شمالی علاقہ جات اداس ہیں


یہ سال 2020 بہت عجیب سال ہے نہ اس میں کوئی خوشی ہے نہ ہی سکون۔ ہر طرف سے بری خبر سننے کو ملتی ہے نہ جانے اس سال نے کتنے گھراجاڑ دیے ’کتنے پیاروں کو دور کر دیا۔ سارے منصوبے‘ ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے ’خواب ادھورے رہ گئے۔ اب تو کہا جاتا ہے کہ اپنی زندگی بچا لیں‘ زندگی رہی تو خواب پورے ہو جائیں گے۔ زندگیوں میں بے سکونی بڑھتی جا رہی ہے بھوک افلاس نے ڈیرے ڈال لئے ہیں دلوں میں خوف رچ بس گیا ہے۔

اب پرانی باتیں صرف یادیں بن کر رہ گئی ہیں وہ بھی کیا خوبصورت دن تھے جب ہر سال منصوبہ بندی کی جاتی تھی کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں کہاں گھومنے جائیں گے۔ پھر چھٹیاں ہوتے ہی بچے اپنا اسکول کا کام خوشی میں جلدی ختم کر لیتے کیونکہ گھومنے جو جانا ہوتا تھا۔ پھر اک شور برپا ہوتا کہ شمالی علاقہ جات ناران ’کاغان جانا ہے خوشی میں لمبے سفر کا احساس بھی نہ ہوتا۔ دلکش خوبصورت وادیاں‘ پہاڑ ’پہاڑوں سے گرتا پانی (آبشاریں ) قدرت کا حسین نظارہ ہوتا ہے۔ دریائے کنہار اس کا بہتا پانی‘ بہتے پانی کا شور ’ٹھنڈی مست ہوائیں سفر کی تھکن اتار دیتی ہیں اور دل پکار اٹھتا ہے کہ واہ اللہ تیری قدرت۔

شمالی علاقہ جات ہمیشہ سے میدانی علاقوں میں بسنے والوں کے لئے کشش کا باعث رہے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ قدرتی خوبصورتی اور وہاں کا ٹھنڈا موسم ہے۔ جب میدانی علاقوں میں گرمی عروج پکڑتی ہے تو لوگ شمالی علاقاجات کا رخ کرتے ہیں وہاں کے لوگوں کے لئے بھی روزگار کا یہی موسم ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں شدید سردی ’برفباری کی وجہ سے آمدورفت بند ہو جاتی ہے تاہم جیسے جیسے گرمی آتی ہے برف پگھلتی ہے راستے کھلتے ہیں تو ان علاقوں کے رہنے والے منتظر ہوتے ہیں کہ سیاح سیروتفریح کی غرض سے آئیں گے اور وہ کچھ روزی روٹی کما لیں گے۔

پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانے کے بعد پچھلے دو سالوں میں سیروسیاحت کو بہت فروغ ملا جس سے معاشی حالات کافی بہتر ہوئے۔ سیاحت کے فروغ کی وجہ سے ناران ’کاغان‘ بابوسرٹاپ حتی کہ پاک چین باڈر تک بہت سارے ہوٹل بنائے گئے چیزوں کو کمرشل لائیز کیا گیا ’سڑکیں بنائی گئیں اب ہم اپنی گاڑی میں پاک چین بارڈر تک آرام سے جا سکتے ہیں۔ وہاں کی خوبصورتی دیکھ سکتے ہیں مارخور‘ یاک جو ہم کتابوں میں بچپن سے دیکھتے اور پڑھتے آئیں ہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں یہی نہیں بلکہ رستے میں آنے والے پہاڑی سلسلوں کوہ قراقرم ’ہندوکش‘ ہمالیہ ’پاسو کونز اور عطا باد جھیل جن کے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔

ہنزہ کی خوبصورت وادیاں جو صرف خوابوں کی دنیا لگتی ہیں ان میں جا کر رہ سکتے ہیں۔ وہاں جا کر ایسا لگتا ہے جیسے ہم جنت میں آگئے ہوں جنت بھی ایسی ہی خوبصورت ہو گی جیسی خوبصورتی اللہ نے ہمیں اس دنیا میں ہمارے پیارے پاکستان میں عطا کر دی ہے بے پناہ دل موہ لینے والی خوبصورتی دیکھ کر بے اختیار اللہ کی یاد آ جاتی ہے اور دل پکار اٹھتا ہے کہ تم اپنے خدا کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔

لیکن یہ کیسی وبا کے دن آئے ہیں کہ ہر طرف اداسی چھائی ہے اب وہ سارے علاقے سنسان پڑے ہیں ’ساری وادیاں ویران ہیں اور وہاں کے لوگ منتظر۔ ۔ ۔

وہاں کے مقامی لوگ سارا سال اس وقت کا انتطار کرتے ہیں تاکہ اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ ان کا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ’ان کا روزگار‘ ان کے جینے کا سہارا صرف اور صرف اس کمائی پر منحصر ہے جو وہ سیاحوں کے آنے پر کرتے ہیں۔ لیکن ان حالات میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ ان مقامی لوگوں کی طرف خاص توجہ دے۔ ان کے لئے خاص مراعات کا بندوبست کرے۔ اس کے علاوہ ایس او پیز کے ساتھ مرحلہ وار سیروسیاحت کو کھول دیا جائے تاکہ وہاں کے لوگ کچھ کما سکیں اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں بھوک و افلاس کو مٹا سکیں۔

ہر لمحہ اللہ کے حضور یہ دعا رہتی ہے کہ۔ ۔ ۔

یا اللہ کوئی معجزہ دکھا دیں کہ آنکھ کھلے پہلے جیسے حالات ہوں خوشیاں ’گہماگہمی ہو‘ ایک دوسرے سے گلے ملیں ’گھومیں پھریں محبتیں بانٹیں اور یہ 2020 کا سال صرف خوابوں کا حصہ بن جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments