دردانہ انصاری کا دنیا کے سب سے گہرے مقام تک سفر: جب ماریانا ٹرینچ کے اوپر پاکستان کا پرچم لہرایا گیا


ماریانا ٹرینچ کے عین اوپر گردش

Durdana Ansari
ماریانا ٹرینچ کے عین اوپر گردش کرتے ہوئے جہاز میں سوار دردانہ انصاری

یہ 29 مئی 2020 کی بات ہے۔ تقریباً 29 گھنٹوں کے ہوائی سفر اور کووڈ 19 کی وجہ سے ہر پورٹ پر پوچھ گچھ کے بعد میں اور یورپ سے پانچ لوگوں کی ایک ٹیم امریکی فوجی جزیرے گوام پہنچی۔

ہمیں مخصوص سیکیورٹی کے ساتھ ایک ہوٹل میں دو دن کے لیے تقریباً بند کر دیا گیا۔ رات کا وقت تھا، کچھ زیادہ دیکھ نہیں پائے۔ لیکن ہر اہلکار فوجی وردی میں ملبوس، یہاں تک کہ ہمارا سامان کمروں میں لے جانے سے لے کر اگلے تین دن تک ہمارے کمروں کے باہر کھانے کے ڈبے رکھنے والے بھی فوجی ہی تھے۔

اللہ معاف کرے لیکن دو راتیں اور تین دن گوانتانامو بے کا سما ذہن میں گھوم گیا اور ڈبوں میں کھانا دیکھا تو ہم ٹیم کے ممبران ایک دوسرے کو کھانے کی تصویریں کھینچ کھینچ کر بھیجتے اور ہنستے رہے لیکن نقاہت سے تقریباً بلبلا اُٹھے۔

تین تاریخ کو اسی سکیورٹی کے تحت ہمیں گوام کی بندرگاہ اور پھر اس بحری جہاز میں پہنچا دیا گیا جو اگلے پورے 12 دن بحر اوقیانوس کے بیچوں بیچ ہماری قیام گاہ بننے والا تھا۔

دل میں ایک عجیب سی کیفیت تھی۔ تاریخ میں ایسی خاص مہم دنیا کے چند ہی لوگوں کے حصے میں آئی تھی۔ کیونکہ ‘ڈی ایس ایس وی پریشر ڈراپ’ نامی یہ جہاز ہمیں اگلے 12 دن تک ماریانا ٹرینچ کے عین اوپر گردش کروانے والا تھا۔

اس کے ساتھ سفر کرنے والی دنیا کی وہ واحد چھوٹی سی آبدوز ایک کے بعد ایک، تین غوطہ خوروں کو دنیا کے سب سے گہرے مقام ‘چیلنجر ڈیپ’ تک پہنچانے والی تھی جو 11 ہزار میٹر کی گہرائی پر سمندر کی تہہ میں واقع ہے۔

اس مقام کا نام ’چیلنجر ڈیپ‘ اس لیے پڑا ہے کہ 150 سال پہلے برطانوی بحریہ کے جہاز ‘ایچ ایم ایس چیلنجر’ نے اس گہرے ترین مقام کی نشاندہی کی تھی اور میرا تعلق اس مہم سے برطانوی رائل نیوی کے حوالے سے بنتا ہے کیونکہ میں نیوی میں اعزازی کمانڈر ہوں۔

روانہ ہونے سے پہلے جہاز کے کپتان ایلن ڈینکول نے سجھایا: ‘سنو، روانگی سے پہلے ہی متلی سے بچنے دوا پہلے ہی کھا لینا۔’ لہٰذا ہم نے پیروی کی اور خدا کا شکر ہے کہ ایک دن بھی اس تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ہمہ وقت بحر اوقیانوس نے اپنے وجود کے احساس سے ایک لمحے کو بھی عاری نہ رہنے دیا مگر یہ ضرور ہوا کہ اس نے ہمارے نقطے برابر وجود کو کھلی بانہوں سے دوستی کا پیغام دیا اور ہم اس کی گہرائی اور وسعتوں کو دھیرے دھیرے سمجھنے لگے اور دل سے اس کے قائل ہونے لگے۔

جیسے کوئی جوہری زیورات کے خزانے کو دیکھ کر پرکھنے لگتا ہے، اللہ تعالیٰ کی اس قدرت کو اتنے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ہر رات آسمان پر ادھر سے ادھر تک پھیلی کہکشاں نے دل و دماغ منور کر دیا۔

وکٹر ویسکوو اس جہاز کے مالک ہیں اور وہی آبدوز چلا کر نیچے لے جاتے ہیں۔ اس سے پہلے وہ امریکی بحریہ سے کمانڈر ریٹائر ہوئے اور ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی کا جلوہ دیکھ چکے ہیں۔ وہ اگلے دس دنوں میں تین امریکی تین غوطہ خوروں کو چیلنجر تک میں لے جانے والے تھے۔

سب سے پہلی، ڈاکٹر کیتھی سلیوان، جو کہ امریکہ کی پہلی خاتون خلا باز ہیں جنھوں نے خلا میں چہل قدمی کی اور اب وہ دنیا کی پہلی خاتون بننے جا رہی ہیں جنھوں خلا کے ساتھ ساتھ دنیا کے سب سے گہرے مقام تک رسایی حاصل کی۔ دوسری خاتون غوطہ خور، ونیسا اوبرائن، ایورسٹ کے ساتھ ساتھ کے ٹو بھی سر کر چکی ہیں اور ان کا نام گنز بک آف ریکارڈز میں تھا۔ تیسرے جون روسٹ بھی ایورسٹ کی چوٹی پر امریکی جھنڈا لہرا چکے ہیں۔

ان کے سمندر کی تہہ میں جانے کا مقصد تھا کہ اس گہرائی پر پانی کا دباؤ، آکسیجن کی مقدار ناپی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اتنی گہرائی میں کوئی جاندار مخلوق پائی جاتی ہے یا نہیں۔

مہم کے لیڈر روب مکیلم اور ان کی ٹیم کا مقصد اس آبدوز کو احتیاط سے پانی میں اتارنا اور واپس اپنے جہاز تک پہنچانا تھا۔

ایک غوطے کا سفر تقریباً 12 گھنٹے کا ہوتا ہے۔ چار سے پانچ گھنٹے نیچے جانے میں، دو سے تین جائزہ لینے اور واپسی وہی بھی گھنٹوں میں ہوتی ہے۔ آبدوز کی حفاظت ٹرائیٹن کمپنی کے سپرد ہے لیکن وکٹر ویسکوو کی راہنمائی سے میں نے اس سے بہتر ٹیم ورک پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

ٹیم ورک سے یاد آیا کہ ہر صبح چھ بجے ناشتہ، ساڑھے گیارہ دوپہر کا کھانا اور ساڑھے پانچ بجے شام کا کھانا سب ایک کے بعد ایک آتے جاتے اور ساتھ ساتھ بیٹھ کر کھاتے۔ چاہے وہ صفائی کرنے والا ہو، عرشے پر ڈیوٹی دینے والا ہو، وکٹر ویسکوو خود ہوں یا ڈاکٹر کیتھی، کاندھے سے کاندھا ملا کر سب بیٹھتے۔ سچ پوچھیے تو پوری مہم میں جس قدر لذیذ کھانا نصیب ہوا اس نے پہلے ہوٹل کے تین دنوں کے آنسو پونچھ ڈالے۔

خیر روب نے تو شروع کے دنوں میں ہی کہا تھا: ‘دردانہ، ہمیں کوئی پاکستانی کھانوں کی ترکیب سکھاؤ۔’

نیکی اور پوچھ پوچھ.؟ مہم کے آخری دن سے ایک روز پہلے ہم نے کمر کسی اور جہاز کے عمدہ صلاحیت کے باورچی، جن سے اب خوب دوستی ہو چکی تھی، نے میرے لیے پیاز، لہسن اور جو جو مصالحے ان کے پاس دستیاب تھے، ہمارے سامنے پروس دیے۔

ہم نے اپنی بھی عقل لڑا کر 30 لوگوں کے لیے ہرے مصالحے کی مرغی اور چنے کی دال تیار کر دی۔ اس روز کچن میں تختی لگائی گئی: ‘دردانہ کا چکن اور دردانہ کی دال۔‘

پکاتے ہوئے ہر شخص آ آ کر میری تصویریں کھینچ رہا تھا اور پورے جہاز میں شور پڑا تھا، ‘کمانڈر دردانہ از ککنگ’! اتفاق سے کھانا بھی اچھا پک گیا اور جے جے کار بھی ہو گئی۔

اس پورے بارہ دن کی مہم میں مجھے دنیا بھر کے باکمال لوگوں کے ساتھ کام کا تجربہ ہوا۔ اور سب سے زیادہ متاثر کرنے والی شخصیت کی مالک رہیں، انہتر سالہ ڈاکٹر کیتھی سلیوان۔ ان کی ذہانت، ان کی تحقیق، ان کا اتنا تجربہ اور پھر بڑھتا ہوا علم کا تجسس ان کے قد کو اور بڑھا دیتا ہے۔

جیسے ہی ان کی مہم پوری ہوئی، دنیا کے ذرائع ابلاغ غول در غول ان پر چھا گئے۔ ناسا سے لے کر، سی این این، بی بی سی، نیو یارک ٹائمز، برطانوی اخبار سب کے سب اس عظیم خاتون کے طالب تھے جس نے خلا میں چہل قدمی کے بعد زمین کی گہرائیوں کو چھوا تھا۔

میں خوش قسمت کہ پوری مہم میں مجھ پر ان کی نظر کرم رہی اور آہستہ آہستہ ہم اچھے دوست بن گئے۔ وہ رہنما کی طرح میری زندگی میں آئیں اور تھوڑے عرصے میں انھوں نے مجھ پر اپنی علمیت کے جوہر مزید آشکار کر دیے۔

میں نے ان کی بہت ساری گفتگو ریکارڈ کی۔ چلتے ہوئے وہ مجھے اپنے ساتھ گوام کی خاتون گورنر سے ملانے کے لئے لے گئیں اور میری خوش نصیبی میں مزید اضافہ یہ ہوا کہ ٹوکیو تک ہم دونوں کا واپسی کا سفر ایک ساتھ رہا۔ چلتے چلتے بولیں، ’دردانہ یاد رکھنا یہاں سے جو مثبت یاد ہےاپنے ساتھ لے جانا اور چوٹی سی بھی غیر مثبت بات کو دل سے کھرچ کر یہیں چھوڑ جانا۔‘

ایسے اساتذہ بار بار نہیں ملتے اور ملتے بھی ہیں تو یا تو آسمان کی بلندیوں پر یا پھر زمین کی گہرائیوں میں۔

دردانہ انصاری بی بی سی ورلڈ سروس سے براڈ کاسٹر اور صحافی کی حیثیت میں منسلک رہ چکی ہیں اور وہ ایک انٹرپرینیؤر اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ہیں۔ 2012 میں انھیں مسلمان خواتین کی ترقی کے لیے پروگرام تشکیل دینے پر برطانیہ کی جانب سے آرڈر آف دی برٹش امپائر سے نوازا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32288 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp