تعلیم مکاؤ بجٹ


ہماری تلخ حقیقتوں میں سے ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم اپنے ہیروز کو ہیروز نہیں مانتے۔ ان کو اتنی عزت نہیں دیتے۔ ان کو ان کے کام کا کریڈٹ نہیں دیتے۔ وطن عزیز کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے تو ہیروز ہیں ہی مگر ان کے علاوہ بھی ہیں۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان کرکٹ کے ہیرو ہیں۔ ایدھی صاحب ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر روتھ فاؤ ہماری ہیرو ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر ہمارے ہیرو ہیں۔ اردو ادب میں بانو قدسیہ اور اشفاق احمد جیسے ہمارے کئی ہیروز ہیں، مگر ان کو وہ اہمیت حاصل ہی نہیں۔ آخر ان عظیم لوگوں کی کامیابی کا راز کیا ہے؟

قومیں طاقت، اسلحے اور جنگ و جدل سے نہیں بنتی۔ خود وزیراعظم عمران خان، ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں انہیں سمجھا چکے ہیں کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے۔ بلکہ اس سے تو حالات مزید خراب ہو جاتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایک اور مثال یمن کی ہے۔ جہاں جنگ کے باعث قحط اور کورونا وبا کی الگ تباہ کاریوں سے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ قومیں تو تعلیم سے بنتی ہیں۔ اس کی تازہ مثال پاکستان میں بننے والے وینٹیلیٹر ہی کو دیکھ لیجیے۔ پاکستان کو اسی بات کی تو ضرورت ہے، کہ ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے وسائل پر منحصر کریں۔ یہی تو چائنہ کی ترقی کا راز ہے۔ ہر چیز اٹھا کر دیکھ لیں وہ میڈ ان چائنہ نکلتی ہے۔ اسلام بھی ہمیں علم حاصل کرنے پر زور دیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ہر مسلمان (مرد و عورت) پر علم حاصل کرنا فرض ہے“

اس سال کے تعلیمی بجٹ میں تعلیم پر خاطر خواہ رقم مختص نہیں کی گئی۔ جس کا مجھے شدید دکھ ہے۔ اس رنج میں اضافہ تب ہوا، جب حکومت نے تعلیمی بجٹ کے حوالے سے تمام تر سفارشات مسترد کر دی۔ گزشتہ پیش کیے گئے تمام تر تعلیمی بجٹ میں مسلسل کمی کی گئی۔ جس کے باعث جامعات نے فیسوں میں بے دریغ اضافہ کیا۔ جامعہ پشاور میں دس سالوں میں دو سو فیصد، لمز میں ایک سال میں اکتالیس فیصد اور جامعہ قائد میں چھ سال میں سو فیصد فیسوں میں اضافہ ہوا۔ تعلیمی اداروں میں گرتی ہوئی شرح اندراج اس بات کا ثبوت ہے کہ تعلیمی اخراجات غریب کی پہنچ سے دور ہیں۔ تعلیمی اخراجات ہر کسی کے بس کی بات نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ قوموں کا عروج و زوال تعلیم سے وابستہ ہے۔

قائداعظم رحمۃ اللہ نے فرمایا:
”تعلیم ہمارے ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے“

تعلیمی بجٹ میں کمی کے باعث، کئی جامعات کے تعمیراتی کام فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے رک گئے ہیں۔ پاکستان میں مسلسل تعلیمی تنزلی کی وجہ: سیاسی عدم استحکام، ناقص منصوبہ بندی اور انتظامات، معیاری تعلیم کی کمی، ویژن اور قابل تعلیمی رہنماؤں کی کمی وغیرہ شامل ہے۔ لیکن سب سے بنیادی اور اہم مسئلہ ”محدود وسائل“ ہیں۔

حکومت ایچ ای سی کے لیے مطلوبہ بجٹ فراہم کرے، تاکہ جامعات کے رکے ہوئے تعمیراتی کام بحال ہو سکیں۔ دی نیوز انٹرنیشنل کی خبر کے مطابق ایچ ای سی نے اپنی سفارشات میں وفاقی حکومت سے 401 ارب روپے کا مطالبہ کیا۔ جواباً وفاقی حکومت نے ستر ارب کا وعدہ کیا۔ جبکہ وفاقی بجٹ میں ایچ ای سی کے لئے صرف چونسٹھ ارب مختص کیے گئے ہیں۔ کورونا وبا کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ ایسے میں آن لائن کلاسز کا اجرا کیا گیا۔ جس میں طلبا کو کافی مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے بلوچستان کے طلبا کا احتجاج کرنا بھی جرم تصور کیا گیا۔ اور ان کی گرفتاریاں بھی کی گئی۔ بلوچستان میں رہائش پذیر اپنے ایک رفیق سے بات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ بلوچستان کے والدین اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے روک رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ ایسی تعلیم حاصل کرنے کا کیا فائدہ جو طلبا کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام نجی اور سرکاری جامعات کی فیسوں کی خود نگرانی کرے، ملکی اور غیرملکی وظائف دوبارہ شروع کرے، لیپ ٹاپ سکیم شروع کرے اور ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سہولت کو بہتر بنائے۔ تاکہ طلبا تعلیم حاصل کر کے اس ملک کا نام روشن کرسکیں۔ اس زمانے کے نئے بانو قدسیہ، اشفاق احمد، ڈاکٹر عبدالقدیر اور ایدھی بن سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments