ریاست اور شہریوں کے درمیان تعلق


پاکستان کی ریاست اور حکمرانی کے نظام کا بنیادی مسئلہ شہریوں کے ساتھ بداعتمادی کی فضا ہے۔ عمومی طور پر ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان باہمی تعلق ہی ریاست اور معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کنجی سمجھا جاتا ہے۔ ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلق کو ہم ان کے درمیان عمرانی ماہدہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ایک طرف ریاست و حکومت ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کے بنیادی حقوق اور مفادات کے تحفظ کے عمل کو یقینی بنائے تو دوسری طرف شہری بھی ذمہ دارہوتے ہیں کہ وہ اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے بعدریاستی امور اور قوانین کی مکمل طور پر پاسداری کریں۔ یہ ہی باہمی تعلق اگر کمزور ہو جائے یا ریاست اس سے دست بردارہو جائے تو اس کا عملی نتیجہ ہمیں ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان ایک بڑے ٹکراؤ یا بداعتمادی کے طور پر دیکھنے کو ملتا ہے جو ریاستی نظام کی کمزوری کا سبب بنتا ہے۔

ایک اچھی، مہذہب اور ذمہ دار ریاست سمیت حکومت بنیادی طور پر شہریوں کے ساتھ اپنے باہمی تعلق کی مضبوطی کو بنیاد بنا کر ایسی پالیسیاں و قانون سازی یا سازگار ماحول کو یقینی بناتی ہے جس کا مقصد شہریوں اور بالخصوص کمزور طبقات کو مضبوط اور مستحکم بنانا ہوتا ہے تاکہ شہری عملی طور پر ریاستی مفاد کے ساتھ کھڑے ہوں۔ لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا ریاستی و حکومتی نظام شہریوں کے مفادات کے مقابلے میں ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کے گرد گھومتا ہے۔

مسئلہ پالیسیاں یا قانون سازی کا نہیں کیونکہ اس میں شہریوں کے لاتعداد مفادات موجود ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان پالیسیوں اور قانون سازی پر کون عملدرآمد کرے گا۔ یعنی بلی کے گلے میں کون گھنٹی باندھے گا۔ جب بھی ہم اپنے ریاستی یا حکومتی نظام کو طبقاتی بنیادوں پر قائم کریں گے اور مختلف کمزور طبقات کے ساتھ تفریق یا تعصب کریں گے تو حکمرانی کا یہ نظام لوگوں میں اپنی ساکھ قائم نہیں کرسکے گا۔

اس وقت ہم قومی سطح پر ایک بڑے سنگین بحران سے گزررہے ہیں۔ یہ بحران عارضی بنیاد پر موجود نہیں بلکہ ایک مستقل بحران ہے جو تسلسل کے ساتھ اپنے اندر خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ ہمارا المیہ ایک برے طرز کے حکمرانی کے نظام میں جکڑا ہوا ہے جو ایک طرف لوگوں میں مایوسی اور محرومی کی سیاست کو جنم دیتا ہے تو دوسری طرف اس کا ریاست کے ساتھ تعلق کو بھی کمزور کرتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ جب ہم معاشرے میں کسی بھی سطح پر کوئی بڑا بحران دیکھتے ہیں تو اس کا مقابلہ قومی سطح پر ایک اجتماعی تحریک کی صورت میں نہیں دیکھنے کو ملتا۔ ہم مختلف سیاسی گروپ بندیوں، لسانی، علاقائی، مذہبی اور معاشی درجہ بندیوں کا شکار ہو گئے ہیں جہاں قومی یکجہتی اور مل کر حالات سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت عملی طور پر کمزور ہوجاتی ہے۔

شہریوں کی سطح پر مسائل بہت واضح ہیں۔ ان مسائل کا اظہار ہمیں 1973 کے دستور کے بنیادی حقوق کے باب میں نظر آتے ہیں جن میں تعلیم، صحت، روزگار، تحفظ، انصاف، آزادی اظہار، شہری آزادیوں، معلومات تک رسائی سمیت دیگر اہم امور ہیں۔ عمومی طور پر ریاستی نظام کی بڑی خوبی کمزور طبقات کے مفادات کے ساتھ اپنے رشتے کو مضبوط بنانے سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ جو امیر اور غریب کے درمیان ہم کو فرق نظر آتا ہے یا طاقت ور اور کمزورمیں جو بڑی تیزی سے خلیج بڑھ رہی ہے اس کو ختم کرنا ہی ریاست اور حکومتوں کی بنیادی ذمہ داری کے زمرے میں آتا ہے۔

کرونا کے حالیہ بحران کے تناظر میں خود حکومتی سطح سے یہ اعتراف کیا جا رہا ہے کہ ملک میں حالیہ معاشی بدحالی کا بڑا نتیجہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ حکومتی اندازے کے مطابق تقریباً 70 لاکھ لوگ معاشی طور پر بے روزگاری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں ریاست اور حکومت کس طرح سے شہریوں کے مفادات کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور ان کمزور لوگو ں کو معاشی استحکام دے سکتی ہے، ایک بڑا چیلنج ہے۔

ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان تعلق کی مضبوطی کا ایک بڑا نکتہ لوگوں پر سیاسی، سماجی، معاشی سرمایہ کاری سے جڑا ہوا ہے۔ ریاست اور حکومتی سطح پر شہریوں کے باہمی تعلق کا ایک بڑا اشاریہ ہمیں شہریوں پر بجٹ اور پالیسیوں میں مالی حصہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حالیہ جو وفاقی اور صوبائی سطح کے بجٹ پیش ہوئے ہیں اس کا تجزیہ کریں تو ہمیں ترقیاتی بجٹ سمیت کمزور طبقات پر مالی سرمایہ کاری بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔

بجٹ سیاست مجموعی طور پر کمزور لوگوں کے مفادات کے برعکس ہے اور ہم آئی ایم ایف یا ملک میں موجود طاقت ور طبقات کے اہم مفادات کو تحفظ دے کر عام آدمی کا سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ بجٹ میں جو کچھ حصہ عام آدمی یا ترقیاتی مد میں رکھا بھی جاتا ہے وہ آگے جاکر ایسے کاموں پر خرچ کر دیا جاتا ہے جو عام آدمی کے مفاد کے برعکس ہوتا ہے یعنی ترقیاتی بجٹ میں کٹوٹی کمزور طبقہ کا اور زیادہ بڑا استحصال کا سبب بنتی ہے۔

عام آدمی کا مسئلہ ایک سماجی، فلاحی ریاست ہے۔ اس طرز کی ریاست میں عام آدمی کا مقدمہ زیادہ مضبوط ہوتا ہے، جبکہ ہماری ترجیحات میں سماجی یا فلاحی ریاست کے مقابلے میں سیکورٹی ریاست کا جو نقشہ ہے اسے ہر صورت تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ جو ہم ایک طرف سیکورٹی کے نام پر اور دوسری طرف ریاستی یا حکومتی اداروں کی نج کاری کے نام پر لوگوں کو زندہ ماررہے ہیں وہ بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پبلک سرکاری اداروں کو ہم نے تباہ کر کے لوگوں کو نجی شعبوں تک محدود کر دیا ہے جہاں لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔

کیونکہ حکومتی ریگولٹری نظام ناقص اور بدعنوانی پر مبنی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو کچھ ہسپتالوں میں نجی شعبہ میں ہورہا ہے وہ خود قابل گرفت ہے جہاں کرونا وبا میں بھی لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے ان کی جیبیں پوری طرح کاٹی جا رہی ہیں۔ اصل چیلنج حکومتی رٹ کی کمزوری، کمزور نگرانی، جوابدہی اور شفافیت پر مبنی نظام کا ہے اور ان کی عدم موجودگی میں عام آدمی کا اور زیادہ استحصال ہورہا ہے۔

بدقسمتی سے ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادتوں کا عام آدمی کے زندگی کے جڑے مسائل یا معاملات سے لاتعلقی کا ہے۔ سیاسی جماعتیں کسی بھی سطح پر نہ تو فعال ہیں اور نہ ہی عملی سطح پر ہمیں کام کرتی نظر آتی ہیں۔ ریاست اور حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کی عام لوگوں سے ہم کو جو لاتعلقی نظر آتی ہے وہ خود بھی ایک بڑے بحران کی نشاندہی کرتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ایسا فلاحی منصوبہ نہیں جو وہ لوگوں کے ساتھ اپنی جڑت کو مضبوط بنا سکے۔

ماسوائے جماعت اسلامی کے ہمیں شہریوں کی مدد کے تناظر میں کوئی جماعت یا ان کا ادارہ فعال نظر نہیں آتا۔ عام لوگوں کے مسائل پر بات کرنا اور ان کے لیے عملی کام کرنے میں بہت زیاد ہ فرق ہوتا ہے۔ ایسے لگتاہے کہ ہمارا مجموعی ریاستی نظام بول بول کر یا بڑی بڑی تقریروں یا کچھ لکھ کر لوگوں کی حالت کو بدلنا چاہتا ہے، جبکہ عملی طو رپر اس کا کردار بڑا محدود ہے۔ سیاسی و جمہوری نظا م میں لوگوں کی ایک بڑی توقع پارلیمنٹ اور ان کے ممبران سے ہوتی ہے۔ ماشا اللہ ہماری پارلیمانی سیاست پر نظر ڈالیں تو ہمیں سوائے ماتم کے کچھ نہیں ملتا۔ پارلیمنٹ محض ایک ڈیبٹنگ کلب نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد ملک کی سیاست، سماجیات اور معیشت میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لاناہوتی ہے جو عوامی مفاد سے جڑے ہوتے ہیں۔

اس لیے آج پاکستان میں بڑا نکتہ ریاست اور شہریوں کے درمیان اعتماد سازی کی بحالی سے جڑا ہے۔ یہ کام عملی اقدامات اور لوگوں کو بنیادی حقوق کی فراہمی سے جڑا ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے مجموعی ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی نظام میں ایک بڑی اصلاحات درکار ہیں۔ یہ کام روایتی طور پر نہیں ہوگا بلکہ ایک بڑی غیر معمولی اقدامات جو کچھ کڑوے بھی ہوں گے کرنے ہوں گے۔ اسی طرح یہ ذمہ داری کس ایک فریق کی نہیں بلکہ اس میں ریاست کے تمام فریقین کو اپنا اپنا حصہ اجتماعی طور پر ڈالنا ہوگا۔

ہمارے اہل دانش، میڈیا اور رائے عامہ بنانے والوں سمیت علمی و فکری محاذ پر سرگرم لوگوں کا کام موجودہ ریاست اور حکومتی نظام کے مقابلے میں ایک ذمہ دار متبادل نظام کی طرف پیش قدمی سے جڑا ہونا چاہیے۔ یہ کام سیاسی اور سماجی جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے ہمیں ایک بڑی سیاسی اور سماجی تحریک کی ضرورت ہے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم ملک میں موجود تمام فیصلہ ساز افراد یا اداروں کو جھنجھوڑیں اور ان پر دباؤ کو بڑھائیں کہ وہ اس روایتی اور فرسودہ ریاست کے مقابلے میں ایک فلاحی اور سماجی ریاست کی طرف پیش قدمی کریں، یہ ہی عمل ہمارے قومی مفاد کے زمرے میں آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments