کورونا : مجھ پر کیا بیتی


درجہ حرارت میں یکایک اضافے نے حسب روایت اثر دکھایا۔ عید کا دن خیریت سے گزرا۔ اگلے دن بدن میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہو گئی، گھروالے اوکاڑہ جا رہے تھے، میں نے روکنا مناسب نہ سمجھا۔ چند گھنٹوں کے بعد غنودگی ہونے لگی۔ فریج میں بوتل بند مشروبات، دہی اور کچھ جوسز پڑے تھے۔ گرم ہوتے مساموں نے ٹھنڈے کا تقاضا کیا تو ایک ایک کر کے پینا شروع کر دیے۔ اگلے دن دفتر آ گیا۔ دفتر کا کام نمٹایا ہی تھا کہ بخار کی شدت محسوس ہونے لگی۔

دو روز اس بخار اور مسلسل غنودگی کے نام ہو گئے۔ معلوم نہیں کس نے عید کی مبارکباد دی، کس نے فون کیا، کس نے ایس ایم ایس کیا۔ ہر روز دو تین سو خبروں میں سے اہم ترین معاملے کو الگ کر کے اس پر لکھنا فرائض میں شامل ہے۔ وہ کام بھی میرے رفقاء کے کندھوں پر آ پڑا۔ دو روز بعد کچھ افاقہ ہوا تو دفتر آ گیا۔ سہ پہر کو دفتر میں بیٹھے بیٹھے لگا کہ سانس بند ہورہا ہے۔ فوراً اٹھا، ساتھیوں نے پانی پلایا، گھر فون کیا، بھائی گاڑی لے کر آ گیا۔

سیدھا ایک لیبارٹری پہنچے اور کوویڈ 19 کا ٹیسٹ دیا۔ آفس کے ڈاکٹر نے پیراسٹامول لکھ دی تھی، وہی کھائی۔ گھر آتے ہی مناہل کو بھائی کے گھر بھیج دیا۔ وہ میرے سامنے تھی جب کمرے کا دروازہ بند ہورہا تھا۔ وہ باہر کھڑی مجھے فون پر میسج کر رہی تھی۔ Baba Look۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ پھر وہ میری آنکھوں میں بھرے پانی میں کہیں اتر گئی۔ پتہ چلا وہ چلی گئی۔ راستہ بھر وہ مجھے میسج کرتی رہی۔ Baba you are strong، We will live together، Baba I love you۔

میں ایک طرف بخار اور دوسری طرف مناہل کے پیغامات سے جل رہا تھا۔ رات جیسے تیسے گزری اگلے روز سہ پہر کے وقت ایک پرائیویٹ ہسپتال چلا گیا۔ ہسپتال دفتر کے پینل پر تھا۔ عملے نے بتایا کہ جب تک جناح ہسپتال والے داخلے کی سفارش نہ کریں وہ داخل نہیں کر سکتے۔ امتیاز تارڑ کے جاننے والے ڈاکٹر احمد سلیم تھے۔ احمد سلیم ہسپتال سے نکل چکے تھے۔ انہوں نے اپنے جونیئر ڈاکٹر ذیشان کو ایمرجنسی میں بھیجا۔ ذیشان بہت مہربان لگا۔

لیڈی ڈاکٹر اور نرسز بھاگ بھاگ کر سرکاری ہسپتال کی بھری ایمرجنسی میں بیماروں کے کوائف لے رہی تھیں۔ سینے کا ایکسرے کرایا گیا، کچھ خون کے ٹیسٹ ہوئے۔ ٹیسٹ کروا کر بیڈ پر آئے تو دیکھا وہاں مجھ سے بھی زیادہ بیمار مریض پڑا تھا۔ ایمرجنسی کی چھت کئی جگہ سے اے سی کے پانی سے ٹپک رہی تھی۔ دو تین گدوں کے کور پھٹ چکے تھے۔ مجھے اچھا نہ لگا کہ اپنے بیڈ پر لیٹے لاچار کو اٹھا کر وہاں لیٹ جاؤں۔ ڈاکٹر ذیشان کے پاس کرسی پر جا بیٹھا۔

گھر آ کر بالائی منزل پر منتقل ہو گیا۔ سرجیکل ماسک، دستانے اور سینی ٹائزر کے ڈبے آ گئے۔ رات کو ڈاکٹر احمد سلیم نے نوواٹیک، وٹامن سی اور وٹامن ڈی کے ساتھ پیناڈول لینے کو کہا۔ تین دن تک درجہ حرارت 101 اور 102 رہا۔ چوتھی رات ڈاکٹر احمد سلیم نے فون پر پیناڈول ایکسٹرا کی دو گولیاں لینے کو کہا۔ ساری رات بدن سے پسینہ بہا۔ رات گئے بنیان اتار کر بیٹھ گیا۔ بخار اتر چکا تھا۔ اگلا دن بہت اچھا گزرا لیکن شام ہوتے ہی سانس کی تکلیف شروع ہو گئی۔

بہن عارفہ نعیم لندن میں بے چین تھیں، کراچی بیٹھے کرنل عامر نے عقیل سے آکسیجن سلنڈر لانے کا کہا لیکن ڈاکٹر احمد سلیم نے نبولائزر مشین کو کافی قرار دیا۔ ڈھائی تین ہزار کی یہ چھوٹی سی مشین بہت کارآمد ہے۔ اگلے تین دن میں سانس کئی بار رکا۔ یوں محسوس ہوا کسی نے منہ اور ناک پر تکیہ رکھ دیا ہو۔ میں کھانستا۔ میرا سر اور ٹانگیں تکلیف کی شدت سے ایک ساتھ ہوا میں اٹھ جاتیں۔ کمرے کے باہر بیگم بے بسی سے روتی۔ ایک جمیل تھا جسے وائرس کا ڈر رہا نہ اپنا ہوش۔

وہ تین راتیں اس نے یوں گزاریں کہ میں زندگی کی طرف لوٹ آیا۔ جب تک رپورٹ ملتی تب تک بخار اتر چکا تھا۔ بیماری کا غالباً دسواں روز تھا جب بیگم نے مجھے ذہنی طور پر تیار کرنے کے لیے کہا کہ آپ کی رپورٹ آ گئی ہے۔ میں نے پوچھا پازیٹو ہے نا۔ اس نے سر ہلایا۔ شاید آنسو آنکھ سے گرنے کی بجائے حلق میں آ گئے تھے۔ جب کبھی ایسا ہو تو انسان بول نہیں پاتا۔ بڑے بھائی مجھے یاد کرا رہے تھے کہ تم ایک سپورٹس مین ہو، فائٹر ہو، میں اپنے اندر پھیلتی نقاہت کا وزن کر رہا تھا کہ یہ مجھے کہاں اور کتنے دن میں گرا سکتی ہے، مجھے اس سے جیتنے کے لیے تندرست ہونا ہے۔

میں نے کچھ معمولات کو اپنا یا۔ دونوں ٹیلی فون گھر والوں کے حوالے کر دیے۔ نہ کال سنی نہ کسی کو کال کی۔ فیس بک پر طبیعت خرابی کی پوسٹ ڈالی جس کا نقصان ہوا۔ دوستوں نے فون کرنا شروع کر دیے۔ کئی لوگ لمبی گفتگو کے عادی تھے۔ مجبوراً دو دن کے بعد ایک پوسٹ کی کہ فون نہ کیا جائے۔ طبیعت بہتر ہو رہی ہے۔ اس دوران اخبارات پڑھنے سے گریز کیا۔ جب بھی واش روم گیا، گھٹنوں تک ٹانگوں پر پانی بہایا۔ آئسو لیشن والا کمرہ بالائی منزل پر تھا۔

بڑھتے درجہ حرارت نے جسے تنور بنا دیا۔ کمرے میں گرمی کے باوجود اے سی نہیں چلایا۔ آم کا جوس، ملک شیک، یخنی اور سادہ پانی کا استعمال کیا۔ کھانے کو دل نہیں کرتا تھا۔ آٹھ دن کے بعد میں نے ٹماٹر کی بڑی قاشوں کو تھوڑا تھوڑا کوٹ کر ان کی چٹنی کے ساتھ آدھی روٹی کھائی۔ اگلے دن مولی کی چٹنی نے زبان کا ذائقہ بحال کرنے میں مدد دی۔ گوشت کھانے کی معدے میں ہمت تھی نہ دل کر رہا تھا۔ میں نے بکرے کا پھیپھڑا پکانے کو کہا۔ خلاف توقع یہ نرم گوشت منہ اور معدے نے قبول کیا۔ کورونا کا معاملہ عجیب ہے۔ ہر متاثرہ شخص کا حال دوسرے سے الگ۔ ایک دوست بتا رہے تھے کہ انہیں اور ان کے نوجوان فرزند کو وبا نے آ لیا۔ دونوں نے سات آٹھ روز تک بھاپ لی۔ جوسز کا استعمال کیا اور بھلے چنگے ہو گئے۔ (جاری ہے )
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments