پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ


حکومت نے چند روز قبل اچانک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بیک جنبش قلم بہت زیادہ اضافہ کر دیا ہے۔ جہاں پہلے پٹرول کی قیمت تقریباً پچھتر روپے فی لیٹر تھی، اب فی لیٹر قیمت 100 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ یعنی پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں اچانک پچیس روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک ہوشربا اضافہ بہت افسوسناک ہے بلکہ بلاجواز ہے۔

پٹرول قیمتوں میں اضافہ ہمیشہ یکم تاریخ کو ہوتا ہے۔ لیکن اس حکومت نے چار دن بھی صبر نہیں کیا اور تیل کی قیمتوں میں فوری اضافہ کر دیا جو کہ سمجھ سے بالاتر اور انتہائی نہایت افسوس ناک اقدام ہے۔ افسوس سے زیادہ اس بے رحمی پر عوام کے اندر دکھ اور کرب کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔

بہت سے حلقوں کی جانب سے یہ آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں کہ حکومت نے خود مختار ادارے اوگرا کو نظر انداز کر کے پٹرول مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ اس بات کی کوئی توجیہہ حکومت کے پاس موجود بھی نہیں ہے۔ گزشتہ روز بابر ندیم نے پریس کانفرنس میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے متعلق حکومتی موقف دیتے ہوئے کہا کہ دراصل عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی بناء پر انھیں بھی بالامر مجبوری یہ اضافہ کرنا پڑا۔

اس سوال کے جواب میں کہ اتنی کیا جلدی پڑی تھی کہ یکم تاریخ کا بھی انتظار نہیں کیا گیا اور چھبیس تاریخ سے ہی اضافہ کر دیا گیا اس پر بابر ندیم نے کہا کہ اگر وہ یکم تاریخ کا انتظار کرتے تو انھیں فی لیٹر تیل پر تیس روپے سے زائد اضافہ کرنا پڑتا۔ لہٰذا انھوں نے اس وجہ سے یہ فیصلہ کیا کہ پانچ روز قبل ہی اضافہ کر دیا جائے تاکہ فی لیٹر قیمت میں کم سے کم اضافہ کیا جا سکے اور تیس کی بجائے پینتیس دن حکومت یہ اضافہ حاصل کر سکے۔

یہ بھی بڑی عجیب منطق ہے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس سے قبل تیل کی قیمتوں میں اس قدر کمی کر کے عوام کو سبز باغ کیوں دکھائے گئے۔ اب یہاں بھی حکومتی کارکردگی اور منصوبہ بندی پر سوالیہ نشان اٹھتا ہے کہ جب تیل کی قیمتوں میں کمی کی گئی تھی تو چند دن کے اندر ہی مارکیٹ میں تیل کی قلت پیدا کر دی گئی اور حکومت تیل کی سپلائی یقینی بنانے میں بری طرح ناکام رہی۔ یہ بھی حکومت کی رٹ پر ایک اور سوالیہ نشان ہے۔

اگرچہ حکومت نے اس دوران آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو تقریباً 6 کروڑ روپے جرمانہ بھی کیا لیکن تیل پھر بھی نایاب ہی رہا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کے حق میں حکومت کی جانب سے ایک توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ دیگر ایشیائی ممالک میں تیل کی قیمت پاکستان کی نسبت پھر بھی زیادہ ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق واقعی پاکستان کے دیگر ہمسایہ ممالک میں تیل کی قیمتیں زیادہ ہیں۔ لیکن کوئی بھی ملک تیل کی قیمتوں کا تعین اپنی Per Capita Income کو مد نظر رکھتے ہوئے کرتا ہے۔

پاکستان میں اگر اس فارمولے کا اطلاق کیا جائے تو بہر حال پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اب یہاں حکومت کی ناقص پلاننگ بھی نظر آتی ہے کہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت بیس سے تیس ڈالر فی بیرل مل رہا تھا تو اس وقت تیل خریدنے کی منصوبہ بندی کیوں نہیں کی گئی۔ اگر حکومت کے پاس اضافی تیل ذخیرہ کرنے کے خاطر خواہ انتظامات نہیں تھے تو اس کے لئے بروقت منصوبہ بندی کی جا سکتی تھی۔

یہ بھی حکومت کی ناقص منصوبہ بندی ہی ہے کہ آپ مستقبل کی پیش بندی کیے بغیر عوام میں واہ واہ حاصل کرنے کے لئے ایک دم سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں۔ پھر حالات آپ کے کنٹرول میں نہیں رہتے جس کے نتیجے میں آپ کو ایک دم سے قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ اس سے بڑی نا اہلی کیا ہو گی کہ حکومتی اراکین اسمبلی مراد سعید اور علی محمد خان نے اپنے بیانات میں ڈھکے چھپے الفاظ میں یہ کہا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ کرتے وقت کابینہ کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے فیصلے نے اوگرا کی حیثیت اور خود مختاری کو چیلنج کر دیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی تجویز اوگرا کی جانب سے ارسال نہیں کی گئی ہے یہ بھی اپنی جگہ ایک سوالیہ نشان ہے۔

یہاں ایک اور امر قابل ذکر ہے کہ جب جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اس کا براہ راست اثر دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کی صورت میں نظر آتا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں حالیہ اضافے سے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اب حکومت چاہے جتنی بھی توجیہات پیش کر لے لیکن حالیہ حکومتی اقدام سے عوام کے اعتماد کو بری طرح ٹھیس پہنچی ہے۔ یہاں ایک اور امر قابل ذکر ہے کہ جب حکومت ٹیکس اہداف کے حصول میں ناکام رہتی ہے تو پھر اس کے پاس پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نظر نہیں آتا۔

کورونا اور دیگر اندرونی مسائل کے باعث ملک پہلے ہی بہت سے معاشی مسائل کا شکار ہے۔ لہٰذا حالیہ ملکی معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے آسان ترین راستہ بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب جب تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تب تب دیگر ضروریات زندگی کی اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب گویا مہنگائی کا ایک اور طوفان آنے کو ہے۔ آنے والے چند روز میں چینی، آٹا، دالوں اور دیگر اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ متوقع ہے۔ غالب امکان ہے کہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں بھی مزید اضافہ کر دیا جائے جو کہ مہنگائی میں پسی ہوئی غریب قوم کے مسائل میں مزید اضافہ کا باعث ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments