گاؤں کی پراسرار کوٹھی


ان کا گھر کئی سالوں تک بند رہا تھا۔ وہ گھر اس گلی کا سب سے خوبصورت گھر معلوم ہوتا تھا۔ کئی فقیر یا مانگنے والے جب بھی اس گاؤں کی گلی میں داخل ہوتے تو وہ اس گھر کے سامنے کچھ زیادہ دیر رک جاتے کہ شاید یہاں سے کچھ پیسے ہی مل جائیں۔ وہ آواز لگاتے اور تھک جاتے پر کوئی اندر سے نہ نکلتا۔ ہر بار اس گلی کے کسی نہ کسی شخص کو یہ بتانا پڑتا کہ گھر میں کوئی نہیں رہتا گھر بند رہتا ہے۔ پر وہ اس کی بات کو نہ مانتے کیوں کہ ان کا دل اس بات کو تسلیم ہی نہ کرتا کہ اتنا عالیشان گھر کوئی بھلا کیسے چھوڑ سکتا ہے۔

اور دوسری بات جو ان کے دل میں کھٹکتی کہ دروازے پر کوئی ظاہری تالا نہیں۔ ضرور یہ گاؤں والے ہم سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ وہ سادہ دل لوگ یہ سوچ نہ پاتے کہ کچھ تالے ظاہر نظر تو نہیں آتے پر ان کا وجود ہوتا ہے۔ وہ بے چارے پھر بھی کچھ دیر کھڑے رہتے کہ مالک نہ سہی مالک کا نوکر ہی نکل نہ آئے اور کچھ دیدے۔ شاید دروازہ ابھی کھل جائے۔ لیکن ہر بار وہ اس دروازے سے مایوس لوٹ جاتے۔ اور جاتے وقت بھی پیچھے تکتے جاتے کہ ان کے کھٹکھٹانے سے شاید کوئی نکل ہی نہ آیا ہو۔

گاؤں کے زیادہ تر لوگ اس گھر کے رہنے والوں کو اب بھول چکے تھے۔ شادی غمی عید بارات کے موقع پر گاؤں کے اکثر لوگ جو مختلف شہروں میں باہر کسی مقصد کے لیے نکلے ہوئے ہوتے وہ واپس لوٹ آتے۔ لیکن اس گھر کے مالکان کو گاؤں والوں نے کئی سالوں تک نہ دیکھا۔

ایک صبح گاؤں میں یہ بات ہوا میں خوشبو کی طرح پھیل گئی کہ اس گھر کے مالکان اب لوٹ آئیں ہیں۔ ان کو تو کسی نے آتے دیکھا بھی نہیں! سب کے اندر یہی سوال اٹھا۔ اس بات کی تصدیق گاؤں کے امام نے کر دی کہ انہوں نے فجر کے وقت کسی گاڑی کو اس گلی میں جاتے دیکھا تھا۔ اس کی گواہی پر سب کا شک دور ہو گیا۔ لیکن گاؤں میں سے کسی نے خود جا کر معلوم نہیں کیا کہ مالکان آ گئے ہیں یا محض ایک افواہ ہی ہے۔ ایسی جرت کوئی اور کرے نہ کرے پر آس پاس کے فقیروں نے کر ہی دی تھی۔

جب انہوں نے سنا کہ اس چمکتی کوٹھی کے مالکان آ گئے ہیں۔ وہ سارے فقیر اس کوٹھی کے دروازے پر جمع ہو گئے اور آوازیں دینے لگ گئے کہ اللہ کے نام او کوٹھی والے کچھ دے دے۔ کوئی زور زور سے میٹھی آواز میں نعتیں پڑھنے لگا تو کوئی دکھڑے سنانے لگا۔ لیکن سب کی آس یہی تھی کہ جلدی سے کوئی اندر سے باہر آئے اور ان کو مٹھی بھر پیسوں کی ہاتھ میں تھما دے۔ اور وہ وہاں سے خوشی سے لوٹ جائیں۔ سب فقیروں کا ہجوم کافی دیر تک کھڑا رہا مگر اس دروازے سے اس بار بھی کوئی باہر نہ آیا۔

ایک بار پھر وہاں سے بار بار گزرتے ہوئے گلی کے کسی شخص کو فقیروں کا ہجوم دھوپ میں سڑتے دیکھ کر مجبوراً کہنا پڑا کہ گھر میں کوئی نہیں رہتا گھر بند رہتا ہے۔ پر وہ اس بار بھی اس بات کو نہ مانتے کیوں کہ دروازے پر کوئی ظاہری تالا نہ دیکھتے۔ دروازہ تو اندر سے لاک تھا۔ اور اندر ہی سے کھل سکتا تھا۔ شاید وہ ان کے کھڑے ہوتے ہوئے کھل جائے۔

آخر وہ سارے تنگ آکر ایک کے بعد ایک ہو کر وہاں سے چلنے لگ گئے۔ مسجد میں بھی مولوی نماز با جماعت شروع کرنے سے پہلے کچھ دیر انتظار کرنے لگا تھا اور جوہی نماز پوری ہوتی تو وہ پیچھے کھڑے ہوئے ہر چہرے کی طرف دیکھتا کہ کہیں کوئی نیا چہرہ ہو تو وہ سمجھ جائے کہ وہی خوبصورت کوٹھی والا مالک ہے۔ اور مغرب کے وقت وہ زیادہ دیر ٹھہرتا کہ کہیں کوئی خوبصورت کوٹھی سے طعام نہ آ جائے اور اس کا منہ اس لذت سے کہیں محروم نہ ہو جائے۔

ان دنوں ہر جگہ ایک نئی وبا کا خوف و ہراس پہیلا ہوا تھا۔ ملک کے بیشتر شہر اس وبا کی آڑ میں حکومت نے بند کیے ہوئے تھے۔ وبا کا اثر اس دیہات کے گاؤں تک بھی آ پہنچا تھا۔ پر یہاں کے لوگ جو زیادہ تر نفیس اور مسکین تھے انہوں نے حکومتی احکامات کو زیادہ تر سنجیدہ نہیں لیا۔ گاؤں سے شہر کافی دور ہونے کے سبب ان کا آنا جانا اس طرف کم ہی رہتا تھا۔ بس کچھ لوگ جو صبح سویرے منڈی میں سبزی بیچنے جاتے تو وہ وہی کچھ وبا کے بارے میں ہر بار نئی معلومات لے آتے۔

اور گاؤں والوں کو بھی اس معلومات سے مستفید کرتے۔ بہت سی معلومات سن کر اب ان کی حتمی رائے وبا کے بارے میں جو بنی تھی وہ یہ تھی کہ وبا انہی انسانوں کا کچھ بگاڑ سکتی ہے جو حرام کھاتے ہیں۔ کچھ لوگ کہتے کہ جہاں بے حیائی عروج پر ہوتی ہے وہاں اللہ وبا بھیجتا ہے۔ ان کو اطمینان تھا کہ ہمارے ہاں نہ کوئی حرام کھاتا ہے اور نہ ہی کوئی بے حیائی ہے تو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر بھی ایک شام کو سب گاؤں والے مولوی کی سرپرستی میں اکٹھے ہوئے اور مولوی کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔

مولوی جس کے ہاتھ میں قرآن مجید تھا وہ اللہ اکبر کا زور زور سے ورد کر تا ہوا گھومتا جا رہا تھا۔ لوگ بھی اسے ورد کو اس کے پیچھے دہراتے جا رہے تھے۔ وہ سارے گاؤں کے گرد گول چکر لگا کر واپس اسی جگہ آ گئے جہاں سے وہ سب شروع ہوئے تھے۔ ان کے مطابق انہوں نے گاؤں کو اب محفوظ کر لیا ہے۔ اب وبا ان کے گاؤں میں نہیں گھس سکتی۔

کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ اچانک خوبصورت کوٹھی والوں کا آنا بھی وبا کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ شہر میں لوگ بے حیا ہیں۔ خواتین پردے کا اہتمام نہیں کرتی۔ اور لوگ اکثر گوشت بھی کتوں، بلیوں اور گدھوں کا غلطی سے ہضم کر گئے ہیں۔ ایسا انہوں نے شہر سے لوٹے ہوئے کچھ گاؤں کے لڑکوں سے سنا تھا۔ اب ان کے لیے اپنا گاؤں ہی ایک ایسی جگہ بچا ہے جہاں لوگ ایسے بالکل نہیں جیسے شہر کے بے حس لوگ اور بے حیا۔ ایسا سن کر وہ اپنا سینا چوڑا کر لیتے۔ لیکن کچھ بوڑھے لوگ اب بھی کہتے کہ کوٹھی والے گاؤں والوں کی خوشی و غمی میں شریک نہ ہوئے پر اتنے سالوں بعد ملنے آئے ہیں۔ اور اس دفعہ وہ سب سے مل کر ہی جائیں گے۔

دو دن گزر گئے لیکن گاؤں والوں نے اس گھر سے کسی کو نہ آتے دیکھا نہ جاتے۔ اسی شام گاؤں کے چوراہے پر جب بات سے بات نکلی تو کچھ نوجوان وہاں کھڑے بوڑھوں سے گلہ کرنے لگے کہ آپ لوگ تو چمکتی کوٹھی والوں کے بڑے گن گنواتے تھے کہ یہ ایسے تھے وہ ویسے تھے۔ لیکن آج جب وہ آ ہی گئے ہیں تو آپ لوگوں کا منہ تک دیکھنا پسند نہیں کر رہے۔

ایسے میں وہاں بیٹھے ایک بزرگ نے کہا بیٹا ایسی بات نہیں رائے صاحب خود تو بہت اچھے آدمی تھے۔ ہمارے پورے گاؤں کو اسی نے تو یہاں آباد کروایا تھا۔ پہلے تو ہم لوگ کچے کے علاقے میں رہا کرتے تھے جہاں ہر سال سیلاب آتا اور ہمیں برباد کر کے چلا جاتا۔ خدا بھلا کرے رائے صاحب کا جس نے ہمیں سکھ سے یہاں بسنے دیا۔ شاید! رائے صاحب خود نہیں آئے۔ اگر وہ آتے تو گاؤں کا ضرور چکر لگاتے۔ جاتے وقت بھی انہوں نے ہم سب کو بلا کر کہا تھا کہ گاؤں کا خیال رکھنا اور میری کوٹھی کا بھی ”میں واپس ضرور آؤں گا“ ۔ بیٹا اس لیے بھی ہمیں وہ کوٹھی عزیز ہے۔ عصر کی اذان سن کر وہاں بیٹھے بزرگ اٹھ کر مسجد کی طرف چلے گئے۔ اور نوجوان والی بال کھیلنے کے لیے مسجد کے سامنے والے میدان میں اکٹھے ہو گئے اور یوں دن کا سورج کھجوروں کے درختوں میں ڈوب گیا۔

صبح ہوئی سب گاؤں کے لوگ اپنی مخصوص کاموں کے لیے گھر سے نکل گئے۔ بچے کھیلنے کودنے کو روانہ ہوئے۔ اس چمکدار کوٹھی کے بالکل سامنے ایک چھوٹا سا میدان تھا۔ جو بقول بزرگوں کے وہاں خوبصورت مختلف پودوں سے بھرا ایک وقت میں گلشن تھا۔ ایک وقت رائے صاحب وہاں اکثر گاؤں والوں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ اب تو وہ اس حالت میں نہیں رہا تھا۔ پودوں کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ بس دھول مٹی سی لدی بنجر زمین ہی بچی تھی۔ چھوٹے بچے اکثر وہاں کھڑے ہو کر گلی ڈنڈا کھیلتے اور جب ان کی گلی چمکدار کوٹھی میں چلی جاتی تو وہ اس کی بیرونی دیوار پھلانگ کر اٹھا لاتے۔

اس عمل پر حالانکہ کئی بار ان کو مار پڑی مگر وہ پھر بھی باز نہ آئے۔ اس دن بچے اسی معمول کے مطابق گلی ڈنڈا کھیلنے میں مصروف تھے۔ کافی دنوں سے ان کی گلی نے چمکدار کوٹھی کی طرف رخ نہیں کیا تھا۔ ایک بچے نے جب گلی کو زوردار ڈنڈا مارا تو وہ سیدھی اس کوٹھی میں جا گری۔ بچوں نے کافی انتظار کیا کہ گلی کوئی نہ کوئی واپس باہر پھینکے گا۔ پر گلی باہر نہ آئی۔ بچے اب گھبرا گئے کہ کوٹھی کے مالکان اب آ گئے ہیں تو وہ کیسے اندر گھسیں گے۔

لیکن کھیل کے خاطر انہوں نے خطرہ موڑ لیا۔ دو لڑکے بیرونی دیوار پر چڑھ گئے۔ ان میں سے ایک لڑکا دوسرے کی مدد سے اندر اتر گیا اور صحن میں گلی ڈھونڈنے میں مصروف ہو گیا۔ اور دوسرا دیوار پر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا۔ اس دفعہ گھر کا دروازہ بچے کو کھلا ہوا نظر آیا۔ جو پہلے ہمیشہ بند رہتا تھا۔ بچے کے دل میں گھر کے اندرونی ماحول کو دیکھنے کا دل کرا تو وہ گلی ہاتھ میں لیے اندرونی دروازے کے قریب جا کھڑا ہو۔ اور اندر جانے کے لیے اپنے اندر ہمت پیدا کرنے لگا۔

پہلے اس نے دروازے کے اندر پتھر پھینکا اور تھوڑا پیچھے ہو گیا۔ کوئی ہلچل اس نے گھر کے اندر محسوس نہیں کی۔ اندر کا ماحول دیکھنے کا تجسس اسے کھائے جا رہا تھا۔ ہمت کر کے اس نے عمارت کا دروازہ پار کر لیا۔ وہ ادھر ادھر تکنے لگا۔ سامنے کچھ عجیب دیکھ کر، اس نے بڑی چیخ ماری اور بھاگتا ہوا باہر کی طرف آیا۔ بیرونی دیوار پر بیٹھے بچے نے اس کی چیخ سن کے اسی وقت دیوار کے نیچے چھلانگ لگائی۔ اندر پھنسے بچے نے اکیلے دیوار پر چڑھنے کی کوشش کی پر وہ ناکام رہا۔

وہ اندر اور زور سے چیخنے لگا اور رونے لگا۔ اس کے رونے کی آواز سن کر آس پاس کے لوگ تھوڑی ہی دیر میں دروازے کے باہر اکٹھے ہو گئے اور کچھ نوجوان جلدی سے کوٹھی کی دیوار پر چڑھ گئے اور نیچے اس بچے کے پاس چلے گئے۔ بچہ جب تھوڑا سکون میں آیا تو نوجوان پوچھنے لگے کے کیا ہوا۔ اس نے عمارت کی طرف اشارہ کیا تو وہ اس طرف چلے گئے۔ عمارت کا دروازہ پہلے سے کھلا ہوا تھا۔ نوجوان بھی اسی دروازے سے احتیاط سے ادھر ادھر دیکھ کر داخل ہوئے۔

انہوں نے دیکھا کہ اندر ایک بوڑھا شخص صوفے پر لیٹا ہوا ہے۔ اور وہ زور زور سے سانس لے رہا ہے۔ اس بوڑھے نے ان نوجوان لڑکوں کو دیکھ کر ہاتھ سے اشارہ کیا تو وہ اس کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ ان کو لگا کہ بوڑھا اپنی زندگی کے آخری پل گن رہا ہے۔ کچھ کھانے کی چیزیں بسکٹ اور جوس وغیرہ صوفے کے ساتھ والی ٹیبل پر پڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے وہاں سے جوس اٹھا کر اس کو پلانے کی کوشش کی مگر وہ پی نہ سکا۔ بوڑھا شخص کچھ بولنے کی کوشش کر رہا تھا پر وہ بول نہ سکتا تھا۔

تب تک باہر اور کوٹھی کی دیوار پر لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا تھا۔ باہر کا شور سن کر اس میں سے ایک نوجوان جلدی باہر گیا۔ اور سیدھا جا کر باہر والے گیٹ کا لاک توڑ ڈالا۔ ایسے میں گاؤں کے بزرگ جو چمکتی کوٹھی کا سن کر وہاں جلدی آ گئے تھے وہ دروازے سے اندر آ گئے۔ وہ نوجوان ان کو سیدھا اس بوڑھے بیمار کی طرف لے آیا جو ابھی تک صوفے پر لیٹا ہوا تھا۔ گاؤں والے بزرگ اسے دیکھ کر حیران ہو گئے کہ یہ تو رائے خان ہے۔

اس کی حالت ناساز تھی۔ وہ ان سب بزرگوں کو جیسے دیکھ کر پہچان گیا تھا۔ وہ سارے جاکر اس کے صوفے کے ساتھ بیٹھ گئے۔ ان سب کو ساتھ دیکھ کر رائے بہادر کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ وہ کچھ بولنے کی کوشش کرتا مگر سانس اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ ایسے میں اس کی آنکھیں بند ہوئیں اور پھر نہ کھلیں۔ گاؤں کے بزرگ لوگ اسے اس کے نام رائے بہادر خان سے پکارتے رہے پر وہ تب تک جا چکا تھا۔

اس کے جنازے میں کافی لوگ شریک ہوئے۔ اور سارا انتظام اسی گاؤں والوں نے کیا۔ اس کی تدفین اسی کوٹھی میں کی گئی اور وہیں صحن میں اسے مٹی کے حوالے کیا گیا۔ تین دن سوگ میں بیٹھنے کا بندوبست بھی اسی کوٹھی میں کیا گیا۔ تین دن گزرنے کے بعد گاؤں والوں نے پھر سے اس کوٹھی کو بند کر دیا۔ لیکن اس بار اس کو تالا باہر سے لگایا گیا۔ ایک مہینہ گزرنے کے بعد ہر ایک ہفتے اس گاؤں کا کوئی نہ کوئی بوڑھا مر رہا تھا۔ ایسے کر کے گاؤں کے سب بوڑھے دو مہینوں میں مدت میں چل بسے۔ گاؤں میں کوئی بوڑھا نہ رہا جو رائے بہادر خان کا ذکر چھیڑے۔ اب گاؤں میں چرچا ہے کہ بوڑھوں کے مرنے کی وجہ رائے بہادر خان کا صدمہ تھا تو کوئی کہتا ہے وبا نے مارا ان سب کو۔ کوئی کہتا ہے وبا نہیں آ سکتی اس دن کے بعد جس دن قرآن کی برکت سے گاؤں کو وبا سے پاک کر دیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments