بلوچستان کے عوام کی آواز سنی جائے


چند دن پہلے ایک خبر نظروں سے گزری اور میں کئی دن تک اس کے اثر سے با ہر نہ نکل سکی۔

”بلوچستان کی ایک لڑکی نے بھائی کی طویل گمشدگی سے دلبرداشتہ ہو کے خود کشی کر لی“ خوبصورت اور پیاری لڑکی درد کی تصویر بنی تھی۔ سوچ رہی ہوں کہ اس خود کشی کا محرک کیا صرف بھائی کی گمشدگی تھا؟

ایک انسان کب اس نہج پہ آتا ہے کہ اسے زندگی سے زیادہ موت پیاری لگنے لگتی ہے؟

مایوسی انتہا پہ ہو، ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آئے، ہاتھ پاؤں بندھے محسوس ہوں اور نجات کی کوئی راہ نہ ہو پھر شاید زندگی سے موت تک کا سفر لمحوں میں طے ہو جاتا ہے۔

برسوں پہلے کا پڑھا ایک شعر یاد آ رہا ہے
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

یہ حادثہ بھی ایک دم نہیں ہوا۔ اس کو وقوع پذیر ہونے میں 73 سال لگے ہیں۔ 1947 سے لے کے آج تک بلوچستان کے ساتھ ان یتیموں کا سا سلوک کیا جا رہا ہے جن کی جائیداد رشتہ دار ہتھیا لیتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔ لولی پاپ دے کے ساری زندگی بہلائے رکھتے ہیں۔

بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان میں کوئلہ، تانبا، سونا، خام لوہا اور ماربل (اونیکس) ماربل (آرڈینری) کرومائیٹ، بیرائیٹ، لائم اسٹون، گرینائیٹ سمیت 20 دیگر قیمتی معدنیات کے علاوہ تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر موجود ہیں۔ علاوہ ازیں، سوئی کے علاوہ لوٹی کے مقام سے بھی گیس حاصل کی جارہی ہے۔

رپورٹس کے مطابق، دنیا میں سونے اور چاندی کا دوسرا بڑا ذخیرہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں ریکوڈک میں پایا جاتا ہے، جب کہ چاغی کے بہ ظاہر خشک اور سنگلاخ پہاڑوں میں ایک کروڑ 23 لاکھ ٹن تانبے اور دو کروڑ 9 لاکھ اونس سونے کے ذخائر موجود ہیں۔ ماہرین کے مطابق، ریکوڈک میں 58 فی صد تانبے اور 28 فی صد سونے کے ذخائر کی کل مالیت کا اندازہ لگ بھگ 65 ارب ڈالر لگایا گیا ہے۔

ان سب وسائل کے ہوتے ہوئے آج بلوچستان کس مقام پر ہے؟
عا لمی ادارے کے حالیہ سروے کے کے مطابق بلوچستان دنیا کا سب سے پسماندہ اور غریب ترین علاقہ ہے۔

بدقسمتی سے گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبہ سے نکلنے والے وسائل سے وفاق اور کمپنیاں ہی فائدہ اٹھارہی ہیں جبکہ بلوچستان کو اس کے اپنے ہی خزانوں سے محروم رکھا گیا اور رکھا جا رہا ہے۔

ذرا یہ منظر تصور میں لائیے۔ آپ کے گھر کے سامنے سے گیس کے پائپ گزر رہے ہیں اور آپ کو چولہا جلانے کے لئے لکڑیوں کا سہارا لینا پڑے۔ کیا حالت ہو گی آپ کی؟

جو چراغ دوسروں کے لئے روشنی کا باعث ہے وہ خود اندھیرے کا شکار ہے۔ لیکن آخر کب تک؟
جب حق دار کو اس کا حق نہ دیا جائے، استحصال در استحصال کیا جائے تو قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔
شیخ سعدی کہتے ہیں کہ
نبینی کہ چون گربہ عاجز شود
بر آرد بہ چنگال چشم پلنگ
(کیا تو نہیں دیکھتا کہ بلی جب عاجز ہوتی ہے تو وہ پنجے سے چیتے کی آنکھیں نکال لیتی ہے )

گو کہ بلوچستان میں شر پسند عناصر بھی موجود ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک ان مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن ان چند عناصر کی وجہ سے تمام لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، باقی لوگوں کا استحصال نہیں کیا جا سکتا۔

بلوچستان کے وسائل پر سب سے پہلا حق بلوچستان کا ہے۔ وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ بلوچستان کے وسائل کو بلوچستان کی فلاح کے لئے استعمال کریں تا کہ بلوچستان کے لوگ بھی زندگی کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments