اورنگ زیب عالمگیر کے فرامین اور ہندو مندر


’پاک سر زمیں‘ کے دارالحکومت ’اسلام آباد‘ میں آج کل ایک ہندو مندر کی تعمیر بارے گفت و شنید زوروں پر ہے۔ ’مجاہدین اسلام‘ اورچند موقع پرست سیاسی جماعتیں اپنے اپنے تیر اور جگر آزمانے میں مصروف ہیں۔ ایک دفعہ پھر ’اسلام خطرے میں ہے‘ کی دہائی ہے۔ بہرحال، اس سارے قضیے میں اس بات پہ تو سب متفق دکھائی دیتے ہیں کہ ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ میں غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کا ہر لحاظ سے تحفظ کیا جانا چاہیے۔

تنازع صرف اس بابت ہے کہ کیا کوئی مسلمان حکمران ایک نیا مندر تعمیر کروا سکتا ہے یا اس کے لیے مالی اعانت یا جگہ مہیا کر سکتا ہے یا نہیں؟ آئیے برصغیر کی تاریخ کے کچھ پنوں کو پلٹتے ہیں۔ اور یہ جانتے ہیں کہ در اس مسئلہ کے ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں نے کیا طور طریقہ اپنایا۔

اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں یہ یاد رہے کہ پاکستان کسی فتح کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہاں کوئی فاتح یا مفتوح نہیں ہے۔ پاکستان ایک ’قومی اور آئینی ریاست‘ ہے، جس میں بسنے والے تمام افراد، بلا کسی تفریق رنگ، نسل اور مذہب کے، برابر کے شہری ہیں۔ اور حکومت وقت سب شہریوں کی نمائندہ ہے۔

مسلم حکمرانوں نے ایودھیا، چترکوٹ، ماتھورا وغیرہ میں بہت سارے مندر اور مذہبی عمارتیں تعمیر کروائیں۔ مغل بادشاہ اکبر، جہانگیر نے مندروں کو بہت ساری جگہیں مہیا کیں۔ اکبر بادشاہ نے رامائن، مہابھارت اور بائبل کو فارسی میں ترجمہ کروایا۔ اودھ کے نوابوں نے ایودھیا مندر کے لیے بہت ساری گرانٹس مہیا کیں۔ نواب صفدر جنگ نے ایودھیا میں بہت سے مندر تعمیر کروائے۔

ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے جھانکتے نظر ایک مختصر لیکن انتہائی مفید کتاب پر جا اٹکی۔ کتاب کا عنوان ”ہندو مندر اور اورنگ زیب عالمگیر کے فرامین“ ہے۔ جو ڈاکٹر بشمبر ناتھ پانڈے المعروف ڈاکٹر بی۔ این۔ پانڈے سابق گورنر اڑیسہ کی تحقیق ہے اور جسے مولانا مفتی عطاء الرحمٰن قاسمی نے ترتیب دیا۔ اور مولانا آزاد اکیڈمی، نئی دہلی سے اس کو پہلی بار 2001 میں شائع کیا۔ آئیے اس کتاب کے چند اقتباسات سے ہندو مندروں بارے اورنگ زیب عاللمگیر اور ٹیپو سلطان کی خدمات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

”ڈاکٹر بی۔ این۔ پانڈے نے 29 جنوری 1977 کو جب ہندوستانی پارلیمنٹ میں انگریز مؤرخوں کی فتنہ پردازیوں و شر انگیزیوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے اورنگ زیب کو بت شکن اور ہندو کش ہونے کی بجائے مندروں اور گوردواروں کو جاگیریں اور عطیات دینے والا بادشاہ کے روپ کے طور پر پیش کیا تو تمام ارکان پارلیمنٹ پر سکتہ طاری ہوگیا اور کسی کے اندر ان کی مخالفت کی ہمت نہ ہو سکی تھی۔“

”عالمگیر اورنگ زیب اور شہید وطن ٹیپو سلطان، تاریخ ہند کی وہ مظلوم شخصیتیں ہیں جنہیں انگریز مؤرخوں اور برطانوی عہد کے ضلع گزیٹرکے مرتبوں نے بت شکن، ہندوکش اور ظالم و جابر بادشاہ کی حیثیت سے مشتہر اور متعارف کروایا ہے۔ اور سب سے تعجب خیز بات یہ ہے کہ آزاد ہندوستان کے غلام مؤرخوں نے اسے بلا چوں چرا قبول بھی کر لیا ہے۔ بقول مولانا شبلی ؔ

تمہیں لے دے کے ساری داستان میں یاد ہے اتنا
کہ عالمگیر، ہندوکش تھا، ظالم تھا، ستمگر تھا

حقیقت حال یہ ہے کہ ان دونوں حکمرانوں نے اپنے قلم رو میں ہندو رعایا کے ساتھ وہ حسن سلوک کیا ہے کہ جس کی نظیر تاریخ ہند میں نہیں ملتی۔ ”

”اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان کو متعصب اور تنگ نظر کہنے والے فاضل مؤرخین اور یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے دور حکومت میں مندروں اور گوردواروں کو جتنی جاگیریں دی گئی ہیں، شاید ہی کسی اور راجہ و مہاراجہ کے دور میں دی گئی ہوں۔“

لال قلعہ کے قریب جین مندر کے پجاری کو اورنگ زیب کی طرف سے باقاعدہ وظیفہ دیا جاتا تھا۔ چمپارن کا مشہور تاریخی مقام لوریا جو کبھی بدھ مت کا مرکز ہوا کرتا تھا اور جہاں مہاراجہ اشوک کی لاٹ پر دکھن جانب تقریباً ڈیڑھ فٹ اوپر کلمہ طیبہ کندہ گیا ہے اور اس کے بالکل برابر نیچے نہایت ہی عمدہ خط میں، محی اللدین اورنگ زیب عالمگیر غازی 1071 ہ کندہ ہے۔ عالمگیر نے جنٹپیا مٹھ، ارے راج مٹھ اور اندروا مٹھ کو ہزاروں جاگیریں دیں۔ ان کے اصلی مہنتوں کے پاس اورنگ زیب کے فرامین بھی محفوظ ہیں۔

سیتا کنڈھ کے نگران پنڈتوں کے بقول اورنگ زیب نے تقریباً 170 بیگھے زمین سیتا کنڈھ کے لیے وقف کی تھی۔

”صرف ہریانہ سے 300 اصلی فرامین برآمد ہوئے ہیں جو ایک چھوٹا سا صوبہ ہے تو پورے ہندوستان میں کتنے فرامین ہوں گے۔ اس کی صحیح تعداد کا اندازہ ہندوستان کے تمام مندروں اور گوردواروں کے سروے کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔“

اورنگ زیب نے اپنی خادمہ مس جولیا، جو کہ عیسائی تھی، کی شادی کے اخراجات اور اس کے عقیدہ و مذہب کے تحفظ کے لیے گرجا گھر کی تعمیر (جولینا گرجا گھر، مسیح گڑھ، نئی دہلی) اور آئندہ اخراجات کے لیے شاہی فرمان جاری کیا، جو کہ آج بھی نئی دہلی کے گول ڈاکخانہ چرچ میں آویزاں ہے۔

اورنگ زیب کے چند شاہی فرامین، جوسو میشور ناتھ مہا دیو مندر (الہ آباد) ، وارانسی جنگمیری شیوا مندر کو دی گئی جاگیروں سے متعلقہ ہیں، بھی ملے ہیں۔ اسی طرح مہا کالیشور مندر (اجین) ، بالا جی مندر (چترکوٹ) ، امانند مندر (گوہاٹی) ، جین مندر (شترنجیا) کے علاوہ اور دوسرے کئی منادر اور گوردوارے جو شمالی ہند میں بکھرے پڑئے ہیں۔ اس سب کے بارے فرامین عالمگیر کی طرف سے ( 1695۔ 1659 ) کے درمیان جاری ہوئے۔

1680 میں مہا راجہ دھیرج داجہ رام سنگھ کی عرضداشت پر ایک مذہبی معلم بھگوت گوسائیں، جو گنگا کنارے بنارس میں رہتا تھا، کو تنگ نہ کرنے کا شاہی فرمان جاری کیا۔

1672 میں جنگم جماعت (جنگم فرقے کو ماننے والا سائی طبقہ ) کو زمیں جو انہیں اکبر بادشاہ کے زمانے سے ملی تھی، اسی زمین کے حوالے سے عالمگیر نے بہت سارے شاہی فرمان جاری کیے کہ انہیں نقصان نہ کیا جائے۔ ایک دوسرے فرمان کے تحت جنگم جماعت کو 178 بیگھ قطعہ زمین دوبارہ لوٹائی گئی۔

1659 میں بنارس کے قدیم مندروں کے انچارج برہمنوں کی حفاظت کا شاہی فرمان جاری کیا۔ 1687 میں بنارس میں برہمنوں اور فقیروں کے لیے۔ 1691 میں بالا جی مندر کے اخراجات کے لیے آٹھ گاؤں اور کافی ساری ٹیکس فری زمین مہیا کی۔ 1698 میں ایک برہمن رنگ بھٹ کو رینٹ فری جگہ مہیا کی۔ الہ آباد اور بہارر میں بہت ساری جگہیں مہیا کیں۔ گجرات میں بہت سارے جین مندروں کی تعمیر کے لیے 1650 کی دہائی میں زمینیں الاٹ کیں۔

1687 کے ایک فرمان کی رو سے زمین بنارس گنگا کے کنارے بیت المال کے تصرف میں قطعات رام جیون گو سائیں اور اس کے فرزند کو بطور انعام عطا کیے تا کہ وہ ان قطعات زمین پر مقدس برہمنوں اور فقیروں کے لیے رہائشی مکان بنوائیں اور یاد الہی میں مصروف رہتے ہوئے ہماری مملکت خداداد کے لیے دعا کریں۔

آسام میں گوہاٹی کے امانند مندر کے دیوتاؤں پر چڑھاوے اور پجاری کے گزر بسر کے لیے زمین کا عطیہ اور جنگل کی آمدنی کی توثیق کی۔

اجین کا مہا کالیشور مندر، شیوا کے اہم منادر میں سے ایک ہے جہاں دن اوررات کے ہر لمحے ایک ”دیا“ جسے ”نندا دیپ“ کہتے ہیں روشن رہتا ہے اور اسے بجھنے نہیں دیا جاتا۔ عہد قدیم سے ہی اس دیے کو روشن رکھنے کے لیے مقامی حکومت کی طرف سے روزانہ چار سیر گھی مہیا کیا جاتا رہا۔ مندرکے پجاریوں کے کہنا ہے کہ مغل دور حکومت میں بھی یہ روایت قائم رہی یہاں تک کہ اورنگ زیب نے بھی اس قدیم روایت کی پاسداری کی اور شاہی فرمان جاری کیا۔

1685 میں ناگر سیٹھ، جس نے کسی جنگ میں اورنگ زیب کی مدد کی تھی، اس کی خدمات سے خوش ہو کر اس کو احمد آباد میں شترنجہ اور آبو کے مندروں کے تعمیر کے لیے زمین عطا کی۔

اسی طرح جونا گڑھ میں گرنار اور آبو جی کے پہاڑوں کو بھی 1660 میں شراوک فرقے کے ستی داس جوہری کو عنایت کیے۔

ڈاکٹر بی۔ این۔ پانڈے نے ٹیپو سلطان پر بھی معرکتہ الآرا کام کیا ہے۔ اور انگریزوں کی طرف سے ان پر عائد کیے گئے الزامات کا مدلل جواب دیا ہے۔ پروفیسر کانتیہ بتاتے ہیں کہ ٹیپو سلطان کا سپہ سالارر کرشنا راؤ برہمن تھا۔ اور اس کا وزیر اعظم پورنیہ بھی برہمن۔ پروفیسر کانتیہ نے 156 مندروں کی فہرست بھیجی جنہیں ٹیپو سلطان ہر سال تحفے اور چڑھاوا بھیجا کرتا تھا۔ خود ٹیپو سلطان کے میسور والے قلعہ میں جہاں ایک تاریخی مسجد ہے، وہاں ایک قدیم سری رنگناتھ کا عظیم الشان مندر بھی ہے۔

کتاب میں عالمگیر کے ’بنارس فرمان‘ کی بھی وٖضاحت کی گئی ہے۔ اور وشوناتھ مندر بنارس (کچھ کی مہارانی کے ساتھ مندر میں زیادتی ہونے کے سبب) اور جامع مسجد گولکنڈہ (تانا شاہ کا شاہی محصول جمع کر کے زمین میں دفن کر کے اوپر مسجد بنانا) کے انہدام کا اصل سبب بھی کتاب میں مذکور ہے۔

کتاب کے آخر میں عالمگیر اورنگ زیب کی طرف سے بطور تبرک بارہ اماموں کے نام پر کی گئی بارہ وصیتوں کا فارسی متن اور اس کا ترجمہ بھی شائع کیا گیا ہے جو پڑھنے لائق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments