خان صاحب اڑنا نہیں آتا تھا تو پنگا کیوں لیا تھا؟


عظیم آل راؤنڈر وہی ہوتا ہے جو ناقابل یقین کام کرے، ہمارے پیارے وزیراعظم عمران خان بھی کرکٹ کے عظیم آل راؤنڈر رہے، سوئنگ ایسی کرتے کہ بیٹسمین کو علم ہی نہیں ہوتا تھا کہ گیند کدھر پھینکی اور وہ کیسے سوئنگ ہو کر وکٹیں اڑا دیتی تھی۔

بھارت کے ایک مایہ ناز بیٹسمین (نام یاد نہیں آ رہا) کے آؤٹ ہونے کا منظر اب تک نہیں بھولا، وہ بیٹسمین بیٹ اوپر اٹھائے کافی دیر یہ سمجھنے کی کوشش کرتا رہا کہ گیند وکٹوں تک کیسے پہنچی، ہوا یوں کہ کھلاڑی بیٹنگ کر رہا تھا اور ہمارے ہر دلعزیز وزیراعظم اور اس دور کے عظیم ترین باؤلر عمران خان باؤلنگ کرا رہے تھے، عمران خان نے گیند پھینکی تو بیٹسمین کی نظریں عمران کے ہاتھوں پر تھیں، انہوں نے بغور جائزہ لیا اور دونوں پیڈ وکٹوں کے سامنے لائے اور بیٹ اپنے ہاتھوں سے اوپر اٹھا دیا کہ بال باہر جا رہی ہے مگر شاہکار باؤلر نے ایسی ان سوئمنگ کرائی کہ گیند سوئنگ ہوتے ہوئے وکٹوں کے بالکل اوپر لگی اور بیلز اڑا دیں، بیچارہ بیٹسمین آج تک اس طرح حیران اور پریشان ہے جس طرح پاکستانی عوام دو سال سے حیران و پریشان کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا ہے۔

کورونا کی وبا دنیا بھر میں پھیلی تو پٹرول کی طلب کم ہو گئی حتی کہ امریکہ کی تیل مارکیٹ تک کریش ہو گئی، آج تک پٹرولیم مصنوعات کی عالمی مارکیٹ اپنے پیروں پر کھڑی نہیں ہو سکی کیونکہ وبا کے حملے دنیا بھر میں جاری ہیں، بین الاقوامی منڈی میں تیل سستا ہوا تو ہمارے سلیکٹڈ وزیراعظم نے عوام کے دکھ کو سمجھتے ہوئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اتنی کمی کی کہ میرے جیسا جمہوریت کا ڈسا ہوا اسے بھیانک خواب سمجھ کر نیند سے ڈر کر جاگ جاتا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔

ہمارے پیارے اور ہر دلعزیز وزیراعظم نے پٹرول اتنا سستا اور بے قدرا کر دیا کہ 75 روپے لٹر قیمت رکھ دی، انہوں نے عوام کے لئے یہ بھی خیال نہ کیا کہ آخر پٹرول کی بھی کوئی عزت ہے، پٹرول کی عزت کو بچانے کے لئے پٹرول کے مائی باپ مافیا نے اسے غائب کر دیا، عوام یکم جون سے 26 جون تک پٹرول کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے، گھنٹوں قطاروں میں کھڑے ہو کر پٹرول لیتے پھر ان کو احساس ہوا کہ نہیں بھائی پٹرول کی بھی کوئی عزت ہے، اس دوران پٹرول کے مائی باپ اس ظلم پر وزیراعظم سے التجائیں کرتے رہے کہ جناب پٹرول کی عزت کا خیال کریں، پھر عمران خان نے مقررہ تاریخ سے 4 دن قبل ہی پٹرول کی عزت بحال کرنے کے لئے 25 روپے 58 پیسے فوری طور پر مہنگا کر دیا۔

یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ پٹرول کی عزت بحال کرنے کے لئے قیمت میں اضافہ بہت ضروری تھا ورنہ پٹرول کو لوگ اہمیت ہی نہ دیتے اور اس سے سڑکیں دھونا شروع ہو جاتے مگر کوئی یہ بتائے گا اگر پٹرول کی عزت کا اتنا خیال تھا کہ پٹرول شارٹ کرنے والی کمپنیوں کے لائسنس معطل اور کروڑوں روپے جرمانہ کرنے کی کیا ضرورت تھی؟

بہت سال ہوئے کسی بزرگ نے سمجھانے کے لئے ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک صاحب اپنے طوطے کے ساتھ ہوائی جہاز پر سفر کر رہے تھے، طوطا، صاحب جی کے کندھے پر بیٹھا تھا، طوطا بہت شرارتی تھا جب بھی ائر ہوسٹس قریب سے گزرتی تو طوطا اس کی پشت پر ٹھونگ مار دیتا، ائر ہوسٹس مڑ کر اس کو دیکھتی اور مسکرا کر شرارتی کہہ کر گزر جاتی، صاحب جی نے دیکھا کہ ائر ہوسٹس کو غصہ ہی نہیں کر رہی بلکہ مسکراتی ہے، صاحب جی کو بھی جوش آیا اور انہیں شرارت کی سوجھی، جیسے ہی ائر ہوسٹس قریب سے گزری صاحب جی نے اس کی پشت پر ہلکی سی چپت لگادی، بس پھر کیا تھا ائر ہوسٹس نے شور مچا دیا، تمام مسافر کھڑے ہو گئے، جب مسافروں کے سامنے معاملہ پیش ہوا تھا صاحب جی نے کہا کہ طوطا ایسا کرتا تھا تو ائر ہوسٹس غصہ نہیں کر رہی تھی میں نے سوچا کہ اوپن مائنڈڈ ہے تو میں نے شرارت کردی

دونوں طرف کا موقف سننے کے بعد مسافروں نے فیصلہ کیا کہ دونوں کو جہاز سے باہر پھینک دیا جائے چنانچہ دونوں کو اڑتے جہاز سے باہر پھینک دیا گیا، صاحب جی عمودی پرواز کرتے ہوئے تیزی سے نیچے آرہے تھے کہ طوطا اڑتے ہوئے صاحب جی کے قریب آیا اور پوچھا صاحب جی اڑنا آندا جے (صاحب جی اڑنا آتا ہے)؟، صاحب جی نے جواب دیا نہیں، تو طوطے نے کہا پھر پنگا کیوں لیا سی (تھا)۔
خان صاحب اگر اڑنا نہیں آتا تھا تو کیوں پنگا لیا تھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments