بجٹ کی منظوری اور سیاسی نورا کشتی۔ ۔


سیاست کے کھیل میں عوام کا کردار اس تماشائی سے بڑھ کر نہیں جسے ٹکٹ لے کر بھی میدان میں داخل نہ ہونے دیا جائے۔ جبکہ یہ کھیل کھیلنے والے سیاسی کھلاڑیوں کا کردار بھی بس اتنا ہے کہ انھوں نے بھاگنا ہوتا ہے، دوڑنا ہوتا ہے، اچھلنا ہوتا ہے، کودنا ہوتا ہے، چیخنا چلانا شور شرابا کرنا ہوتا ہے اور دھکم پیل کرنی ہوتی ہے یعنی وہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے جو کسی بھی کھیل کا حصہ ہوتا ہے اور ایسا ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ وہ منہ زور اور سر توڑ کوشش کر رہے ہیں جیسے نورا پہلوان کرتا تھا۔

کہتے ہیں نورا کسی علاقے میں ایک معروف پہلوان تھا جو انتہائی طاقتور اور ناقابل شکست تھا کوئی بھی علاقہ ہو کوئی بھی اکھاڑا ہو کوئی بھی پہلوان ہو نورے کی طاقت اور داؤ پیچ کے آگے کسی کی ایک نہ چلتی نورا آن کی آن حریف کو چاروں شانے چت کر کے میدان مار لیتا اس کے حریفوں نے لاکھ جتن کیے ہر حربہ استعمال کیا مگر نورا پہلوان ناقابل شکست رہا بالآخر اس کے حریفوں نے آخری حربہ استعمال کر کے نورے کو دولت کے شیشے میں اتار کر خرید لیا نورے نے بھی اپنی طاقت، داؤ پیچ اور اپنی تمام قابلیت دولت کے آگے گروی رکھ دی اب جہاں بھی مقابلہ ہوتا نورے کو شکست ہو جاتی بظاہر تو نورا بھر پور داؤ پیچ استعمال کرتا کچھ دیر مقابلہ بھی کرتا مگر پھر مک مکا کے مطابق ہار جاتا پہلے تو لوگوں نے سمجھا واقعی نورے کو شکست ہو رہی ہے مگر بعد میں رفتہ رفتہ لوگوں کو پتا چل گیا کہ نورا جان بوجھ کر ہار رہا ہے جس کے بعد نورا کشتی کی اصطلاح سامنے آئی اور آج یہ نورا کشتی پاکستانی سیاست کے اکھاڑے میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔

پاکستان کے سیاسی اکھاڑے میں اترنے والے پہلوانوں نے ہارنا یا جیتنا نہیں ہوتا بلکہ کشتی کے اس کھیل میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے اور یہ کردار ہر دور میں ہر جماعت کے کھلاڑی ادا کرتے رہتے ہیں کبھی وہ حکومت کی سائیڈ سے کھیل رہے ہوتے ہیں اور کبھی اپوزیشن کی طرف سے اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اگر میری بات آپ کو سمجھ نہیں آ رہی تو حالیہ بجٹ کو ہی دیکھ لیں بجٹ کی منظوری سے پہلے اپوزیشن سیاستدانوں کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں تقاریر سن لیں یا پھر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد بیانات کی جو بھرمار ہوئی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اپوزیشن واقعی حکومت کو ناکوں چنے چبوا دے گی مگر جب بجٹ منظور ہوا تو نہیں معلوم کسی ریفری نے بگڑتا کھیل بنا دیا یا پھر نورے نے مک مکا کر لیا 7 ووٹوں سے حکومت بنانے والی تحریک انصاف نے ایک ایسے وقت میں جب اس کے بہت سے اتحادی ناراض تھے 41 ووٹوں سے بجٹ منظور کرا لیا واضح رہے کہ پچھلا بجٹ 29 ووٹوں سے منظور ہوا تھا۔

اب اگر اپوزیشن کے دوست یہ کہیں کے یہ ووٹ اوپر کے دباؤ کی وجہ سے ڈالے گئے تو اس بات میں اس لیے کوئی وزن نہیں کیونکہ اوپر کا دباؤ ہو سکتا ہے مگر اوپر سے فرشتے نہیں ہوسکتے یقیناً انہی جماعتوں کے اراکین نے ووٹ دیے۔

ایسا نہیں ہے کہ اس حکومت پر اوپر والوں کا کوئی خاص کرم ہے بلکہ ایسا ہر دور میں ہوتا رہا ہے ہر حکومت میں ایسا ہی ہوتا ہے ہر بجٹ پاس ہو جاتا ہے ہر بل پاس ہوجاتا ہے ہر قرارداد منظور ہوجاتی ہے جو اوپر والوں کا ہوتا ہے وہ ہر حکومت میں اوپر ہی اوپر پورا ہوجاتا ہے نہیں ہوتا تو عوام کا کوئی کام نہیں ہوتا عوام کا کوئی بل منظور نہیں ہوتا عوام کی کوئی قرارداد منظور نہیں ہوتی نہیں ہوتی تو عوام کی کوئی بات نہیں ہوتی جب بھی کوئی مسئلہ عوام کا ہو تو ہر حکومت، حکومت بن جاتی ہے ہر اپوزیشن، اپوزیشن بن جاتی ہے ہر قانون، قانون بن جاتا ہے ہر اصول، اصول بن جاتا ہے مگر جب درمیان میں عوام نہ ہو تو حکومت، اپوزیشن، آئین قانون اصول ضابطے اور اخلاقیات سب ایک دوسرے کے گرد طواف کرتے نظر آتے ہیں اس کے باوجود اگر کوئی اب بھی تبدیلی کی امید لگائے بیٹھا ہے تو اسے دماغی ٹیسٹ کرانے کی ضرورت ہے۔

کیونکہ پاکستانی سیاست کے اکھاڑے میں کھیلی جانے والی نورا کشتی ہمیشہ سے جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ فرسودہ اور استحصالی نظام چوروں، لٹیروں، مفاد پرستوں اور مافیاز کو تحفظ فراہم کرتا رہے گا اور یہ بھیس بدل بدل کر ہر حکومت میں شامل ہوتے رہیں گے یا پھر یہ نورا کشتی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اوپر والے اپنی مرضی کے حکمران اس ملک پر مسلط کرتے رہیں گے اور سیاستدان اپنی طاقت اور قابلیت گروی رکھ کر نورے کا کردار ادا کرتے رہیں گے اور جب تک یہ نورا کشتی جاری ہے اس وقت تک حکومت کے دعوے، اکثریت نہ ہونے کا ناٹک، اختیارات نہ ہونے کا رونا، اپوزیشن کے بیانات، عوام کے لیے ہمدردی، جمہوریت کے لیے قربانیاں، احتساب کا لالی پاپ، اسمبلی کے سیشن، لمبی لمبی تقریریں، جذباتی خطابات، الزامات جوابی الزامات، اتحادیوں کے نخرے، ان ہاؤس تبدیلی، مائنس ون فارمولا، کرسی کے لالے اس سارے کھیل کی اہمیت نورا کشتی سے بڑھ کر نہیں کیونکہ پاکستان کی سیاست کے کھیل میں جو نظر آ رہا ہوتا ہے وہ سچ نہیں ہوتا اور جو سچ ہوتا ہے وہ کبھی نظر نہیں آتا اور پھر عوام اس سچ کو کیسے سمجھ پائیں گے جن کی اپنی حالت اس تماشائی سے بڑھ کر نہیں جسے ٹکٹ لے کر بھی میدان میں داخل نہ ہونے دیا جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments