پنجاب میں پٹواری کی باعزت واپسی


سابقہ دور حکومت میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے زرعی اراضی کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے گراں قدر کام کیا اس دوران موجودہ وزیراعظم عمران خان کی طرف سے ایک نئی اصطلاح پٹواری کلچر اور اس کا خاتمہ متعارف کروائی جو کے زبان زد عام ہوئی حتی کہ آج بھی ن لیگ اس کے کارکنان اور اتحادیوں کو پی ٹی آئی جماعت اور کارکنان کی طرف سے طنزاً پٹواری کہا جاتا ہے۔ عجیب کام یہ ہوا کہ بجائے اس نظام کی خرابیوں کو دور کر کے یہ ثابت کرنا کہ ہم اس قابل ہیں کہ نظام کی خرابیاں دور کر سکیں اور کرپٹ نظام کو دوبارہ ایک شفاف نظام میں بدل سکیں شہباز شریف حکومت نے اس نظام کو ہی لپیٹ دینے کی ٹھانی اور پٹواری کا وجود اور نام ہی ختم کرنے کا سوچ لیا یہ دراصل اس نعرے سے راہ فرار تھی۔

کمپیوٹرائزڈ نظام عجلت و جلد بازی میں لانچ کیا گیا اور پھر لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کے نام سے ایک الگ محکمہ بنا دیا گیا جو دم آغاز سے آج تک عوام کے لیے ایک عذاب ہے اور عوام بلا تفریق مرد و زن عورت مرد جوان ہو یا بوڑھا سبھی اس نظام کے ہاتھوں رسوا اور عاجز آ گئے ہیں۔ اراضی سنٹر پوری تحصیل میں ایک بنایا گیا جس میں صرف سات یا آٹھ کاؤنٹر بنائے گے آغاز میں خواتین اور بزرگ شہریوں کے لیے کوئی الگ کاؤنٹر نہیں رکھا گیا پوری تحصیل کے لیے صرف سات کاؤنٹر اور ان پہ موجود آپریٹر یا پٹواری جو پٹوار کی الف ب تک نہیں جانتے تھے اور اس پہ مستزاد یہ کہ اتنی جلد بازی میں بھرتی ہوئے کہ کمپیوٹر چلانے میں بھی مہارت نہیں رکھتے تھے وہ سائلین کو پٹواری کے پاس بھیج دیتے کہ جاؤ کھاتہ نمبر لکھوا کے لاؤ اور یوں سائل کبھی اراضی سنٹر تو کبھی پٹواری طرف کے دھکے کھاتا۔

تحصیل کی آخری باؤنڈری پہ موجود لوگ اور زیادہ ذلیل و خوار ہو گئے وہ صرف ایک فرد کے حصول کے لیے صبح کی اذان سے پہلے گھر سے نکلتے اور منہ اندھیرے اراضی سنٹر کے گیٹ پہ کھڑے ہوتے بلا تفریق مرد و زن اور پھر پٹواری رجسٹر سے کمپیوٹر پہ اندراج کے دوران اس قدر غلطیاں کی گئیں کہ جو الگ سے عوام کے لیے وبال بن گئی جو اس بات کا واضح ثبوت تھیں کہ اراضی سنٹر کا عملہ محکمہ ریونیو اور علم پٹوار کی الف ب سے بھی عاری ہے۔

مختصراً یہ سسٹم بری طرح فلاپ ہوا اور اس کی بنیادی وجہ ناقص منصوبہ بندی تھی اس کو لانچ کرنے میں جلد بازی کی گئی اور سنٹر اور عملہ ضرورت سے بے حد کم رکھا گیا نتیجہ یہ کہ آج اسی پی ٹی آئی کی حکومت ہے جو کل تک اپوزیشن میں تھی تو پٹواری کو ایک ناسور اور کرپٹ سسٹم سے تشبیہ دیتے آئے تھے ان کے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار اسی پٹواری کی دوبارہ بحالی کا فیصلہ کرچکے ہیں اور عوام دعا گو ہیں کہ جلد اس فیصلے پہ عمل ہو اور ان کی اس اراضی ریکارڈ کی ذلالت سے جان چھوٹے اور دوبارہ اختیارات پٹواری کو منتقل ہوں بادی النظر میں یوں لگتا ہے کہ یہ تمام بکھیڑا اور کھٹ راگ چھڑا ہی پٹواری کو بچانے کے لیے گیا تھا اور اب عوام کبھی بھی پٹواری کو غلط کہنے کی اور جدید سسٹم کی تمنا نہیں کریں گے اب اراضی سنٹر محض ریکارڈ روم بن کے رہ جائیں گے۔ پٹواری کی پنجاب میں با عزت واپسی ہو چکی ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس سب کے ہونے کے بعد بھی کیا پی ٹی آئی پٹواری یا پٹواری کلچر کی اصطلاح استعمال کر پائے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments