپیں کہ وہ ان کے اشارے پر ان کی مرضی کا رقص کرنے لگا۔

یہاں اگر اتنا سخت رد عمل نہ دیا جاتا تو بھی ڈاکٹر صاحب کی اصلاح ہو سکتی تھی۔ مگر توپ سے چڑ یا کو اڑا دیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ ہمارا ملک بڑی تیزی سے انتقامستان بن گیا ہے۔ یہاں ہر روز ہی انتقام اوربھیانک ردعمل کی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ یہ وہی معاشرہ ہے جہاں یک پھل توڑنے پر بچے کو کتوں سے کٹوایا جاتا ہے۔ یہاں مرضی کی شادی نہ ہونے کی سزا ایک عورت لسی میں زہر ملا کر اپنے سارے ہی سسرال کو مار دیتی ہے۔

یہاں عشق میں ناکام ہونے والے اپنی محبوبہ کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتے ہیں۔ یہاں اپنے شوہر سے نفرت کرنے والی عورت اپنی کوکھ میں پلتے اس کے بچے کا اسقاط کرا کر اس کی لاش کو پولی تھین بیگ میں اپنے شوہر کے دروازے پر ٹانگ آتی ہے۔ یہ سب ہمارے وطن کی خبریں ہیں۔ ہم نفرت میں ڈوبے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کو برباد کر دینے کے خواہاں لوگ ہیں۔ یہاں فرینڈز ریکوئسٹ بھیجنے کے جرم میں ایک ڈاکٹر کی پیشہ ورانہ زندگی ہمیشہ کے لئے برباد کر دی جاتی ہے اور یہ کرنے والے اپنے آپ کو اخلاقیات کا چمپین سمجھتے ہیں۔ شاید ہم پاکستان میں نہیں انتقامستان میں رہتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments