گڑ کھانا چھوڑیں گے تو آواز میں اثر آئے گا


گزشتہ کل مقبوضہ کشمیر میں ایک نہایت دلخراش واقعہ پیش آیا جب ایک عمر رسیدہ دادا کو اس کے 3 سالہ پوتے کے سامنے بھارتی فوج نے نہایت درندگی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ جسارت میں تصویر کے ساتھ شائع ہونے والی خبر کے مطابق ”مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران کمسن بچے کے سامنے اس کے دادا کو گولیاں مار کر شہید کر دیا جب کہ 3 سالہ بچہ دادا کی لاش پر بیٹھ کر روتا رہا اور کوئی دلاسا دینے والا بھی نہیں تھا“ ۔

یہ اور ایسے نہ جانے کتنے دل پھاڑ دینے والے واقعات سے بھارتی مظالم کی تاریخ بھری پڑی ہے جو نہ صرف کشمیری مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں پر مشتمل ہے بلکہ پورے بھارت میں مسلمان ایک طویل عرصے سے اسی قسم کے مظالم کا سامنا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ سارے واقعات اس امر کے متقاضی ہیں کہ اقوام عالم ان کا سختی کے ساتھ نوٹس لے لیکن قابل افسوس بات یہی ہے کہ دنیا ایسے مظالم کے خلاف کوئی سخت ایکشن اٹھانا تو درکنار، موثر آواز تک اٹھانا گوارا نہیں کرتی۔

دنیا میں جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں، ما سوائے چند، کوئی بھی ان مظالم کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ ایک پاکستان ایسا ملک ہے جہاں، نقار خانے میں توتی کی آواز ہی کی طرح سہی، دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف دنیا کے ہر فورم پر آواز اٹھائی جاتی ہے۔ کشمیر تو ویسے بھی 72 سال تک پاکستان کا ”اٹوٹ انگ“ اور ”شہ رگ“ قرار دیا جاتا رہا تھا اس لئے وہاں پر جب بھی کشمیریوں پر کوئی ظلم ہوا یا ہوتا ہے تو پاکستان سراپا احتجاج بن جاتا ہے لہٰذا گزشتہ کل کا دل چیر دینے والا واقعہ پورے پاکستان کے لئے اذیت کا باعث بنا رہا اور پاکستان کے ہر میڈیا نے اس واقعے کی مذمت کے لئے اپنی مقدور بھر آواز بلند کی لیکن نہ تو اس کا ذرہ برابر بھی اثر مودی سرکار نے قبول کیا اور نہ ہی دنیا کے کانوں پر اب تک کوئی جوں رینگتی دکھائی دے رہی ہے۔

توجہ طلب بات یہ ہے کہ کشمیر ہی پر توڑے جانے والے مظالم پر نہیں، بھارت میں جہاں جہاں بھی مظالم ڈھائے جاتے ہیں یا دنیا کے کسی بھی ملک میں مسلمانوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی زیادتی ہوتی ہے، پاکستان ان مظالم کے خلاف پوری دنیا میں سراپا احتجاج بن جاتا ہے لیکن کبھی پورے پاکستان نے یہ سوچا کہ اس کی اٹھائی گئی کسی بھی صدائے احتجاج پر دنیا کان کیوں نہیں دھرتی؟ ہم مسلمان ہونے کے ناتے بے شک یہ کہہ کر اپنے دل کو تسلیاں دے لیتے ہیں کہ اہل کفر کو ہم مسلمانوں سے کیا دلچسپی ہو گی لیکن کبھی ہم اس بات پر غور کرنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے کہ ہم گڑ کھانا چھوڑے بغیر دوسروں سے یہ کیوں چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے کہنے سے گڑ کھانا چھوڑ دیں۔

دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر مظالم ہو رہے ہیں وہاں یہ سب کھیل اہل کفر و شرک کھیل رہے ہیں اور ہر کفر کا کام ہی حق و صداقت کے علم اور ان ہاتھوں کو قلم کرنا ہے جو ہاتھ انھیں تھامے اور بلند کیے رکھنا چاہتے ہیں لہٰذا ان کا ہر ظلم ان کے اپنے دین دھرم میں نہ تو ظلم میں شمار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی زیادتی میں گنا جاتا ہے لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ خود پاکستان کی تاریخ، عام مسلمانوں کے ہاتھوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں، اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے خلاف ایسے واقعات سے بھری پڑی ہو تو کیا دنیا ہمارے کسی بھی احتجاج پر کان دھرنے کے لئے تیار ہوگی؟

جس ملک میں سانحہ ساہیوال کے مجرم مونچھوں کو تاؤ دیتے پھر رہے ہوں، حافظین کو جانوروں کی طرح مار کر سر عام درختوں سے الٹا لٹکا دیا جاتا ہو، ماڈل ٹاؤن مین 14 لاشیں گرادی جاتی ہوں، کراچی کے 40 ہزار شہدا کے قاتوں کو نفیس کہا جاتا ہو، اپنے ہی تربیت یافتہ جہادیوں کو بمباریاں کرکے ہلاک کر دیا جاتا ہو، 442 سے زیادہ ماورائے عدالت قتل کرنے والا قانونی جنونی صرف ریٹائرڈ کر دیا جاتا ہو، آفتاب کے قاتلوں کی تحقیق اور انجام کا کچھ علم نہ ہو اور سرفراز کے قاتلوں کی پھانسی کی سزائیں منسوخ کر دی جاتی ہوں، زندہ لا پتہ ہو جاتے ہوں اور وہی زندہ، لاشوں کی صورت میں ملا کرتے ہوں تو کیا ایسے ملک کا دنیا کے کسی بھی فورم پر کوئی آواز اٹھانا یا ساری دنیا کے ممالک کے دروازے کھٹکھٹانے کا کوئی نوٹس لینے کے لئے تیار ہوگا؟

جس ملک میں آبادیوں کے درمیان پورے پورے ٹینکر بارود سے بھر کر پھاڑ دیے جاتے ہوں اور بسوں سے اتار کر مسافروں کو ان کے بیوی بچوں کے سامنے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہو اگر ایسا ملک کسی کافر ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر کوئی آواز اٹھائے گا تو وہ کسی بھی لحاظ سے سنی جانے کے قابل کیسے ہو سکتی ہے۔ لہٰذا دنیا کو گڑ کھانا چھوڑنے کی نصیحت کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ پہلے خود گڑکھانا چھوڑا جائے۔ جس ملک کو اسلام کی سربلندی کے لئے قائم کیا گیا ہے وہاں اللہ کا نظام نافذ کیا جائے ورنہ مگرمچھ کے آنسو بہاکر عوام میں جھوٹی شہرت حاصل کرنے کی مکارانہ پالیسی ترک کر دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments