روایات کے اسیر


ساقی نامہ میں اقبال نے فرمایا:
تمدن، تصوف، شریعت، کلام
بتان عجم کے پجاری تمام
استاد نے شعر میں تصرف کیا، وزن گر گیا، مفہوم واضح ہو گیا
تمدن، تصوف، فقہ، کلام
بتان عجم کے پجاری تمام

شریعت کے ساتھ عجم کا جوڑ نہیں بنتا اور یہ کہ الہامی ہے، فقہ البتہ اعلی درجے کا کام ہے لیکن ہے ”انسانی کام“ ہی۔ شریعت اور فقہ میں کیا فرق ہے؟ ایک الہامی اور ابدی دوسرا انسانی اور زمانی، اس سے آگے کے لیے اہل علم سے رجوع کریں۔ غالباً علامہ کا منشا بھی ’فقہ ہی ہے‘ ۔

سادہ الفاظ میں اقبال کا مدعا یہ ہے کہ ’سالک مقامات میں کھو گیا‘ ، ’عجم کے خیالات میں کھو گیا‘ ، ’کلام منطق سے تو سلجھا ہواہے لیکن لغت کے بکھیڑوں میں الجھا ہوا‘ ۔ ’حقیقت اور خرافات مدغم ہوگئیں ”، اس طرح‘ امت روایات میں کھو گئی ’اور اصل منشا اور اور مقصد‘ کتاب الہی ’سے بے پرواہ ہوگئی، خرد روایات کی غلامی کا شکار ہوئی،‘ سکون و ثبات ’روایات کا استعارہ اور فریب نظر ہیں، حالانکہ دما دم صدئے کن فیکون آ رہی ہے اور اس بات کی غماز ہے کہ تازہ افکار اور نئے بیانیے ہی زندگی کی علامت ہیں۔

روایات کی جس زنجیر میں ہم جکڑے ہوئے ہیں اور دین کی اصل ”قرآن“ کو جس طرح ہم چھوڑے ہوئے ہیں، اس ابتلا میں ہم سے پہلے اہل کلیسا مبتلا رہے۔ کیتھولک چرچ کو اسی پر اصرار تھا کہ وہ ”تنہا“ الہامی کتاب ”بائبل“ کی تشریح کا اختیار رکھتا ہے اور اس کی روایات اور تشریحات ہی حرف آخر ہیں، چرچ کا یہ موقف کہ اس کے فتاوی ”Papal Bulls“ وہی اہمیت رکھتے ہیں جس طرح کتاب الہی کے قانون۔ ان پر تنقید کرنا ”گستاخی“ یا ”گمراہی“ کے زمرے میں آتا ہے۔

جس طرح ہم نے ”غیر الہامی“ تعلیمات کو ”الہام“ کا درجہ دیا اور ایمانیات کا حصہ ٹھہرایا اور اس کے مقابل آرا رکھنے والوں ”مغرب زدہ“ یا ”منکرین حدیث“ جیسے القابات سے نوازا اسی طرح چرچ نے بھی یہی رویہ رکھا۔

آئیے مغرب کی تاریک تاریخ میں اپنا آئینہ دیکھتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

چودھویں صدی میں کیتھولک چرچ کا زوال شروع ہوچکا تھا، پوپ کا فرانس کی طرف جھکاؤ اور روم کو چھوڑ کر فرانس میں ’ایوینیون‘ چلے جانے سے چرچ کے وقار پر کاری ضرب لگی، پوپ مارٹن ہفتم کی شکل میں چرچ متحد ہوا لیکن ’رینیساں‘ کے اشر میں آ گیا۔ پوپ آرٹ کی سرپرستی کرتے اور جنگیں لڑتے اور خزانہ لٹاتے۔ پوپ سکسٹس نے سستین چیپل کی بنیاد رکھی اور پیسہ پانی کی طرح لٹایا، پوپ جولیس دوم جنگجو پوپ کہلایا کئی مہمات میں خود قیادت کی، بالاخر ’رینیساں‘ کا غلبہ اس قدر ہوا کہ فلورنس کے مشہور خاندان۔

۔ ڈی میڈیچی۔ (جو کہ بینکنگ کے شعبے سے وابستہ اور فنون لطیفہ کی سرپرستی کرنے والا تھا) کا چشم و چراغ جیووانی ڈی میڈیچی پوپ کے منصب پر فائز ہوا اور لیو کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ وہی پوپ ہیں جنہوں نے سینٹ پیٹر بیسیلیکا کی تعمیر نو کے لیے ”رہائی کے پروانے“ بیچنے کا حکم دیا جسے مارٹن لوتھرنے ماننے سے انکار کیا اور ہوں اصلاحی تحریک کا ہورپ میں آغاز ہوا۔

مارٹن لوتھر کو جرمنی میں، ولیم ٹنڈیل کو انگلینڈ میں، ہیلڈرچ زونگلی اور جون کیلون کوسوئٹزرلینڈ میں اور جون نوکس کو سکاٹ لینڈ میں کیا کیا مشکلات پیش آئیں یہ ہمارا موضوع نہیں لیکن تاریخ اور مذہب کے طالب علم کے لیے اس میں بہت اہم سبق ہیں۔

ہم یہاں پر صرف ٹنڈیل اور لوتھر کے دو مکالموں کو دیکھین گے جو انہیں نے اپنے دور میں کیتھولک حریفوں سے کیے جس میں اصلاحی تحریک کا بنیادی اصول Sola Scriptura صرف کتاب ہی حق کا معیار طے کر سکتی ہے کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔

پہلا مکالمہ لوتھر کا ”دائٹ آف ورمز 1521“ میں ”جوہان ایک“ کے ساتھ ہے، اس نے لاطینی زبان میں الزامات کا آغاز کیا، زیر نظر انگریزی ترجمہ ویل ڈیوراں کا ہے :

Martin, your plea to be heard from Scripture is the one always made by heretics. You do nothing but renew the errors of Wyclif and Hus۔ ۔ ۔ .How can you assume that you are the only one to understand the sense of Scripture?

غور کریں الزام یہ ہے کہ تمہاری خوایش کہ ”کتاب الہی“ کو دلیل کی بنیاد بنایا جائے ”گستاخوں“ کی روایت ہے۔ یعنی ہمارے ”بتان عجم“ کے خلاف گستاخ ہی بولا کرتے ہیں۔ آگے دیکھیں

You have no right to call into question the most holy orthodox faith, instituted by Christ the perfect Lawgiver, proclaimed throughout the World by Apostles, sealed by the red blood of martyrs, confirmed by the sacred councils, and defined by Church۔ ۔ ۔ and which we are forbidden by the Pope and Emperor to discuss.

وجہ نزاع یہ ہے کہ ہماری روایات کے خلاف کیسے کھڑے ہوئے؟ ہمارے شہیدوں، ہمارے ولیوں اور ہمارے اجماع کے مقابل تم نے کیسے رائے قام کی چاہے تم کتنا کہو کہ تمہاری رائے کتاب الہی پر مبنی ہے۔

لوتھر کا جوب سادہ ہے میں اپنے تمام خیالات اور افکار کو رد کروں گا اگر آپ اسے کتاب الہی سے غلط ثابت کردیں

Unless I am convicted by the testimony of Sacred Scripture or by evident reason (I do not accept the authority of Pope and Councils, for they have contradict each other) , my conscience is captive to the word of God. I cannot and I will not recant anything, for to go against my conscience is neither right nor safe.

پروٹسٹنٹ تحریک کا انجام کیا ہوا اور اس کے اثرات نے ”سائنسی ایجادات“ اور ”مذہبی آزادی“ میں کیا کردار ادا کیا یہ ہمارا موضوع نہیں ہے، لیکن ہم اس مکالمے ”روایت پسندی“ کی بنجر دلیل کی موت کی دستک سن سکتے ہیں اور آج اپنے ’گستاخوں‘ ، ’مغرب زدوں‘ اور ’روایات کے منکروں‘ کی صف بندی بھی کر سکتے ہیں۔

دوسرا مکالمہ ولیم ٹنڈیل کا ہے جس نے با ئبل کا انگریزی ترجمہ کرنے کی چرچ سے اجازت مانگی اسے انکار کر دیا گیا، لیکن وہ اس پر مصر تھا کہ وہ بائبل کو عام کر کے رہے گا، وہ جانتا تھا جیسے ہی اللہ کی کتاب عوام کی پہنچ میں آئے گی روایات اور اصراراغلال کا سارا منافقانہ کھیل ختم ہو جائے گا۔ بالاخر اس نے بائبل کا ترجمہ انگریزی میں کیا اور اس کی پاداش میں جلا دیا گیا۔

اسے چرچ کے نمائندے کے سامنے پیش ہونا پڑا اور جب بحث گرم ہوگئی اور ولیم ٹنڈ یل نے زور دیا کہ ہمیں خدا کا کلام لوگوں ک عام کرنا چاہیے تاکہ وہ خود فیصلہ کرسکیں کہ حق کیا ہے اور باطل کیا اس پر حریف نے جھنجھلا کر کہا:

ولیم ٹنڈیل کے آخری لمحات اور دعا: اے خدا انگلینڈ کے بادشاہ کی آنکھیں کھول دے
We had better be without God ’s law than the Pope‘ s.

یعنی ہمارے لیے پوپ کے فتاوی ہی شریعت ہیں، اس پر ٹنڈیل نے جو جواب دیا وہ آج ہمارے مسائل کا حل بھی پیش کرتا ہے اور ہمادے لیے ہدف بھی مقرر کرتا ہے، اس نے کہا:

I defy the Pope and all his laws, and if God spare my life, ere many years, I will cause the the boy that driveth the plow to know more of Scripture than you do.

میں بائبل کو اتنا عام کردوں گا کہ ایک ہل چلانے والا نوجوان بھی ’کتاب الہی‘ کو تم سے زیادہ جاننے والا بن جائے گا۔

تنڈیل نے مرنے سے پہلے صلیب پر آخری دعا کیا کی تھی؟ اوراس کی موت کے دو سال یعنی 1538 ء میں انگلینڈ کے بادشاہ نے ٹنڈیل بائبل کو چرچ میں رکھنے کا جو حکم دیا اس کے اثرات کیا ہوئے؟ یہ سب تاریخ ہے۔

اصلاحی تحریک۔ پروٹسٹنٹ ریفارمیشن کی سب سے بڑی کامیابی عام تعلیم اور اس کے نتیجے میں بائبل کا عوام اناس کی پہنچ میں ہونا تھا، اس سے چرچ کی بے معنی روایات وقت کی گرد میں گم ہوگئیں۔ اور یہ تحریک ہی وجہ تھی جس نے چرچ کو ”کونسل آف ٹرنٹ“ میں اپنی اصلاح پر مجبور کیا۔

کیا ہم بھی اپنے تاریک دور سے گزر رہے ہیں؟ کیا ’کتاب الہی‘ اور ہمارے درمیان کہیں ’روایات اور فقہی موشگافیوں‘ کی دیوار تو حائل نہیں ہوگئ؟ کیا ہماری دلیلیں بھی اسی طرح بنجر تو نہیں ہوگئیں کہ ’ہمارے بڑوں نے جیسے سمجھا اس کے مقا بل ہر رائے گستاخی سمجھی جائے‘ ؟ کیا ہم نے ’کتاب الہی‘ کی تشریح کے لیے کسی گروہ کو اجارہ دار تو نہیں بنادیا؟ اور ’اجماع‘ سے الگ نقطہ نظر رکھنے والوں کو رائے کو ’گمراہ‘ اور ’دین سے دوری‘ قرار تو نہیں دیا؟

اقبال نے جس روایت پسندی کا ماتم کیا، ولیم ٹنڈیل نے اس کا حل بہت پہلے بتادیا، ”روایات کی دلدل کے بجائے ’کتاب الہی‘ کے تازہ شفاف پانیوں سے استفادہ۔“ سوال یہ ہے کہ روایت کی اس اسیری سے ہم نے کب آزاد ہونے کا فیصلہ کرنا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments