شام کا ایلان کردی اور کشمیر کا ایاد


یہ 2015 کی بات ہے۔ جب یورپی ساحلوں پر ایک شامی بچے کی تیرتی ہوئی لاش ملی۔ یہ تھا ایلان کردی۔ یہ بچہ سمیت کئی اور لوگوں کے ساتھ مر چکا تھا جو کہ یورپ کی جانب ہجرت پہ نکل پڑے تھے۔ شام میں چونکہ دنیا کی بڑی طاقتیں جنگ کی ہولی کھیل رہے تھے سو لوگ اپنے وطن کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ لیکن موت کے منہ سے نکلنا آسان نہیں تھا، ایلان کردی، سمیت دوسرے لوگوں کو موت نگل گئی۔ اس بچے کی تصویر سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے پوری مغرب اور مشرق کی خبروں میں چھا گئی۔

اس کے بعد یورپ کے نزدیکی ممالک، خصوصاً جرمنی، سے عام لوگ نکل کر یونان کی ساحلوں کی جانب نکل پڑے۔ وہاں آنے والے مہاجرین کو مدد فراہم کی اور اپنے ساتھ لانے کی تگ و دو میں مصروف ہوئے۔ ایک بچے کی ناگہانی موت نے پورے یورپ کو متحرک کیا۔ یہ بچہ خوش قسمت بھی تھا اور بد قسمت بھی۔ خوش قسمت اس طرح کے اس کے تصویر نے پورے یورپ کے ضمیر کو جھنجھوڑا۔ عام لوگ اپنے حکمرانوں سے ان کے پالیسیز کے متعلق سوالات کرنے لگے۔ ان کو نظرثانی کرنے پر مجبور کیا۔ اور بد قسمت اس طرح کے امن و چین کی تلاش میں زندگی ہی ہار بیٹھا۔

گزشتہ روز کشمیر سے ایک تصویر سوشل میڈیا پر ہر جانب دکھائی دی۔ جس میں ایک بچہ اپنے نانا، مقتول نانا، کے سینے پر بیٹھا ہے۔ اس بچے کے سامنے اس کے پیارے کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا تھا۔ اس بچے کی کیفیت کیا ہو گی؟ ، کس خوف و ہراس کی کیفیت سے گزر رہا ہو گا، یا اس کا مستقبل کیا ہوگا، اس پر بات کرنے کی ہمت کوئی کہاں سے لائے۔ لیکن یہ تصویر ہندوستان اور وہاں کی سول سوسائٹی کے لئے ایک لمحہ فکریہ ضرور ہونی چاہیے کہ نفرت انگیزی اور انسانی استحصال کے راستے پر یہ ریاست کہاں سے کہاں نکل چکی ہے۔ پوری جنوبی ایشیاء کے سوچنے والوں کے لئے کم سے کم شرمندگی کا باعث بننا چاہیے۔ آخر ہم کس خطے میں، کس وقت میں جی رہے ہیں۔ کہ انسانی جسم کی قیمت کس حد تک گر چکی ہے۔

جو قتل و غارت اور خون کشمیر میں بہہ چکا ہے، اس کے متعلق ہم صرف تجزیہ اور سوچ و بچار کر سکتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے میں وہاں پر نہیں گیا ہوں۔ اور جس نے وہاں کے حالات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں، اس کے نظریات شاید میرے سے سو گنا سخت اور کڑوے ہوں۔ ہر مسئلے کا حل بات چیت میں موجود ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں سکاٹ لینڈ اور برطانیہ کی مثال ہمارے پاس موجود ہے۔ نہ کوئی جنگ، نہ بندوق کا استعمال، نہ گولی، خون کا ایک قطرہ بھی نہیں بہا۔

لوگوں سے ان کی رائے طلب کرلی گئی۔ انھوں نے آزاد سکاٹ لینڈ پر متحدہ برطانیہ و سکاٹ لینڈ کو فوقیت دی۔ اور یوں معاملہ رفع دفع کر دیا۔ بریگزٹ ڈیل میں برطانیہ یورپی یونین سے ووٹ اور ریفرنڈم کے ذریعے سے نکل گیا۔ یہ ایسی مثالیں ہیں جن میں پورے ملک کے مستقبل کا تعین کرنا تھا۔ اور یہاں مشرق، بالخصوص جنوبی ایشیاء میں انتہائی چھوٹے سے رقبے کی خاطر ہزاروں لوگوں کو مار دیا جاتا ہے۔ لوگوں کو زبردستی سے دبایا جاتا ہے۔ اغوا کر کے خوف پھیلایا جاتا ہے۔

مشرقی معاشرے کے باشندے ہمیشہ یہ بات کرتے ہیں کہ مغرب ہم سے آگے اور ترقی یافتہ ہے۔ اور ارمان کرتے ہیں کہ مغرب جیسا معاشرہ ہم بھی قائم کرے۔ لیکن یہ صرف خواہش ہے۔ اور تب تک خواہش رہے گی جب تک مغرب کے اصولوں کو نہیں اپناتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments