جب چین کے معاملے پر کانگریسیوں اور حزب اختلاف دونوں نے جواہر لال نہرو کو گھیرا


جیسے ہی یہ معلوم ہوا کہ چین نے انڈیا کی سرزمین میں پیش قدمی کی ہے، پرجا سوشلسٹ پارٹی سے لے کر سوتنتر پارٹی تک، لوہیا کی سوشلسٹ اور جن سنگھ سب نے مل کر انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو پر ایسے حملے شروع کیے جو ان پر پہلے کبھی نہیں ہوئے تھے۔

ان سب کی قیادت جن سنگھ کے ایک نسبتاً نوجوان رہنما اٹل بہاری کر رہے تھے۔

12 ستمبر سنہ 1959 کو انھوں نے لوک سبھا میں ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ کسی خاص تاریخ تک چین کو انڈیا کی سرزمین چھوڑنے کے لیے کہا جائے اور چین کو واضح پیغام دیا جائے کہ اس کے انڈین سرزمین چھوڑنے سے قبل اس سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔

جنوری سنہ 1960 میں ناگپور میں پارٹی کے قومی کنونشن نے مطالبہ کیا کہ انڈیا تبت کی آزادی کو تسلیم کرے، اقوام متحدہ میں چین کی شمولیت کے لیے اپنی حمایت واپس لے، انڈیا میں چین نواز عناصر پر گہری نظر رکھی جائے اور انڈیا اپنی فوجی صلاحیت میں اضافہ کرے۔

یہ بھی پڑھیے

چین کی سلامتی کونسل کی رکنیت، نہرو کے ’کردار‘ پر بحث

نہرو، ایڈوینا کی قربت سے کس خاتون کو حسد تھا

انڈیا اور چین: ایشیا کی دو بڑی طاقتیں خطے میں کہاں کہاں الجھی ہوئی ہیں؟

اگست سنہ 1960 میں حیدرآباد میں منعقدہ انڈین جن سنگھ کی قومی کونسل میں پارٹی کے صدر پیتامبر داس نے مطالبہ کیا کہ چینیوں کو انڈیا کی سرزمین سے نکالنے کے لیے فوجی کارروائی کی جانی چاہیے۔

اپریل سنہ 1960 میں جب چینی وزیر اعظم چو این لائی انڈیا آئے تو جن سنگھ نے انڈیا کے بارے میں چین کی ‘شررانگيز پالیسی’ کے خلاف ایک اور یادداشت دی۔

کریگ بیکسٹر نے اپنی کتاب ‘دی جن سنگھ’ میں لکھا ہے کہ ‘جن سنگھ نہرو- چو این لائی سربراہی اجلاس کے بالکل خلاف تھی اور اس کا شروع ہی سے مطالبہ تھا کہ چین کو کوئی رعایت نہ دی جائے۔’

چو این لائی کی انڈیا آمد سے دو دن قبل جن سنگھ کے کئی ہزار کارکن تختیاں ہلاتے ہوئے نہرو کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ ان تختیوں پر لکھا تھا: ‘چینیوں انڈیا کی سرزمین چھوڑو’، ‘چینی سامراج واد مردہ باد۔’

انڈین پی ایم نہرو اور چین کے رہنما چاو این لائی

انڈین پی ایم نہرو اور چین کے رہنما چاو این لائی

نہرو پر چاروں طرف سے حملہ

پرجا سوشلسٹ پارٹی کے ناتھ پائی نے لوک سبھا میں وزیر اعظم نہرو سے پوچھا: ‘اگر چین کے ہماری سرزمین پر ٹھکانہ بنانے سے جنگ شروع نہیں ہوسکتی تو پھر ہمیں اس بات کی فکر کرنے کی کیوں ضرورت ہے کہ ہمارے ان اڈوں کو تباہ کرنے کے بعد جنگ شروع ہوجائے گی۔’

جن سنگھ کے صدر دین دیال اپادھیائے 24 ستمبر سنہ 1962 تک حکومت سے مطالبہ کررہے تھے کہ چین کو الٹی میٹم دیا جائے۔

اس وقت مشہور مبصر فرینک موریس نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ‘جن سنگھ کے صدر کا یہ مطالبہ قومی مفاد کو محسوس کیے بغیر غیر ذمہ دارانہ کام ہے۔ یہ صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔’

حزب اختلاف کے سخت تیور

انڈیا کی آزادی کے وقت سے ہی آر ایس ایس تبت، نیپال اور بھوٹان میں چین کی توسیع پسندی پر تنقید کرتا رہا ہے۔

جب سنہ 1959 میں کشمیر کے اکسائی چن علاقے میں چین کے ذریعے سڑک تعمیر کرنے کی خبر عام ہوئی تو آر ایس ایس کے فیصلہ لینے والے سب سے بڑے فورم آل انڈیا ایگزیکٹو بورڈ نے ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے چینی جارحیت کا سبب حکومت ہند کی جانب سے گذشتہ 10 برسوں سے چین کی خوشامد کو قرار دیا۔

دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت لوک سبھا کے تمام اچھے مقرر حزب اختلاف میں تھے۔ ان میں سے ایک اچاریہ کرپلانی تھے جو کبھی کانگریس کے صدر تھے۔ لیکن اس وقت پرجا سوشلسٹ پارٹی کے رہنما تھے۔

جب کھچڑی لمبے بالوں والے کرپلانی حزب اختلاف کی اگلی نشست پر بیٹھ کر کرشنا مینن کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتے تو سارے رکن پارلیمان اور ناظرین کی گیلری میں بیٹھے صحافی انھیں دیکھ رہے ہوتے۔

اس وقت پرجا سوشلسٹ پارٹی کے ایک اور رکن اشوک مہتا، سوتنتر پارٹی کے این جی رنگا اور مینو مسانی بھی چین کے معاملے پر حکومت کو گھیرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ یہ بھی اتفاق تھا کہ یہ سارے لیڈر کبھی کانگریس پارٹی کے رکن رہ چکے تھے۔

آر ایس ایس نے چین سے تعلقات توڑنے کے وکالت کی

اکتوبر سنہ 1962 میں چینی حملے کے بعد آر ایس ایس کے آل انڈیا ایگزیکٹو بورڈ نے ایک بیان جاری کیا کہ ‘جب تک ہم اپنی سرزمین کو چین سے نہیں چھڑاتے اس سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔’

اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘انڈیا کی سرزمین کو دوبارہ حاصل کرنے کے علاوہ چین کی توسیع پسندی کو روکنے اور انڈیا کی سرحدوں کے تحفظ کے لیے تبت کی آزادی بھی ضروری ہے۔’

اگلے سال آر ایس ایس کی ایک اور اکائی آل انڈیا ایوان نمائندگان نے کولمبو کانفرنس کی انڈیا اور چین کے درمیان ثالثی کی قرارداد کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ہمیں کمیونسٹ چین کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات توڑ لینے چاہییں اور دلائی لامہ کی حمایت کرتے ہوئے تبت کی تحریک آزادی کی مدد کرنی چاہیے۔

آر ایس ایس کی ان سخت تجاویز کو نہرو نے تو قبول نہیں کیا لیکن جنگ کے بعد پیدا ہونے والے حب الوطنی کے ماحول کی وجہ سے آر ایس ایس کو بہت ہی سیاسی فائدہ ہوا۔ اس کا نتیجہ اس حد تک نکلا کہ نہرو نے آر ایس ایس پارٹی کو سنہ 1963 کے یوم جمہوریہ کی پریڈ میں شرکت کی اجازت دی جس کی وہ اس وقت تک ہر موقع پر مخالفت کرتے رہے تھے۔

چین پر کانگریس میں بغاوت

نہرو کی چین پالیسی ان کی اپنی ہی پارٹی کانگریس کو راس نہیں آ رہی تھی۔ ایک بار جب نہرو نے یہ کہہ کر اکسائی چن پر چین کے کنٹرول کا دفاع کیا کہ وہاں تو گھاس کا ایک تنکا تک نہیں اگتا تو کانگریس کے ہی سینیئر ممبر مہاویر تیاگی نے اپنی ٹوپی اتار کر اپنے گنجے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بھی کچھ نہیں تو کیا یہ بھی کسی کو دے دینا چاہیے؟

جوں جوں انڈیا اور چین کی جنگ بڑھتی گئی وزیر دفاع کرشنا مینن کو اس کے ولن کے طور پر دیکھا جانے لگا۔

جب ٹائمز آف انڈیا کے ایک نامہ نگار نے کرشنا مینن سے سوال پوچھا کہ ‘آپ کی نظر میں بڑھتے ہوئے چینیوں کو کہاں روکا جاسکتا ہے؟’

مینن کا جواب تھا: ‘جس طرح سے وہ بڑھ رہے ہیں اس کی کوئی حد نظر نہیں آتی کہ وہ کہاں تک جائیں گے۔’

اس دوران نہرو پریس سے دور دور ہی رہے۔ اس دوران پارلیمنٹ بھی نہیں چل رہی تھی۔ اسی وقت دو اراکین پارلمیان ناتھ پائی اور فرینک انتھونی نے نہرو سے ملاقات کی۔

انھوں نے کہا کہ نہرو چینی حملے کو اس حد تک ‘کم کر کے بتا رہے تھے کہ انھوں نے کہا کہ چین کے ساتھ سیاسی تعلقات توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘

اپوزیشن نہرو کے کردار سے خوش نہیں تھی لیکن نہرو کو براہ راست نشانہ بنانے کے بجائے اس نے ان کے قریب ترین کرشنا مینن کو نشانہ بنایا۔

23 اکتوبر سنہ 1962 کو کانگریس کے تقریبا 30 ممبران پارلیمنٹ کا اجلاس ہوا۔ ان کی شکایت یہ نہیں تھی کہ حکومت نے پارلیمنٹ اور ملک کو گمراہ کیا تھا بلکہ یہ تھی کہ کرشنا مینن نے نہرو، پارلیمنٹ اور ملک کو گمراہ کیا ہے۔

ان کا الزام تھا کہ مینن نے بار بار پارلیمنٹ کو بتایا کہ لداخ میں چینیوں کی پیش رفت کو روکنے کے لیے لداخ میں سازگار ماحول نہیں ہیں۔

نیفا میں فوج کی صورتحال کے بارے میں پورے ملک میں غلط فہمی پھیلائی گئی اور اس کے لیے صرف مینن ہی ذمہ دار تھے۔

وہ مینن کے خلاف اپنی شکایات لے کر نہرو کے پاس گئے تھے۔ انھوں نے پہلے یہ کہتے ہوئے انھیں مسترد کرنے کی کوشش کی کہ یہ پوسٹ مارٹم کا وقت نہیں ہے۔

کانگریس ارکان کے اس حملے میں حزب اختلاف کے رہنما آچاریہ کرپلانی اور دیگر بھی شامل ہوگئے۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ نہرو خود وزارت دفاع کی ذمہ داری سنبھال لیں۔

جیسے جیسے کانگریس کے مزید رکن پارلیمان دلی پہنچتے گئے مینن کے خلاف ماحول بنتا گیا۔ یہاں تک کہ اس وقت کے وزرائے اعلیٰ (جن میں سبھی کانگریسی تھے) نے بھی مینن کے خلاف ہوا باندھی۔ کچھ دنوں کے بعد صدر رادھا کرشنن بھی مینن کو ہٹانے کی مہم میں شامل ہوگئے۔

مینن کا استعفیٰ

31 اکتوبر کو اعلان کیا گیا تھا کہ نہرو خود وزارت دفاع کی ذمہ داری سنبھالنے والے ہیں لیکن اس وقت بھی کرشنا مینن کو کابینہ سے فارغ نہیں کیا گیا تھا۔

ان کے لیے دفاعی پیداوار کا ایک نیا عہدہ تشکیل دیا گیا اور وہ کابینہ کے رکن رہے۔

انڈیا-چین جنگ پر ایک مشہور کتاب لکھنے والے نیول میکس ویل اپنی کتاب ‘انڈیاز چائنا وار’ میں لکھتے ہیں: ‘یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ مینن کو وزارت دفاع سے دستبردار ہونا چاہیے، نہرو نے مینن کو اپنی کابینہ میں برقرار رکھ کر ان کے ناقدین کو ناراض کر دیا جو کہ ان کے بھی ناقد تھے اور مینن کو ہٹانے سے انھیں جو ‘چین کا سانس’ ملتا وہ اس سے بھی محروم ہو گئے۔’

کچھ دنوں بعد کرشنا مینن کے ایک تبصرے کہ ‘کچھ بھی نہیں بدلا ہے’ سے یہ شبہ ایک طرح سے سچ ثابت ہوا کہ نہرو نے مینن سے چھٹکارا حاصل کرنے کو کوئی خاص اہیمت نہیں دی۔

دی ہندو اخبار نے 2 نومبر سنہ 1961 کے اپنے شمارے میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ‘وزارت دفاع کے کام میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی گئی ہے۔’

نہرو کے تسلط کا خاتمہ

سات نومبر کو کانگریس کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں نہرو نے ایک بار پھر مینن کو بچانے کی کوشش کی۔

نہرو نے کہا کہ مینن کے خلاف شکایت کو واقعی پوری حکومت کے خلاف شکایت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ اگر آپ اس کا استعفیٰ چاہتے ہیں تو میرا استعفیٰ بھی طلب کریں۔

اس میٹنگ میں موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ کانگریس کے کچھ سینیئر رہنماؤں نے جو بات نہرو سے کہی اس کا نچوڑ یہ تھا کہ ‘اگر آپ مینن کی پالیسیوں پر اتنا ہی یقین رکھتے ہیں تو ہمیں آپ کے بغیر رہنے کے بارے میں سوچنا ہوگا۔’

اگلے ہی دن کرشنا مینن کا کابینہ سے استعفے کا اعلان کیا گیا۔ کانگریس پارٹی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جب نہرو کی مرضی کا احترام نہیں کیا گيا۔

خود نہرو کے بچے رہنے کے لیے کرشنا مینن کا کابینہ چھوڑنا ضروری ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا کی سیاست پر ایک لمبے عرصے سے چلے آ رہے نہرو کے غلبے کے خاتمے کی ابتدا بھی ہو گئی اور نہرو کبھی اس صدمے سے نہیں نکل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp