کرونا وائرس کے بعد دنیا کا مستقبل کیا؟


کرونا وائرس دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے اب تک 188 ممالک اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ 4 لاکھ 70 ہزار ہلاکتیں اور 90 لاکھ افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ برازیل، میکسیکو، انڈیا اور پاکستان میں یہ وبا مزید پھیلتی جا رہی ہے۔

ماہرین تجزیہ کار اور مالیاتی ادارے اس وبا اور اس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ لیکن سنجیدہ حلقے اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ کرونا وائرس نہ بھی ہوتا تب بھی عالمی معیشت کو کنواں میں گرنے کے لئے محض ایک بہانہ چاہئے تھا۔ ’’عالمی مارکسی معیشت‘‘ رجحان نے اپنی ستمبر 2019ء کی عالمی تناظر کی دستاویز میں خبردار کیا تھا کہ امریکی چین تجارتی جنگ، مشرقی وسطیٰ میں نیا تصادم، کوئی وباء، کوئی دیوالیہ اور یہاں تک کہ امریکی صدر ٹرمپ کا ایک بیوقوفانہ ٹویٹ بھی نئی عالمی معاشی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکہ اور چین جیسی معیشتوں کے GDP کی پہلی سہ ماہی میں بالتریب 40فیصد اور 30فیصد گراوٹ اور تیل کی عالمی قیمت مستقل طورپر 10ڈالر یا اس سے کم رہنے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں سعودی عرب جس کی معیشت عمرانی معاہدہ خارجہ پالیسی اور حکمران طبقے کی عیش و عشرت کی بنیاد کا مستقبل ہے۔ وہاں شہزادوں، حکمرانوں کی بے جا شاہ خرچیوں کے باعث حالات ابتر ہیں۔

عالمی منڈی میں پر نیٹ خام تیل کی قیمت بھی 16ڈالر فی بیرل تک گرنے کے بعد اب 34ڈالر فی بیرل پر کھڑی ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ان قیمتوں کی موجودگی میں امریکی شیل انڈسٹری کی 80فیصد کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ جبکہ منافع بخش نہ ہونے کی صورت میں یہ پوری صنعت ہی بند ہو جائے گی۔ اس کی وجہ لاک ڈاؤن اور عالمی معاشی بحران کے باعث عالمی منڈی کی مانگ تاریخی گراوٹ(30فیصد یا 30بلین بیرل یومیہ) روس اور سعودی عرب چند ہفتوں کی محدود پیمانے پر تیل کی منڈی میں مارکیٹ شیئر کے لئے تجارتی جنگ ہے۔ دیکھا جائے تو یہ بحران صرف ایک صنعت تک محدود نہیں ہے۔ قیمتی دھاتوں ( سونا چاندی) کی قیمتوں میں حیران کن گراوٹ سے لے کر دنیا بھر میں اسٹاک مارکیٹوں میں انتشار (مجموعی طور پر 30فیصد گراوٹ) تیزی سے دیوالیہ ہوتی کمپنیاں، بینک، ائیر لائن صنعت اور ہوٹل اور کئی اہم سوشل ادارے 1929ء کے ’’عالمی کریش ‘‘ سے کئی گناہ بڑے سرمایہ دارانہ بحران کی نوید سنا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر کئی ٹریلین ڈالر منڈیوں سے صفا چٹ ہو چکے ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں نے کئی ملکوں کو مالیاتی امداد دینے کا اعلان کیا ہے؟ لیکن یہ کارگر ثابت نہیں ہو گا۔ دنیا کے کئی حکمران بالخصوص مسلمان ممالک کے لئے یہ ایک کہاوت صادق آتی ہے۔ ’’ مشہور یونانی کہاوت ہے کہ جس کے مطابق جب دیوتا کسی کو برباد کرنا چاہتے ہیں تو اسے پاگل کر دیتے ہیں۔ ‘‘

راقم الحروف نے اپنے پچھلے کالم میں یہ بات بآور کروائی تھی کہ کرونا وائرس پوری دنیا کی ترقی معیشت طشت ازبام کر دی ہے۔ کیا یورپ کیا ایشیا اور مشرق وسطیٰ تمام بڑی طاقتیں اس کے آگے بے بس دکھائی دیتی ہیں۔ یہ بات صاف نظر آ رہی ہے کہ کوئی ملک آسمانی و زمینی آفات سے مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس وبا نے جہاں ترقی یافتہ ممالک کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا ہے وہیں ترقی پذیر ممالک بھی اسی کی زد میں ہیں۔ دنیا بھر میں سرکاری و غیر سرکاری ادارے بند ہونے کی وجہ سے ملازمتی مواقع بند ہو گئے ہیں۔ اور لاکھوں افراد بے روز گار ہو چکے ہیں۔ دنیائے زندگی کے اہم اداروں نے اپنے ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔ اور اپنے بجٹ میں کٹوتی کر دی ہے۔ حکومتوں نے اپنی عوام کو جو سہولتیں دی تھیں وہ واپس لینا شروع کر دی ہیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے آئندہ آنے والے دنوں میں کھانے پینے اور روزمرہ ضروریاتِ اشیاء کی کمی واقع ہو رہی ہےجس کے باعث مہنگائی بڑھ رہی ہے۔

ماہرین معاشیات، ذرائع ابلاغ، تجزیاتی رپورٹ کے مطابق لا ک ڈاؤن کے طویل ہونے کی وجہ اور اس کے بعد کی صورتحال کی وجہ سے دنیا میں بدترین معاشی بحران پیدا ہو جائے گا۔ عالمی خوراک کے ادارے نے کہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کرونا وائرس نے مزید تکلیف دہ اثرات ظاہر ہونے کے خدشات موجود ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا کو آنے والے دنوں میں انسانی ہمدردی کے شدید بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اور تین درجن ملکوں میں قحط پڑ سکتا ہے اور یہ کہ دیوالیہ بھی ہو سکتے ہیں۔ قیاس یہ کیا جا رہا ہے کہ دنیا کے اہم ممالک کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کے لئے کئی سال درکار ہوں گے اور چھوٹے ممالک کا تو برا حال ہو گا۔ عالمی مالیاتی ادارے اب قرضہ دینے کے لحاظ سے بہت محتاط رہیں گے۔

کرونا وائرس کا علاج اب تک دریافت نہیں ہوا چند دوا ساز کمپنیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ کسی حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔ پس تسلی کی حد تک ہے حالانکہ ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ وائرس وبا کا مکمل خاتمہ کا امکان نہیں جبکہ اس کے اثرات باقی رہیں گے۔ اس ضمن میں دنیا کے مختلف تجزیہ کار، سائنسدان اور ماہرین کی رائے اور تنبیہہ ہے کہ یہ خطرناک وائرس جنیاتی تبدیلیوں کے عام ہونے کا بہت رجحان ہے اور ایک نئے کرونا وائرس کے پیدا ہونے کا امکان ہے۔ ایک ماہر کا خیال ہے کہ ہر تین سال بعد نئی بیماری وائرس آ جائے گا اور دوسرے کا خیال ہے کہ کرونا وائرس پر قابو پایا تو جا سکتا ہے لیکن وبائی امراض کے خلاف انسانیت کی جنگ نہ ختم ہونے والی جنگ ہے۔ انسانیت اور جرثیموں کے مابین ارتقا کی دوڑ میں کیڑے دوبارہ آگے آ رہے ہیں۔

کرونا وائرس آج انسانی سلامتی کو متاثر کرنے والی صحت کا ایک عالمی مسئلہ ہے اور یہ عالمی سیاست، سلامتی اور اقتصادی مرکزی معاملات میں اس کی اہم حیثیت ہے۔ عالمی معیشت اس وقت جمود، کساد بازاری سے دوچار ہو چکی اگر حالات اسی ڈگر پر رہے تو ممکن ہے آئندہ چند برسوں تک عالمی معیشت میں بہتری کا امکان نہیں۔ علاوہ ازیں اس وباءکا عالمی نظام سے تعلق رکھنے والا ایک دوسرا پہلو عالمی سلامتی سے براہ راست تعلق ہے۔ جبکہ ترکی حکومت کا کہنا ہے کہ ’’یہ مسئلہ عالمی سطح کا ہے لیکن جدوجہد قومی سطح پر محیط ہے‘‘ یہ طریقہ کار دوسرے ممالک کو بھی عمل کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ ہر ملک اپنے شہریوں کو بچانے کے لئے اپنی اپنی سرحدوں کی حفاظتی تدابیر اٹھانے پر مجبور ہیں۔ فضائی رابطے تو تقریباً بند ہو چکے ہیں۔ برطانیہ اور یورپی ممالک ایک مختلف طرز کی حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ فرانس نے اپنے بلدیاتی انتخابات مؤخر کر دئیے ہیں۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات بھی ؟ اسپین نے نجی ہسپتالوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا ہے۔ امریکہ میں وائر س کے پھیلاؤ کے بعد انفرادی طور پر اسلحہ کی خرید میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر حالات اسی طرح رہے تو افرا تفری کا ماحول اولین طور پر قومی سلامتی کے مسائل کے ظہور پذیر ہونے کے بعد ملکوں کے اندر اور بین الالملکتی دیگر مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔ اس عالمی وبا نے صحت کے علاوہ عالمی اقتصادی و سلامتی دو بنیادی اہم ستون عالمی سسٹم کے مستقبل کا کون سا رخ اختیار کریں گے یہ آئندہ آنے والے حالات بتائیں گے۔ علاوہ اس کا اثر انفرادی نفسیات پر بھی ہو گا ۔ افراتفری کشمکش کے شکار ہونے والے انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ سماجی نفسیات اور برتاؤپر اثر انداز ہو گا جو کہ سیاسی افراتفری کا موجب بننے والے نتائج کو جنم دے گا۔ اس کی مثال پاکستان کے موجودہ سیاسی اور سماجی حالات سے لگایا جا سکتا ہے۔ معیاری عمل درآمد اور مثبت لائحہ عمل پر عمل پیرا ہونے والی حکومتیں اس وبا سے کم سے کم سطح پر متاثر ہوں گی۔ جبکہ کمزور ممالک اور حکومتیں اس سے بری طرح متاثر ہوں گی اور ممکن ہے انتہائی سنگین حالات سے دو چار ہوں ۔

اقوام متحدہ برائے تجارت کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کرونا وائرس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے ڈھائی کھرب ڈالر کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کا باعث عالمی کساد بازاری بہت سے ترقی پذیر ممالک کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ اور یہ دنیا کی آبادی کا دو تہائی ہے جو کرونا کی وبا کے باعث ایسے معاشی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو کرونا وائرس کی وبا سے پیدا شدہ صورتحال میں 5ارب ڈالر تک کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ان تمام مسائل کے حل کے لئے قرآن کریم نے ہمیں ایک بہترین حل د یا ہے۔

ترجمہ ! یقیناً اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے تبدیل نہ کریں جو ان کے نفوس میں ہے۔ اور جب اللہ کسی قوم کے بدانجام کا فیصلہ کر لے تو کسی صورت اس کا ٹالنا ممکن نہیں۔ اور اس کے سوا ان کے لئے کوئی کار ساز نہیں۔ ( سورہ الرعد آیت12) اس قرآنی تعلیم کی روشنی میں دنیا کی سار ی قوموں کو مل کر اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہئے اور ایک خدا ( واحد لا شریک) کی طرف لوٹنا ہو گا اور اپنی طرز ِزندگی خدا تعالیٰ کی تعلیمات رسول کریم ؐ کے بتائے ہوئے اصولوں، نیک بزرگوں اور وقت کے امام کی آواز پر لبیک کہنا ہو گا۔ اسی میں ہم سب انسانوں اور قوموں کی بھلائی اور عافیت ہے۔

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطہ زمیں پر

وہی خطہ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments