اگر عمران کی جگہ اکبرِ اعظم بھی ہوتے تو؟


’یہ تاثر غلط ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے حکومتی پالیسی میں کوئی کنفیوژن ہے۔ کنفیوژن صرف حزبِ اختلاف کی صفوں میں ہے جس نے اس ملک کو لوٹ کھایا اور آئندہ کے لیے بھی دانت لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔۔مگر خوش قسمتی سے اس بار ملک کا صدر ایک ڈینٹل ڈاکٹر ہے ۔۔۔۔۔ جہاں تک مودی کا سوال ہے تو وہ ایک نفسیاتی مریض اور ہٹلر کا پیروکار ہے ۔۔۔ مگر امریکہ نے بھی ہم سے نائن الیون کے بعد خوب خوب کام لیا البتہ دو مئی کو ایبٹ آباد میں جس طرح اسامہ بن لادن کو ہلاک عرف شہید کیا گیا اس دن مجھے زلت کا جتنا احساس ہوا کبھی نہیں ہوا۔۔۔احساس سے یاد آیا کہ ہمارے احساس پروگرام کی دنیا بھر میں تعریف ہو رہی ہے ۔۔۔۔ جبکہ بھارت کشمیریوں پر جو مظالم کر رہاہے دنیا کو اس کا کوئی احساس نہیں۔۔۔مگر مجھے اپنے عوام پر پورا بھروسہ ہے۔۔۔۔یہ دن بھی گزر ہی جائیں گے۔۔۔۔میں کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا۔۔۔۔بس گھبرانا نہیں ہے۔‘

(مندرجہ بالا کوئی ایک پیرا نہیں بلکہ کئی بھاشنوں کا کچومر ہے۔ مگر تھوڑے سے الٹ پھیر کے ساتھ ہر خطاب کی بنیادی ریسپی یہی ہے۔ سارے گا ما پا دھا نی سا، سا نی دھا پا ما گا رے سا، نی دھا سا گا ما رے پا رے پا دھا دھا)۔

بے پناہ اعصابی دباؤ کے سبب یہ کیفیت حکمران سے فقیر تک، مجذوب سے نیند میں بولنے کے عادی تک یا چہار جانب آسیب دیکھنے والے کسی بھی شخص پر طاری ہو سکتی ہے۔

اس کیفیت کا مداوا مذاق اڑانے یا پھبتیاں کسنے سے نہیں بلکہ اعصاب کو سکون دینے والے طریقے تجویز کرنے میں ہے۔

میں نے اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے تیز رفتار موٹر کیڈ میں سب سے آخر میں ایمبولینس تو دوڑتی دیکھی ہے۔مگر میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ سپیچ رائٹر، زائچہ نویس، باورچی، ایلوپیتھک ڈاکٹر کے علاوہ کوئی فزیو تھراپسٹ اور ماہرِ نفیسات بھی ان اعلیٰ عہدیداروں کے ذاتی عملے میں شامل ہوتا ہے یا نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ برصغیر میں اکبرِ اعظم اور اورنگزیب عالمگیر نے پچاس پچاس برس سے زائد حکومت کی اور پوری ریاستی مشینری کو ایک پاؤں پر سیدھے کھڑا رکھا۔

مجھے لگتا ہے کہ اتنی طویل حکمرانی کے پیچھے تدبر کی طاقت سے زیادہ خوش قسمتی کارفرما تھی۔ کیا آپ میں سے کسی کو یاد ہے کہ اکبرِ اعظم یا اورنگزیب کے دور میں کتنے سپاہ سالار یا قاضی القضات گذرے اور ان کے نام کیا تھے؟

کیا ان دونوں کے دربار میں سمندر پار سے آئے کسی بادشاہ گر گورے کا وجود ثابت ہوتا ہے؟ البتہ بادشاہ کے نورتنوں یا وزرا با تدبیر کا تذکرہ اور نام ضرور عمومی تاریخ میں ملتے ہیں۔ مگر ان نورتنوں یا وزرا کا تقرر بھی بادشاہ کرتا تھا، کوئی دوسرا بادشاہ کے نام پر تقرر نہیں کرتا تھا۔

رعایا میں سے کسی نے ازخود نوٹس کا نام تک نہیں سنا تھا۔ بس ایک زنجیرِ عدل محل کے باہر ٹنگی رہتی تھی جس سے جھولتا ہوا گھنٹہ کوئی بھی بجا سکتا تھا۔

آج وہی زنجیر اور گھنٹہ اگر محل کے باہر لٹکا دیا جائے تو چند گھنٹوں بعد ہی پنڈی کے کباڑ بازار میں سو پچاس روپے کا بک چکا ہو گا۔

اس تناظر میں جو لوگ وزیرِ اعظم عمران خان پر اٹھتے بیٹھتے تنقید کرتے ہیں اور ان کے ہر ہر لفظ کو پکڑ کے جھول جاتے ہیں انھیں اندازہ ہی نہیں کہ حکمران کی کرسی میں کتنی کیلیں ہوتی ہیں۔

خان نے تو پھر بھی اب تک جیسے کیسے دو برس گزار لیے۔ اگر پچاس برس حکومت کرنے والے اکبرِ اعظم کے نورتنوں میں ملا دو پیازہ کی جگہ شہباز گل، بیربل کی جگہ مراد سعید، عبدالرحیم خانِ خاناں کے بجائے فیصل واوڈا، جنرل مان سنگھ کے بجائے بریگڈیئر اعجاز شاہ وغیرہ ہوتے۔

اورنگزیب کی مشیر اس کی صاحبزادی زیب النسا مخفی کے بجائے کوئی زرتاج گل ہوتی اور باقی دربار بھی اسی کینڈے کا ہوتا تو دونوں عظیم مغل بادشاہ اعصاب کو بے قابو ہونے سے روکتے ہوئے کتنے دن تخت کو تختہ ہونے سے بچا پاتے۔

لیکن عمران خان اگر اکبر یا اورنگزیب کی پوشاک میں ہوتے تب مغل سلطنت کا کیا ہوتا؟ کچھ بھی نہ ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ لوگ باگ یہی کہتے ’جو اللہ کی مرضی۔ اوپر والے کے کاموں میں کون دخل دے سکتا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).