تبدیلی نہیں آئی


یہ دو ہزار بیس ہے۔ میں پینتیس برس کا ہوچکا ہوں۔ پاکستانیوں کی متوقع عمر کے حساب سے میری آدھی سے زیادہ زندگی بیت چکی۔ کم وبیش پاکستانی کی آدھی بنتی بگڑتی تاریخ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے۔ جمہوری حکومتوں کا ٹوٹنا اور عدلیہ سے بحال ہونا، چھانگا مانگا کی سیاست، تحریک نجات، ایٹمی دھماکے، عدلیہ پر حملہ، بارہ اکتوبر کو لگنے والا مارشل لاء، 9 / 11، دہشت گردی کے خلاف جنگ، کشمیر میں آیا زلزلہ، لال مسجد میں جلے دوپٹے، نوابزادہ بگٹی کی تابوت بند لاش، مشرق کی بیٹی کی شہادت، عدلیہ بحالی تحریک، میمو گیٹ، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کا خاتمہ، دو ہزار دس میں تحریک انصاف کا لاہور جلسہ، آزادی مارچ، پانامہ اسکینڈل، دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات، سانحہ کشمیر اور اب یہ عالمی وبا۔ ان تمام سالوں میں شاید ہئی کوئی لمحہ آیا ہوں جب لگا کہ اس ملک میں کچھ بدلا ہے یا ہم درست سمت میں جا رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسی دوران دنیا مکمل طور پر بدل چکی ہے اور ہم ہیں کہ اپنی زنجیریں اتار نہیں پا رہے۔ دنیا ایک اور عالمی تبدیلی کے دروازے پر کھڑی ہے۔ فائیو جی کے لانچ ہوتے ہی نیٹورک سوسائٹی کا خواب مکمل طور پر شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔ پب جی پر پابندی کا سنا تو مجھے اپنے لڑکپن کے دن یاد آگئے۔ ۔ ۔ لاہور میں انٹرنیٹ کیفیز کا رجحان چل نکلا تھا۔ کیفے میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کو ٹیڑھی نظروں سے دیکھا جاتا اور آوارہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ تھما دیا جاتا۔ یار لوگوں نے اس پر مار شار بھی کھائی۔ آج پب جی کھیلنے والوں کی شامت آئیہے۔

سیاسی کلچر بھی تقریباً ویسا ہی ہے۔ نوے کی دہائی میں لوہا چور کے طعنے کسے جاتے۔ آج اس کی جگہ یوتھیا اور پٹواری کے طعنے کسے جاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ تب طعنے کسنے والے زیادہ تر ان پڑھ لوگ ہوتے تھے اور انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ آج یہ کام آپ کا پڑھا لکھا طبقہ کرتا ہے اور طعنہ زنی کرنے پر فخر بھی محسوس کرتا ہے۔ حکومتوں کے بنائے جانے میں جو اصول نوے کی دہائی میں کار فرما تھے۔ وہ اصول آج بھی پوری طرح نافذ العمل ہیں۔ دو چار چہرے بدلے ہیں اور باقی کردار وہی ہیں۔

مذہب کے نام پر سیاست پہلے بھی خوب ہوتی تھی اور آج بھی زور و شور سے جاری ہے۔ جس کا جب دل کرتا ہے وہ مذہب کارڈ استعمال کرتا ہے۔ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کو ہی دیکھ لیں۔ مشال خان کا والد خیبر پختنخواہ میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس جیسے کچھ اور ستاے ہوئے اسلام آباد کی سڑکوں پر۔ اقلیتی براداری کے لوگ پہلے بھی مرتے تھے اور اب بھی مرتے ہیں۔ شہباز بھٹی کا قتل ہو یا ندیم جوزف کا، کسی کے کان پر کب جوں رینگتی ہے؟

البتہ جارج فلایڈ کا دکھ سانجھا ہے۔ امریکی معاشرے کی منافقت کھل کر سامنے آ گی ہے۔ ۔ ۔ تشدد کا جو بیج ہم نے 1980 کی دہائی میں بویا وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔ اختلاف راے پر آپ کی جان بھی جا سکتی ہے۔ دنیا میں جینے کا ایک ہی نظریہ ہے اور وہ نظریہ آپ کے دوستوں کا ہے۔ ۔ ۔ نوے کی دہائی میں نوجوانوں کی سنی نہیں جاتی تھی اور آج کل وہ کسی کی نہیں سن رہے۔ پہلے جو باتیں سرگوشیوں میں ہوتی تھیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بدولت اب وہ ہر کوئی دیکھ سکتا ہے اور دوسروں کو بھی دکھا سکتا ہے۔

رازداروں کے لیے بھرم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ تعلیم ہو یا صحت کا میدان، خزانے پر بوجھ ہی سمجھے جاتے ہیں۔ فنون لطیفہ کا میدان خالی ہوتا جا رہا ہے لیکن افسر شاہی اسی آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ آج بھی ریلوے اور پی آئی اے مسافروں کی ناک میں دم کیے رکھتی ہیں۔ کیا یہ سب کچھ اگلے پینتیس برس بھی یونہی رہے گا؟ یونہی رہا تو پھر ہمارا تذکرہ کہیں موجود نا ہوگا۔ اب تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments