ہمارے نسیم صاحب: شفاف پانیوں کے شناور کی کہانی


بہت دن سے آپ کو اجلے لباس میں چھپی گندگی اور اونچے عہدوں کی اوٹ میں ڈھانپے ہوئے نیچ پن کے قصے سنا رہا ہوں۔ آج ایک غریب اور سچ کے نیک آدمی کا قصہ سنیے جو مچھلی کے جائے کو بھی تیرنا سکھا سکتا تھا مگر صرف شفاف پانیوں کا شناور تھا۔ چھل کپٹ کی آلودگی میں جس کا دم گھٹتا تھا۔ جو ایک روز بغیر نشان چھوڑے کراچی کی ایک سڑک پر دنیا سے یوں چلا گیا جیسے کاتک میں ابتدائی راتوں کا چاند بس ایک جھلک ہی کا روادار ہوتا ہے۔

نسیم صاحب میرے پیراکی کے استاد تھے۔ کینٹ ریلوے اسٹیشن کراچی کے نزدیک ہالز انسٹیوٹ کے ریلوے کلب میں مجھے اور دیگر افراد کو بے حد معمولی معاوضے پر پیراکی سکھاتے تھے۔ ریلوے کا یہ شاہانہ کلب جنرل مشرف کے دور میں کسی پرائیوٹ پارٹی کو ایک نجی ہیلتھ کلب کے لیے دے دیا گیا۔ اب بھی یہ اس کاروباری ادارے کی تجوری بھرے جا رہا ہے۔

کراچی کینٹ اسٹیشن سے ملحق انگریزوں کا قائم کردہ یہ کلب بھی کراچی میں تعمیر ہونے والی دیگر عمارات کی مانند اپنے طرز تعمیر میں گوتھک اور بہت کشادہ بنایا گیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کی عمارت کو چھوڑ کر انگریزوں نے کراچی میں جتنی بھی عمارات تعمیر کرائیں ان میں ایک بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ وہ کشادگی، پختگی اور شان و شوکت میں ایک اداسی اور سنجیدگی کی مظہر ہوں اس کے علاوہ ان کا ڈیزائن ہر طور برطانوی گوتھک طرز کا ہو۔

فوجی سربراہ ہونے اور دہلی کے مہاجر ہونے کے ناطے ہمارا خیال تھا کہ جنرل پرویز مشرف تاریخ کا بہتر ادراک رکھتے ہوں مگر اہلیان اقتدار کا پاکستان میں مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بہت سے ناکام رشتہ دار دوست اور کاسہ لیس ایسے ہی ہوتے ہیں کہ سرکار کا مال ان کی سرپرستی میں بہت بے رحمی سے لوٹنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اتنی عمدہ سرکاری عمارت ایک لاہور کے ایک پرائیوٹ ہیلتھ کلب کو یوں کوڑیوں کے مول منتقل ہو جانے کا ریلوے کے بڑے افسران کو بہت قلق تھا۔

ہالز انسٹیوٹ، کراچی

نسیم صاحب کا تعلق بہار شریف کے قصبے مدھوبانی سے تھا۔ وہاں سے والدین نے مشرقی پاکستان اور پھر سقوط ڈھاکہ کے بعد مغربی پاکستان کی راہ لی۔ نسیم صاحب لائنر ایریا میں کہیں رہتے تھے۔ پیراکی کی مہارت انہوں نے مشرقی پاکستان میں حاصل کی۔ وہاں وہ چٹاگانگ پورٹ ٹرسٹ میں ملازم تھے۔ یہاں بھی انہیں پورٹ ٹرسٹ میں چھوٹی موٹی نوکری مل بھی گئی تھی مگر چونکہ طبیعت ہمہ وقت زود رنج اور خود داری سے لدی پھندی رہتی تھی لہذا زیادہ بن نہ پائی اور جلد ہی ملازمت سے باہر ہوگئے۔

امریکہ کی پین اسٹیٹ یونی ورسٹی میں ہماری سوئمنگ کی استاد ان کی اولمپک ٹیم کی کوچ چیکی نیلسن تھی۔ اسی نے ہمارا داخلہ سوئمنگ فار بگنرز سے Adaptive Swimming کی کلاس میں کرادیا تھا۔ واپس آئے تو ان کی ہدایت کی بموجب اسی سلسلہ پیراکی میں تربیت کی مزید ہوس تھی۔ کھوج لگائی تو نسیم صاحب سے ہماری سے ملاقات ہوئی وہ وہاں ریلوے کلب کی جانب سے سوئمنگ پول پر متعین تھے۔

یہ کہنا تو درست نہ ہوگا کہ وہ پینتالیس سال کی عمر میں بھی ذرا آبنوسی بدن والے اولمپک میں اودھم مچانے والے امریکی پیراک مائیکل فیلف لگتے تھے۔ پانی میں وہ مائیکل فیلف لگتے تو پانی کے باہر ان کا تراشا ہوا بدن، چال میں سیاہ فام رے پرز Rappers والا مستانہ لوچ یوں لگتا تھا کہ امریکہ کے مقتول ریپر Tupac Shakur ہوں۔ مزاج میں دھیما پن تھا، صوفیانہ بے نیازی بھی ہر طور جھلکتی تھی۔ طالب علموں پر جان نچھاور کرنے والے اوصاف کی وجہ سے وہ اپنے شاگردوں میں بہت مقبول تھے۔

مارچ کا مہینہ شروع ہوتا تو وہ بہت خوش ہوتے۔ دوپہر سے رات گئے وہ کلب کے پول پر تربیت دیتے اور دن میں وہ چند ایک بیگمات کو پرائیوٹ ٹیوشنز دینے چلے جاتے تھے۔ اصل میں ان کو بہتر مشاہرہ انہیں گھریلو سوئمنگ پول والوں سے ملتا تھا۔ ڈیفنس کے وسیع و عریض رقبے میں بروقت آمد و رفت کا سہارا ایک پرانی یاماہا۔ 80 موٹر سائیکل تھی۔ مارچ سے اکتوبر تک اس آمدنی سے ہی ان کا گزارا ہوتا تھا۔ ایک بیوی، بیٹا اور بیٹی تھے۔ بچے پڑھتے تھے۔ باقی پانچ ماہ وہ کیا کرتے تھے۔ کچھ نہیں۔ ہم نے ان کے بدن پر ایک سرخ رنگ کی ٹی شرٹ اور چیک کی ایک شرٹ، ایک سیاہ پتلون اور بلیو جینز کے علاوہ کوئی پانچواں کپڑا نہیں دیکھا۔

چٹاگانگ: اس طرف چشمہ رواں تھا پہلے

موٹر سائیکل خراب ہوجائے تو ہم ہی بنوا کر دیتے تھے۔ جہاں سے سہولت ہو۔ لیاقت آباد میں ہماری بہت دہشت تھی۔ علاقے میں کئی ایسے افراد ہوتے تھے جو قربت شاہ، امن کمیٹوں میں شامل اور علاقے میں معتبر سمجھا جانے کی وجہ سے اس طرح کی خدمات بطریق احسن سرانجام دیتے تھے۔ ایسا جب کبھی مرحلہ ہوتا اور ان کی موٹر سائیکل بن جاتی تو نسیم صاحب سر جھکا کر بہت خجالت سے کہا کرتے تھے۔ سر میں آپ کو بہت تنگ کرتا ہوں اللہ نے چاہا آئندہ اس کا موقع نہیں دوں گا

ایک دن بطور ایس ڈی ایم کے سٹی کورٹ میں انکوائری جاری تھی۔ انکوائیر ی کا نشانہ کراچی کے ایک بڑے رہزن ڈی ایس پی تھے۔ کسی ایسے خرانٹ سیاست دان سے سینگ لڑا بیٹھے تھے جو اُن کی نوکری اور جان دونوں ہی کا درپے تھا۔ ان کی آمد سے پہلے مجھے میرے مشفق و مہرباں آئی جی افضل شگری صاحب کا فون آگیا تھا۔ وہ مجھے سمجھا رہے تھے کہ جس سیاست دان نے یہ سارا اودھم مچا کر وزیر اعظم سے انکوائیری آرڈر کرائی ہے۔ وہ علاقے میں اپنی دہشت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ تمہارا نام اس بڑی میٹنگ میں چیف سیکرٹری کو میں نے ہوم سیکرٹری نے اور بشیر موریانی نے بطور انکوائیری افسر تجویز کیا تھا۔۔ عدالت کھلنے سے بھی پہلے یہ ہی ڈی ایس پی برگ لرزاں بنے میرے ریڈر کے پاس بیٹھے تھے۔ ہماری حجاج بن یوسف والی خون آشام اور نو نان سینس طبعیت کی شہرت انہیں اپنے بہنوئی افسر سلطان مسعود سے مل چکی تھی۔ جو ہمارے ماتحت رہے تھے۔

اس اثنا میں ہمارا نائب قاصد جسے عدالتی نظام میں نائیک کہا جاتا ہے کمرے میں لجاتا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ ایک صاحب ہیں، نسیم نام بتاتے ہیں بہت پریشان لگتے ہیں۔ جلد ملنا چاہتے ہیں۔

استاد محترم آئے تو حلیہ بیرنگ تھا، گال ایک طرف سے سوجا ہوا تھا۔ آنکھ بھی کچھ بند سی ہوئی تھی۔ بتا رہے تھے کہ سولجر بازار کے علاقے میں تین لڑکوں نے پستول کا دستہ مار کر ان سے موٹر سائیکل چھین لی ہے۔ چہرہ اسی لیے سوجا ہوا ہے۔ کل سے وہ کافی تھانوں کا چکر لگا چکے ہیں۔ کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔

سٹی کورٹ میں نظارت کا محکمہ ان دنوں ہمارے دوست انصاری کے پاس تھا۔ اس محکمہ میں پولیس کی جانب سے برآمد کردہ مال مسروقہ و گم شدہ رکھا جاتا تھا۔ مقدموں کے فیصلے پاکستان میں کس نے دیکھے ہیں۔ کوئی یہودی فرعون کے زمانے میں مقدمہ درج کراتا تو اس کی اپیل اب بھی کسی بڑی عدالت میں التوا اور بے انصافی کے کیڑوں کی خوراک بنی ہوتی۔ جب تک مقدمے کا فیصلہ ہو،  یہاں جمع شدہ مال میں سے حاصل کی ہوئی مال مقدمہ پر ہاتھ صاف کرکے سستے داموں کاروں اور موٹر سائیکلوں کا مالک بننا بہت آسان تھا۔ بڑے افسر، پارٹی ورکر، بدمعاش سب ہی اسی چشمہ فیض سے سیراب ہوتے تھے۔

نظارت میں مال مسروقہ کی بازیابی کے حوالے سے چند برسوں سے لوٹ مچی ہوئی تھی۔ کوئی چوری کی گاڑی لے اڑتا تھا تو کوئی موٹر بائیک۔ ہر بڑے آدمی کو کم داموں اپنے ملازمین کے لیے موٹر سائیکل کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے یہی آسان راستہ دکھائی دیتا تھا۔ حلوائی کی دکان پر دادا کی فاتحہ دلانا یوں بھی ہمارا محبوب مشغلہ ہے۔ آٹھ سو، نو سو روپے کے عوض ملازم موٹر سائیکل کا مالک بن جاتا تھا۔ سپر داری کے لیے ضابطہ فوجداری کا قانون 516A  بلا دریغ استعمال ہوتا تھا۔ نظارت اور عدالت کو یہ لکھ کر دینا پڑتا تھا کہ مطلوبہ کار یا سواری درخواست دہندہ کو سپردگی نامے پر دے دی جائے۔ فیصلے کی صورت میں عدالت کا حکم ہر حال میں لاگو ہوگا۔

عدالت کو حکم دینے کی کب جلدی تھی کہ اب ہوتی۔ یوں چوری کا مال قانونی طور پر باپ کا مال بن جاتا تھا۔ انصاری کو چند دن پہلے ہی صدر غلام اسحق صاحب کے پرنسپل سیکرٹری کا خود فون آیا تھا کہ میرے دو عدد رشتہ داروں کو سستی قیمت پر موٹر سائیکل درکار ہیں۔ اس کی جانب سے انکار ہوا تو بہت ناراض ہوئے۔ انصاری صاحب کو تبدیل کرا کے اپنے رشتہ داروں کی دل جوئی کی۔ موٹر سائیکلیں دلوا کر ہی دم لیا تھا۔ بات ٹھنڈی ہوئی تو ڈی سی صاحب نے اپنی نوکری بچانے کے لیے رقم بھی اسلحہ برانچ کے کلرک سے ادا کرائی۔ اصلی تے وڈے سی ایس پی سیکرٹری اس پر ہی نازاں رہے۔

ایک پرانی یاماہا موٹر بائیک جس کی قیمت بمشکل پانچ ہزار ہوگی اس کے لیے ہمارے استاد بہت پریشان تھے۔ وہ کہہ رہے تھے مارچ ختم ہورہا ہے۔ میری ٹیوشنوں کا کیا ہوگا۔ میرا اور بچوں کا گزارا کیسے ہوگا۔ مجھے میری سائیکل تلاش کروا دیں۔

پیش کار چشتی نے بالآخر تجویز دی کہ وہ نسیم صاحب کو لے کر ڈی ایس پی صاحب کے ساتھ پانچ سو پچپن چلے جاتے ہیں (صدر میں سی آئی اے کا رسوائے زمانہ دفتر)۔ ہمارے جذبات اور استاد کی دل جوئی کی خاطر ڈی ایس پی صاحب نے دو گھنٹے تک وائرلیس پر موٹر سائیکل کی گمشدگی اور بازیابی کے بارے میں مختلف تھانوں کا ناک میں دم کیے رکھا مگر کامیابی نہ ہوئی۔

مسئلے کے فوری حل کے لیے تین عدد بہترین موٹر سائیکلیں انہوں نے سپاہیوں کے ساتھ ہماری کورٹ بھجوائیں کہ اپنی سواری کی دستیابی تک نسیم صاحب جو پسند کریں وہ ان میں سے رکھ لیں۔ یہ سب کی سب نسیم صاحب کی موٹر سائیکل سے ہزار گنا نئی اور اچھی تھیں۔ ایک تو ایسا لگتا تھا بمشکل دو ماہ پرانی تھی۔ ڈی ایس پی کا اپنا بندہ خاص چلا رہا تھا۔ ڈی ایس پی صاحب نے پیش کار کو جتا دیا کہ وہ نسیم صاحب کا اندراج سرکار کے مخبر خاص کے طور پر کار سرکار کی بجاآوری میں کردیتے ہیں۔ موٹر سائیکل دوڑائیں کیوں کہ یہ ایک ڈکیتی کرتے ہوئے ڈاکو کے پاس سے ملی تھی۔ اس کی جعلی نمبر پلیٹ تھی۔ ڈاکو بھی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ یہ موٹر سائکل سی آئی اے کا کوئی سپاہی چلا رہا تھا۔ نسیم صاحب کے محتاط رویوں کو پیش نظر رکھ کے سپاہی کو بہلا پھسلا لیا کہ یہ نہ سہی کل سی آئی اے کے مال خانے سے اسے دوسری عمدہ موٹر سائیکل عطا کردیں گے۔ تیسری موٹر سائیکل کو ہم نے قانونی موشگافیوں کے حساب سے SAFE جان کر بہت ضد کی کہ نسیم صاحب رکھ لیں۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ نظارت کے بارے میں ہم سے تفصیلی معلومات حاصل کرتے رہے۔

ان کے چہرے پر مال مسروقہ اور اس کی بندر بانٹ کے حوالے سے چہرے پر ناخوشگوار تاثرات آئے۔ فرمانے لگے ”صاحب یہ تو میرے جیسے غریبوں کا مال ہوا جو میں اور دوسرے کھا رہے ہیں۔ نہیں صاحب میں چوری کا یا گم شدہ مال کو نہیں لوں گا۔ موٹر سائیکل شیطانی چرخہ ہے زندگی موت کا کیا بھروسہ اس کو چلاتے ہوئے موت آجائے تو میں اللہ کے پاس چوری کی سواری پر سوار ہوکر نہیں جاﺅں گا۔ آپ کوشش کرکے میری موٹر سائیکل ڈھونڈ دیں۔

دو ہفتے بعد کہیں سے اطلاع آئی تو ہم اور ہمارا پیش کار بھاگم بھاگ جناح ہسپتال کے مردہ خانے میں پہنچے مردہ خانے کے باہر کوئی نہ تھا۔ ذرا دیر میں کوئی جمعدار سرکاری گاڑی دیکھ کر آ گیا، ہاتھ میں چائے کا گلاس پکڑے اور تھیلی میں کیک پیس لیے وہ بتا رہا تھا کہ گیارہ بجے وہ کسی کے ساتھ وہ گھر سے اسی کی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر نکلے تھے۔ منی بس نے ٹکر ماردی۔ اس غریب کا موٹر سائیکل اور وہ خود تو بالکل محفوظ رہے البتہ پچھلی نشست پر براجمان نسیم صاحب کو منی بس کے دروازے سے لگا لوہے کا مضبوط ڈنڈا سر کے پیچھے اس زور سے لگا کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔

ہمیں ان کی شیطانی چرخہ ہے زندگی موت کا کیا بھروسہ والی بات اور ان کے اخلاق کے اعلی ترین معیار موازنہ اصلی تے وڈے سی ایس پی۔ ملک کے طاقتور اور چالباز ترین صدر کے شاطر آسودہ حال پرنسپل سیکرٹری سے کر کے مردہ خانے میں ایک ابکائی سی آئی۔

مردہ خانہ کی تازہ دھلی سنگ مرمر کی سلیب پر ان کا تراشا ہوا بدن ایک چادر سے ڈھانپ ہوا رکھا تھا اور چہرہ ایسا جیسے گوتم بدھ گیان سمیٹے لیٹے ہوں۔ ہمیں بہت تاسف ہوا کاش ہمارے استاد محترم اتنی ضد نہ کرتے۔ موٹر سائیکل لے لیتے۔ جان بچ جاتی۔ دل نے کہا نہیں۔ وہ بلند اقدار کے انسان تھے جانتے تھے جان آج نہیں کل تو جانی ہے،چوری کی سواری پر آسمانوں میں کیوں جائے۔ ہم نے چند لمحات کی خاموشی میں اشکبار فاتحہ پڑھی۔

دعا کی کہ ان کی روح اپنے اعلی اوصاف کے باعث جنت الفردوس میں رضائے الہی سے ضرور جگہ پائے۔ جانے کیوں ہمیں آج بھی یہ خوش گمانی ہے کہ وہ چال میں سیاہ فام رے پرز Rappers والے مستانہ لوچ سے لہراتے جھومتے، اپنے تنومند پٹھوں اور بازو کی مچھلیاں چمکاتے کندھے پر صوفیانہ بے نیازی کا اسٹریو لاد کر جب جنت کے دروازے پر پہنچیں تو جنت کا درباں فرشتہ رضوان انہیں دیکھ کر کہے گا  Ma Bro ya finally here.Gimme hi five۔ (میرا بھائی آخر کار پہنچ ہی گیا۔ لا ایک تالی تو مار)۔

اقبال دیوان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 95 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments