دماغ کی دہی بنانے والے لوگ


فوجی عارف میرا بہت اچھا دوست ہے۔ میرا جتنا وقت اس کے ساتھ گزرا ہے شاید ہی کسی اور کے ساتھ گزرا ہوگا۔ ابھی وہ فوج میں بھرتی نہیں ہوا تھا تب بھی ہم اسے فوجی ہی کہتے تھے۔ مگر اس کی فوج میں نوکری لگ نہیں رہی تھی۔ تو ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ اب اسے فوجی نہیں جٹ کہنا ہے۔ تو میں نے اسے جٹ کہنا شروع کر دیا اور کچھ عرصہ بعد وہ حقیقتاً فوجی بن گیا۔ اور ابھی تک فوجی عارف ہی ہے۔ اور تو اس میں فوجیوں والی کوئی ناقابل برداشت بات نہیں ہے سوائے ایک کے۔ وہ میری لکھائی (hand writing) کے پیچھے ایسے پڑا ہوا ہے جیسے عمران خان پانامہ اسکینڈل کو لے کر شریف خاندان کے پیچھے پڑا تھا۔ اور نہ خود کسی کام کا بنا اور نہ انہیں کسی کام کا چھوڑا۔

خیر میں کئی بار فوجی کو کہہ چکا ہوں کہ بھائی اگر کتے کی دم اور میری لکھائی کوشش کے باوجود سیدھی نہ ہو سکے تو اس میں میرا کیا قصور۔ لیکن وہ جب بھی میرے ہاتھ کی لکھی ہوئی کوئی تحریر دیکھتا ہے تو پوری ذمہ داری سے مجھے اس بات کا احساس کرواتا ہے کہ تمھاری لکھائی تو پرائمری کے بچے کی لکھائی سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ابھی کل جب وہ باہر ڈیرے پہ آ کر بیٹھا تو میں بھی اپنے دو کالمز اٹھا کر اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔

میرا ارادہ تھا کہ باتوں باتوں میں کالمز بھی ٹائپ کر دوں گا اور باتیں بھی ہو جائیں گیں۔ مگر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا لیکن میری خواہش نہ تھی۔ اس نے میرا کالم دیکھا اور کہا یہ تم نے لکھا ہے۔ میں نے کہا، ہاں۔ کہتا، یار بڑے افسوس کی بات ہے تم سولہویں جماعت میں ہو اور تمھاری لکھائی کسی اناڑی بچے کی طرح ہے۔ میں نے اسے بڑے مدلل انداز میں سمجھایا کہ بھائی اگر اللہ نے مجھے اچھی لکھائی (hand writing) نہیں دی تو کیا ہوا۔

اللہ نے مجھے چیزوں کو اچھے انداز میں لکھ کر لوگوں کے سامنے پیش کرنے کا ہنر دیا ہے۔ کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کی لکھائی مجھ سے بہت بہتر ہے مگر وہ اپنے پاس سے دو لائنیں بھی نہیں لکھ سکتے۔ اور میں اللہ کے فضل سے اب تک سینکڑوں صفحات لکھ چکا ہوں۔ اور ویسے بھی اب انڈسٹری میں ( لکھائی) ہینڈ رائٹنگ کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہی۔ ہر چیز ڈیجیٹل ہوگئی ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ آپ کی ( لکھائی) ہینڈ رائٹنگ کیسی ہے۔ انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ کی تحریر کیسی ہے۔ مگر اس کے وہی ڈھاک کے تین پات۔ اس نے کہا کوئی یقین کرے گا کہ یہ سولہویں پڑھنے والے کے ہاتھ کی لکھائی ہے۔ میں نے کہا بھائی میں اسی لکھائی کے ساتھ سولہویں میں پہنچ گیا ہوں ناں اور انشاءاللہ پاس بھی کر جاؤں گا تو پھر اس میں برا کیا ہے۔

پتہ نہیں لوگ دوسروں کی بیسوں خوبیوں کو نظر انداز کرکے ایک خامی کو پکڑ کر انہیں ذلیل کیوں کرتے رہتے ہیں۔ بلآخر مجھے فوجی کی باتوں سے چڑ ہونے لگی۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے میں دوسروں کی باتیں سن کر غصے میں آ جاؤں مگر کبھی کبھی۔ تو اس دن بھی جب بات میری برداشت سے باہر ہوئی تو میں نے غصے میں اپنے کاغذ قلم اٹھائے اور وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔ میں نے سوچا کے اس سے پہلے کہ بدتمیزی حد سے بڑھے مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے۔

کسی تعلق کو مکمل طور پر ختم کرنے سے بہتر ہے کہ آپ کچھ وقت کے لئے دوری اختیار کر لیں۔ گھر آ کر میں نے دونوں کالم ٹائپ کیے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں اور فوجی آپس میں ناراض ہو گئے ہوں گے۔ نہیں بالکل نہیں۔ میں شام کو اسی کے ساتھ سڑک کنارے کھڑے ہو کر خوشگوار موسم میں خوش گپیاں لگا رہا تھا۔ کیوں کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رکھنے سے بڑے بڑے رشتے کمزور ہو جاتے ہیں۔ اور ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعلق نہیں توڑے جاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments