باسو چٹر جی سے ملیے۔ مِینو کے قلم سے


\"basu-chattrejee\"

اسکرین پلے رایٹر اور ہدایت کار باسو چٹر جی ہندی فلم کے متوازی سینما کے نمایاں ناموں میں سے ایک ہیں۔ انھیں کیمرا مین نہیں بننا تھا، لیکن انھیں کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے کا شوق تھا۔ ’سارا آکاش‘ سے ہدایت کاری کے سفر کی شروعات کرنے والے باسو کی فلموں کی کہانیاں جہاں عام آدمی کی زندگی کی بہترین عکاسی کرتی تھیں، وہیں ان فلموں کی مدھر دھنیں اور شاعری بھی خاص تھی۔ ’سارا آکاش ‘ 1969ء میں ریلیز ہوئی اور پہلی فلم نے نہ صرف فلم فیئر کے بہترین اسکرین پلے کا ایوارڈ جتوایا بلکہ نیشنل فلم ایواررڈ کی بہترین سینماٹو گرافی کا ایوارڈ بھی لے اڑی۔ اس کے بعد 1972ء میں ’پیا کا گھر‘ بنائی لیکن 1974ء میں ’رجنی گندھا‘ وہ فلم تھی جس نے انھیں سب کی نظروں میں پہچان دی۔ ’رجنی گندھا‘ سے مکیش نے نیشنل فلم ایوارڈ کی جانب سے بہترین گلوکار کا انعام جیتا، باسو چٹر جی کو ’Critics award‘ بہترین ہدایت کار کا انعام کے علاوہ بہترین فلم کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ باسو چٹر جی نے کل 42 فلمیں بنائیں اور ایک سے ایک کسی نہ کسی حوالے سے یادگار رہی۔
باسو چٹر جی کا جنم 10 جنوی 1930ء کو راجھستان کے شہراجمیر میں ہوا۔ ان کے والد ریل ویز میں تھے۔ باسو نے ہوش سنبھالا تو ان کے والد آگرہ کے شمال میں اُتر پردیش کے شہر متھرا میں متعین تھے۔ اُن کے بقول انھوں نے وہیں گیان حاصل کیا۔ وہ نوجوانی میں فلمیں دیکھتے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ایک فلم تین دن لگتی تھی، اور وہ ہر فلم دیکھا کرتے تھے۔ ان کے دل میں بمبئی آنے کی خواہش تھی، بیس اکیس سال کی عمر میں بمبئی آ کے، ایک ملٹری اسکول میں لائبریرین مقرر ہوئے۔ پھر اخبار بمبئی بلٹِز میں‌ کارٹونسٹ ہوئے، پندرہ سولہ سال یہی کام کرتے رہے۔ اس زمانے میں بھی وہ ہر فلم دیکھتے تھے۔ بعد میں ’فیڈریشن آف فلم سوسائٹی مومنٹ‘ کی طرف سے دکھائی جانے والی اطالوی، فرانسیسی اور دیگر بیرون ممالک کی فلموں نے انھیں احساس دلایا کہ فلم کا دائرہ بہت بڑا ہے۔ یہ محض تفریح‌ نہیں اور بھی بہت کچھ ہے۔

\"piya-ka-ghar-1651\"

وہ اس وقت بمبئی بلٹِز میں کارٹون بنایا کرتے تھے، من میں آئی کہ فلم بنائی جائے۔ مشہور شاعر شلندر ان کے دوست بنے، تو انھوں نے ان سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا، کہ وہ فلم دنیا میں قدم رکھنا چاہتے ہیں۔ فلموں کا ایک اور محترم نام باسو بھٹیا چایہ اُن دنوں فلم ’تیسری قسم‘ بنا رہے تھے۔ وحیدہ رحمان اور راج کپور نے اس فلم کے مرکزی کردار نبھائے۔ شلندر نے باسو چٹر جی کو باسو بھٹا چاریہ سے ملوایا، اور بھٹیا چاریہ نے انھیں اپنا معاون رکھ لیا۔ ’تیسری قسم‘ ایک بہت الگ قسم کی فلم ہے۔ باسو چٹر جی اس کے بعد ایک اور فلم میں گوند سریا کے معاون ہوئے۔ فلم کا نام تھا ’سرسوتی چندر‘ اس میں مشہور اداکارہ نوتن تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے فیصلہ کیا کہ انھوں نے جو سیکھنا تھا، سیکھ لیا، اب انھیں خود فلم بنانی چاہیے۔

فلم بنانے کے لیے سرمایہ چاہیے ہوتا ہے۔ انھی دنوں بھارتیا سرکار نے متوازی سینما کے لیے قرض دینے کی اسکیم متعارف کروائی۔ باسو نے قرض کی درخواست دے دی، جسے منظور کر لیا گیا۔ راجندرا یادیو ہندی ادب کے ان سرخیلوں میں سے ایک ہیں، جنھوں نے ’نئی کہانی‘ کی تحریک چلائی۔ وہ آگرہ میں پیدا ہوئے تھے، اور اپنے ہی ماحول کا نقشہ بیان کرتے ناولٹ ’سارا آکاش‘ لکھا تھا۔ باسو چٹر جی کے لیے آگرہ اور وہ سارا ماحول جانا پہچانا تھا۔ انھوں نے اپنی پہلی فلم کے لیے اسی ناولٹ ’سارا آکاش‘ کا انتخاب کیا۔ ’سارا آکاش‘ کے بارے میں وہ کہتے ہیں، کہ انھوں نے اس سے پہلے جتنی فلمیں دیکھیں وہ ان سب فلم کا نچوڑ تھا۔ فلم ’سارا آکاش‘ اس ناولٹ کے ایک خاص حصے پر مبنی تھی۔ باسو اسی فلم کو اپنی بہترین فلم قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، جو فلمیں پیسا کماتی ہیں، وہ بھی اچھی ہوتی ہیں، لیکن فلم کو پیسے کے اعتبار سے نہیں دیکھنا چاہیے کہ کتنا پیسا بنایا۔ اگر یہ دیکھنا ہے کہ پیسا کتنا کمایا تو ایسا سوچنا غلط ہے، میں ایسا نہیں مانتا۔ ’سارا آکاش‘ دو سوا دو لاکھ میں بنائی گئی فلم تھی، جس کے لیے لیا گیا قرض انھوں نے دوسری فلموں سے کما کر لوٹایا۔ اس فلم کی خاص بات یہ بھی تھی، کہ اس کی رکارڈنگ آگرہ میں راجندر یادیو کی گھر میں ہوئی۔ اس علاقے کا نام راجا کی منڈی ہے۔ قریب ہی اسی نام سے ایک ریلوے اسٹیشن ہے۔

\"shaukeen\"

باسو چٹرجی کہتے ہیں، کہ وہ عام آدمی ہیں، عام لوگوں میں رہتے تھے۔ بس میں سفر کیا کرتے تھے۔ بمبئی جسے آج ممبئی کہا جاتا ہے، وہاں ستر رُپے کے کرائے کے ایک مکان میں رہتے تھے۔ وہیں انھوں نے اپنے ارد گر عام لوگوں کی خوشیوں کے رنگ بھی دیکھے، اور غم بھی پہچانے۔ وہ کہتے ہیں، میری فلمیں ’زندگی سے باہر‘ (Larger then life) نہیں ہیں۔ ایسی فلمیں جن میں ایک ہیرو جو دس لوگوں سے لڑتا ہے، اور جیت جاتا ہے، وہ ان سے نہ بن سکیں۔ ان کا کہنا ہے جیون جیسا ہے، وہ اسے ویسا ہی دکھانا چاہتے تھے۔ جب کمرشل فلمیں پیسا بنا کر دیتی تھیں، تو اُن دل بھی کرتا تھا، کہ ایسی فلمیں بنائی جائیں، لیکن یہ سوچ کر کہ جو ہم نے دیکھا ہی نہیں، وہ کیسے بنائیں، ایسی فلمیں نہ بنا سکے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ اُن کے پاس تو پیسا تھا ہی نہیں، ان کی فلموں پر دوسروں نے سرمایہ کاری کی۔ ان کا ماننا ہے، کہ وہ جو کم بجٹ فلمیں بناتے تھے، ان فلموں کا پیسا پورا ہو ہی جاتا تھا۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں، کہ ہوشیار فلم ساز ہو تو وہ کسی بھی طرح کی فلم سے پیسا بنا سکتا ہے۔

\"basu_chatterjee_1351922929\"

وہ آج کے فلم سازوں سے مایوس نہیں۔ خوش ہیں، کہ آج بھی بہت سے لوگ اچھی اچھی فلمیں بنا رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے، کہ اب فلم کی پیش کش بہت بہ تر ہو گئی ہے نیا پن آج کی فلموں میں بھی ہے۔ وہ چھیاسی برس کے ہوگئے ہیں، لیکن ابھی فلم بنانے میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو یوں کام یاب کہتے ہیں، کہ وہ جیسی فلمیں بنانا چاہتے تھے، انھوں نے ویسی فلمیں بنائیں۔ وہ اپنے فلمی سفر سے مطمئن ہیں۔ وہ نئی نسل کو پیغام دیتے کہتے ہیں، کہ اپنے آپ پر یقین رکھیں، اور جیسی فلم بنانا چاہتے ہیں، ویسی ہی فلم بنائیں، ورنہ مت بنائیں۔ باسو چٹر جی کی بیٹی روپالی گوہا بھی ہدایت کار ہیں، جن کی پہلی فلم ’آم رس ‘ 2009ء میں ریلیز ہوئی تھی۔

باسو چٹر جی کی چند فلموں کی فہرست:
سارا آکاش1969ء
رجنی گندھا 1974ء
چِت چور 1975ء
چھوٹی سی بات 1975ء
کھٹا میٹھا 1978ء
باتوں باتوں میں 1979ء
منزل 1979ء
شوقین 1981ء
پسند اپنی اپنی 1983ء
کملا کی موت 1989ء
گدگدی 1997ء
کچھ کٹھا کچھ میٹھا 2007ء


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments