بھارت کی طرف سے روسی اسلحہ کی حالیہ خریداری اور امریکی کردار



پاکستان اور امریکہ کا تعلق دھونس، دباؤ اور سازش کا تعلق ہے امریکہ پاکستان سے اپنے سیاسی اور عسکری مطالبات عالمی مالیاتی اداروں سے امداد دلوا کر یا یہ امداد روک کر پورے کروا رہا ہے۔ اس مقصدکے لیے امریکہ نے پاکستان میں اپنے قابل اعتبار ترین افراد کو تعینات اور مامور کروایا ہے اور ان افراد پر امریکی سرپرستی واضح طور پر محسوس کی جا رہی ہے۔ اس ہی ”ٹیم“ کے ذریعے امریکہ پاکستان سے سی پیک پر تیز ترین پیش رفت کو سست کروانے میں کامیاب ہو چکا ہے، بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کو ضم کرنے اور اس کی آئینی حیثیت کو تبدیل کرنے کے اقدامات پر پاکستان کو خاموش رکھنے اور کوئی عملی ردعمل نہ دکھانے پر آمادہ کر چکا ہے، ابھی اسی قسم کے بہت سے پاکستان کے مفادات کے خلاف اقدامات پائپ لائن میں ہیں۔

امریکہ نہ خود اور نہ اپنے کسی اتحادی کو پاکستان کو کسی بھی قسم کا اسلحہ فروخت کرنے کی اجازت دیتا ہے، ماضی قریب میں پاکستان اور ترکی کے درمیان گن شپ ہیلی کاپٹرز کی ڈیل امریکہ کی وجہ سے ہی ناکام ہوئی جب پاکستان کو ان ہیلی کاپٹرز کی سپلائی رکوانے کے لیے امریکہ نے اس ہیلی کوپٹر میں نصب امریکی ساختہ انجن کی سپلائی روک دی۔ پاکستان ایسے حالات میں اسلحہ کی سپلائی کے لیے روس کی طرف جھکاؤ ظاہر کر رہا ہے کیونکہ اس کے پاس روس اور چین کے علاوہ اور کوئی دوسرا آپشن ہی نہیں بچا۔

اسی وجہ سے ماضی قریب میں پاکستان نے اپنی سروس رائفل کے طور پر چینی اے کے 56 کو تبدیل کرنے کے لیے روس سے ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی کے معاہدے کے تحت اے کے 103 کی خرید اور پاکستان میں تیاری کا معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان اور روس کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات کو روکنے کے لیے سٹریٹیجک پارٹنرز امریکہ اور بھارت کی طرف سے روس سے کچھ اسلحہ کی خریداری ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت ہے جس کا مقصد روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات میں رخنہ ڈالنا ہے کیونکہ امریکہ یا کسی مغربی طاقت کی طرف سے پاکستان کو فورتھ جنریشن یا ففتھ جنریشن کے ہوائی جہاز بیچنے سے انکار پر اب پاکستان اور روس کے درمیان ایس یو 35 ایئر کرافٹ کی سپلائی کے لیے بات چیت چل رہی ہے۔

اور منطقی طور پر بھارت اور امریکہ کو ان سودوں پر تشویش نظر آ رہی ہے۔ تو امریکہ ایک طرف تو بھارت کو اسرائیل سے ہائی ٹیک ہتھیار حاصل کرنے میں مدد کر رہا ہے، اور خود بھی دفاعی تنصیبات کے مشترکہ استعمال کے منصوبے کی آڑ میں بھارت کے فوجی اڈوں اور اہم تنصیبات پر وافر مقدار میں جدید امریکی ہتھیاروں کے ڈھیر لگا دیے ہیں۔ اس لیے روس سے کچھ اسلحہ کی سپلائی اور امریکہ کا بھارت کو روسی ایس 400 فضائی نظام کی خریداری کے لیے استثناء دینا، اس سارے منظر نامے پر خصوصی نقطہ نظر سے توجہ کا متقاضی ہے۔

بدقسمتی سے ہماری طرف سے ماضی میں امریکی روئیے میں تبدیلی کے واضح اشاروں کے باوجود مسلسل یہ کوشش کی جاتی رہی ہے کہ کسی طرح امریکہ ہمیں کوئی بھی چاہے وہ ازکار رفتہ قسم کے ہتھیار ہی کیوں نہ ہوں ہمیں سپلائی کرنے کی حامی بھر لے۔ جب امریکی فوج نے افغانستان میں طالبان کے خلاف استعمال شدہ بکتر بند جیپوں کی سپلائی پاکستان کو باقیمت دینی تھی تو امریکی سینٹ میں باقاعدہ بیان دیا گیا کہ ”یہ یقینی بنا لیا گیا ہے کہ امریکہ کی طرف سے پاکستان کو دیا گیا کوئی ہتھیار بھارت کے خلاف استعمال نہ ہونے پاے“ اس بات کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ بالا کوٹ حملہ کے بعد پاک بھارت کے درمیان ہونے والی فضائی جھڑپوں کے بعد امریکہ نے عملی طور پر ہمارے ایئر پورٹس پر آ کر ہمارے ایف سولہ طیاروں کو گنا تھا اور یہ تصدیق سرعام دی تھی کہ یہ طیارے پورے ہیں ان کو بھارت کے ساتھ جھڑپ میں بھارتی مقبوضہ کشمیر کے علاقے میں استعمال نہیں کیا گیا، اور ہمارے ہاں ”خوشیاں“ منائی گئیں کہ دیکھا بھارت کا ہمارا ایف سولہ مار گرانے کا دعویٰ جھوٹا ہے لیکن اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا کہ جب یہ طیارے ہم نے امریکہ سے قیمت دے کر خریدے تھے تو امریکہ کس ”کپیسٹی“ میں یہاں آ کر ہمارے طیارے گنتا ہے!

امریکہ کے ساتھ ہمارے دیرینہ تعلقات نے اب تک ہماری ذہنی ساخت اور سوچ تک پر گہرے اثرات ڈالے ہیں برسبیل تزکرہ چند برس قبل ہم کو روسی ٹرانسپورٹ ملٹی رول ہیلی کوپٹر ایم آئی 17 خریدنے تھے تو ان کی فروخت پر روس کی رضامندی کے باوجود ہم نے ان کی خریداری کے لیے ایک ”امریکی کمپنی“ کو آرڈر دیا جس نے تھرڈ پارٹی سے یہ ہیلی کوپٹرز خرید کر ہمیں سپلائی کئیے۔ آج کے حالات میں خاص طور پر چین بھارت کے درمیان لداخ کے علاقے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بھارت کی طرف سے بھاری ہتھیاروں کی اس علاقے کی طرف نقل و حرکت اس خطے میں ”، یاد رہے کہ جب ہم اس خطے میں کہتے ہیں تو ہمیں ملحقہ علاقوں کو بھی ذہن اور نظر میں رکھنا پڑتا ہے“ بھارت کی طرف سے امریکہ کو کسی طرح براہ راست یا بالواستہ طور پر ملوث کرنے کی خطرناک کوشش ہے جس کا بروقت ادراک کرتے ہوئے چین نے بھی سی پیک روٹ پر مشتمل ہمارے شمالی علاقہ جات پر بھی ہم سے مل کر ”توجہ“ دی ہے جو کہ ان حالات کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی مکمل توجہ اور نظر اپنے روایتی دشمن بھارت کی سازشوں اور علانیہ یا خفیہ عسکری منصوبوں پر مرکوز رکھیں، تاکہ ہمیں مکار دشمن کی طرف سے کسی سرپرائز کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔ ( ظفر محمود وانی )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments