پٹرول کی قیمت میں 25 روپے کا اضافہ، ایک بال سے دو وکٹیں


ہمارے ویژنری کپتان نے ایک مرتبہ پھر ماسٹر سٹروک کھیل دیا اور ایک ہی بال سے دو اہداف کو ایسا زور سے نشانہ بنایا کہ لوگ شائیں شائیں کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ شائیں عربی کا لفظ ہے۔ اردو میں اس کا تلفظ کچھ مختلف ادا کیا جاتا ہے۔

بہرحال اس وقت ملک خدا داد کو دو بڑے مسائل درپیش تھے۔ پہلا مسئلہ کرونا کی وبا کا تھا۔ کپتان نے لاکھ سمجھایا کہ ٹک کر گھر بیٹھو۔ اس سے بیماری نہیں پھیلے گی۔ اور یہ بھی بتا دیا کہ کپتان کسی قیمت پر لاک ڈاؤن نہیں کرے گا کیونکہ اس سے غریب بھوکا مر جاتا ہے۔ اشرافیہ نے ٹل کا زور لگا لیا مگر کپتان نے لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ ہاں بعض مقامات پر سمارٹ لاک ڈاؤن ضرور کیا۔ عام لاک ڈاؤن اور سمارٹ لاک ڈاؤن میں فرق یہ ہے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن صرف سمارٹ لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں، یہ عام لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا۔ یہ پرانی حکمت ہے۔ اس سے پہلے ایک بادشاہ بھی سمارٹ کپڑے سلوا کر پہن چکا ہے اور جب بھی عقل و دانش کا ذکر ہو تو اسی کی مثال دی جاتی ہے۔

سمارٹ لاک ڈاؤن حالانکہ لاہور شہر کے 81 علاقوں میں کیا جا چکا ہے، اور اب کل پرسوں سے سخت سمارٹ لاک ڈاؤن مزید علاقوں میں بھی ہو چکا ہے مگر کپتان کو قوم ہی ویسی نہیں ملی جیسی وہ چاہتا تھا۔ یہ تو خدا کی کوئی علیحدہ ہی مخلوق ہے۔ ایسی جاہل قوم کو کپتان کتنا سمجھا سکتا ہے؟ بائیس برس میں تو اسے یہ بات سمجھ آئی کہ نواز شریف اور آصف زرداری اچھے حکمران نہیں ہیں۔ خواہ نواز شریف کتنا زیادہ ترقیاتی کام کروا دے اور آصف زرداری تنخواہوں میں آدھوں آدھ اضافہ کر دے، وہ برے حکمران ہی ہیں۔ اب اس جاہل قوم کو یہ سمجھانے کے لیے کہ گھر میں بیٹھ کر کنسٹرکشن انڈسٹری میں کام کاج کرتے رہو، اللہ جانے بائیس برس لگیں گے یا چوالیس۔ وہ تو بھاڑ سا منہ کھول کر پوچھ دیتے ہیں کہ گھر میں بیٹھ کر کنسٹرکشن انڈسٹری میں کیسے کام کیا جا سکتا ہے؟ ہوائی قلعے نہیں بنا سکتے جاہلو؟ خیالی پلاؤ پکانے میں کیا کالے کوسوں جانا پڑتا ہے؟ باہر جا کر سیاحت کیوں نہیں کرتے کہ غریب کو چار پیسے ملیں؟ گھر بیٹھے دور دیسوں کے خواب دیکھا کرو اور جی بھر کر سیر کیا کرو۔

کپتان نہایت رحم دل ہے۔ وہ اس قوم پر ویسی سختی نہیں کرنا چاہتا جیسی وہ چاہتا ہے۔ نیز اشرافیہ کے دباؤ میں آ کر وہ لاک ڈاؤن کرنے یا کرفیو لگانے سے بھی انکاری ہے۔ اس نے ایسی چال چلی ہے کہ اب قوم رضاکارانہ طور پر گھر بیٹھے گی۔ جب چند گھنٹوں کے اندر اندر پٹرول کی قیمت پچیس روپے فی لیٹر بڑھ جائے گی تو دیکھتے ہیں کون مائی کا لال کل صبح گھر سے بلا ضرورت نکلتا ہے؟ لوگ ٹک کر گھر نہیں بیٹھ رہے تھے۔ اب گھر سے نکلنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔ بندہ اتنی گرمی میں بھلا پیدل کتنی دور جا سکتا ہے؟

دوسری طرف یہ روایت سی بن گئی ہے کہ جب بھی کپتان اس ناشکری قوم کو کسی قسم کی راحت دینے کی خاطر اشیائے ضروریہ کی قیمت کم کرتا ہے تو کوئی نا کوئی مافیا میدان میں کود پڑتی ہے اور اس چیز کی ایسی شارٹیج کرتی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو مہنگا خرید کر ہی سکھی تھے۔ پہلے چینی کا یہی معاملہ ہوا۔ وہ تو ایک اہم دوست ملک درمیان میں کود پڑا ورنہ کپتان کو اس مافیا پر ایسا زبردست غصہ تھا کہ سب کرپٹ مافیا والوں کو الٹا لٹکا دیتا۔ پھر آٹے کا یہی معاملہ ہوا۔ اب نئی گندم کھیتوں سے کاٹی جا چکی ہے مگر پھر بھی اس کا ایسا کال پڑا ہوا ہے کہ بعض لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ ڈبل ریٹ پر بلیک میں آٹا خرید رہے ہیں۔ ہمارے خیال میں تو وہ جھوٹ بول رہے ہیں۔

مگر اونٹ کی کمر پر آخری تنکا پٹرول کا ثابت ہوا۔ کپتان نے اس کی قیمت میں تاریخی کمی کی تو وہ تاریخی مدت کے لیے مارکیٹ سے غائب ہو گیا۔ پہلے پٹرول کبھی غائب ہوتا تھا تو دو چار دن بعد ملنے لگتا تھا۔ اس مرتبہ دو چار ہفتے بعد بھی نایاب ہے۔ کپتان نے پہلے تو پٹرول مافیا کو خوب پیار سے سمجھایا کہ دیکھو ایسے مت کرو، لوگوں کو تنگ نا کرو، بری بات ہے۔ مگر وہ کم بخت تو حرفوں کے بنے ہوئے ہیں۔ سیدھا سا منہ کر کے کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے جہاز منگا لیا ہے، ہوا کا رخ موافق ہوا تو جلد ہی لنگر ڈال دے گا اور پھر ایسا پٹرول بہے گا کہ لوگ اس کی بوتلیں چھڑک چھڑک کر نہایا کریں گے۔ ماچس کی صنعت کو بھی اس سے خوب فروغ ملے گا۔

بہرحال کپتان نے تنگ آ کر اس مافیا کو بھی اسی ایک بال سے آؤٹ کر دیا جس سے جاہل عوام کو کیا تھا۔ اب پٹرول مہنگا ہو گا تو عوام خریدیں گے ہی نہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ پندرہ دن بعد پٹرول مزید 50 روپے لیٹر مہنگا کیا جائے گا اور چار ہفتے بعد سو روپے لیٹر۔ پٹرول پمپ خالی پڑے سائیں سائیں کریں گے۔ گاہک کی راہ تکیں گے۔ کوئی نہیں جائے گا وہاں۔ لوگ اس کے سامنے سے سر پر آٹے کی ایک پاؤ کی اور کاندھے پر چینی کی دو چھٹانک کی بوری اٹھا کر بے نیازی سے پا پیادہ گزرا کریں گے اور پٹرول مافیا منہ تکتا رہ جائے گا۔ اور قیمتوں میں بے پناہ اضافے کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک پٹرول مافیا گھٹنوں کے بل گر کر کپتان سے معافی نہیں مانگ لیتی۔

واہ کپتان۔ سچ ہی کہا ہے کسی نے کہ جب کسی کو گڑ سے مارا جا سکتا ہو تو اسے زہر دینے کی کیا ضرورت ہے۔ مگر لیڈر اگر ویژن رکھتا ہو تو گڑ پر بھی قوم کا پیسہ نہیں پھینکتا، بھوکا ہی مار دیتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments