پاک ترک دوستانہ تعلقات بڑھانے والے اب رخصت ہوا چاہتے ہیں
ترک استاد شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ ان میں یہ افواہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ ترک حکومت دو دن کے اندر اندر ان کے پاسپورٹ منسوخ کر سکتی ہے۔ وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ایسا ترک سٹاف جس کے پاس پاکستان کا ویزا موجود ہے، اس کو بھی ملک سے نکل جانے کا حکم دیا جا چکا ہے۔ اب تقریباً تمام سٹاف اپنا سامان ایک دن کے اندر اندر اونے پونے بیچ کر ملک سے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ اپنے دوستوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ ان کا سامان بکوانے میں ان کی مدد کی جائے۔ آج دو جگہ ہم بھی سامان خریدنے گئے۔ شاپنگ کر کے آدمی ہمیشہ خوش ہوتا ہے، مگر یہ زندگی کی وہ پہلی شاپنگ تھی جس میں دل شدید اداسی اور کرب کا شکار ہوا۔
اچانک اپنے بھرے پرے گھر کو کوڑیوں کے مول بیچ ڈالنا کتنا مشکل ہوتا ہو گا؟ یہ ان دکھیاروں کے چہروں پر لکھا ہوا تھا۔ پہلے گھر میں ایک استاد ملے۔ ان کی دو ڈھائی سال کی بچی ہے۔ جب سامان کا سودا ہونے پر گاہک سامان لے جانے لگے تو بچی بلک بلک کر رونے لگی۔ اس کا اپنا سامان لے جانے کا کسی غیر کو کیا حق تھا؟ ان کو کہا کہ پیسے آپ ابھِی لے لیں، آپ نے ڈالر خریدنے ہوں گے، سامان ہم اس وقت لے جائیں گے جب آپ پاکستان چھوڑیں گے۔ مگر اس ماں نے نہ جانے کس دل سے اپنی بچی کو ایک طرف کیا اور گاہکوں کو زبردستی سامان تھما کر رخصت کیا۔ بچی کو ہم اپنی ٹوٹی پھوٹی ترکی زبان میں تسلی دلاسہ دیتے رہے کہ تم جہاز پر بیٹھ کر جا رہی ہو، اور جہاز میں یہ سامان نہیں آ سکتا ہے، اس لئے چھوڑنا پڑ رہا ہے، جہاز میں تمہیں بہت مزا آئے گا۔
استاد کے چہرے پر ایسی پریشانی تھی جو ہم نے زندگی میں کم ہی چہروں پر دیکھی ہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہمیں پتہ ہے کہ آپ کی حکومت پر بہت پریشر ہے۔ مگر آپ بہت بڑا ظلم کر رہے ہیں۔ میں نے زندگی کے پندرہ برس پاکستان کے بچوں کو پڑھانے پر لگائے ہیں۔ ان سکولوں میں ہمارا خون پسینہ اور خواب شامل ہیں۔ یہ سکول چلتے رہیں اور ان سے اعلی اخلاق و کردار کے حامل بچے نکلتے رہیں تو یہی ہماری کامیابی ہے۔ مگر مجھے یہی اندیشہ ہے کہ یہ بند کر دیے جائیں گے۔ آپ کی حکومت ہمیں جانے کے لئے مناسب مہلت دیتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ اب ایک دن میں ہم کیسے اپنا پندرہ برسوں کا بنایا ہوا سامان ٹھکانے لگائیں۔ آپ کے پاس پانچ ماہ سے ہماری ویزے کی درخواستیں پڑی ہیں اور آپ اچانک ہمیں بتاتے ہیں کہ آپ کو تین دن کے اندر اندر ملک چھوڑنا ہے۔ ہم پاکستان کے متعلق کیا سوچیں گے، اس کا آپ کی حکومت کو کچھ خیال ہے؟ ہم کیا جواب دیتے، چپکے ہو رہے۔
دوسرے استاد بظاہر خوب حوصلے میں تھے۔ ان کا تبادلہ ابھی تین ماہ پہلے ہی اندرون سندھ سے لاہور ہوا تھا اور یہاں آ کر انہوں نے بالکل نیا نکور اعلی کوالٹی کا بیش قیمت سامان خرید کر اپنا گھر سجایا تھا۔ انہوں نے ایک گاہک کو محض دو ماہ پہلے نوے ہزار کا خریدا ہوا ڈش واشر بیس ہزار میں فروخت کیا۔ باقی سامان بھی ایسے ہی گیا۔ ان سے ہم نے کچھ سامان خریدا۔ بچوں کے دو کھلونوں کے سیٹ بھی تھے جن کے ابھی ریپر بھی نہیں اترے تھے۔ وہ امریکہ سے آتے ہوئے اپنی تین اور چار سالہ بیٹیوں کے لئے لائے تھے جن کے نصیب میں یہ نہیں تھا۔ انہوں نے جھجھکتے ہوئے درخواست کی کہ یہ کمبل اور میٹرس وغیرہ آپ اگر بعد میں لے جائیں تو ہم ایک دو راتیں ان کو استعمال کر لیں گے کہ موسم اب سرد ہو چکا ہے۔ ابھی ہمیں یہی نہیں پتہ ہے کہ ہمیں ویزے میں توسیع مل جاتی ہے یا پرسوں ہم نے ملک چھوڑ دینا ہے۔ ہم بحیثیت پاکستانی شرمندہ ہو کر یہی کہہ پائے کہ آپ پیسے ابھی لے لیں اور ڈالر میں کنورٹ کروا لیں۔ سامان جب تک آپ چاہیں استعمال کریں، بلکہ ہمارے گھر سے بھی کسی شے کی ضرورت ہو تو ہم حاضر ہیں۔ اور جب تک آپ پاکستان سے چلے نہیں جاتے ہیں، یہ سارا سامان آپ کی امانت کے طور پر ہمارے پاس موجود ہے، اگر ویزا مل گیا تو سامان آپ واپس لے لیں۔
ان ترکوں کو شکوہ اس بات کا نہیں ہے کہ ان کو پاکستان سے کیوں نکالا جا رہا ہے۔ ان کو شکوہ اس نامناسب عجلت کا ہے جس سے کام لے کر ان کو نکالا جا رہا ہے۔ انہیں صاحب نے بتایا کہ منسٹری کا جو حکم نامہ ان کی ملک بدری کے متعلق ہے، اس پر 11 تاریخ ثبت ہے اور اس میں 20 تاریخ تک ملک چھوڑنے کا کہا گیا ہے، مگر یہ ان کو 16 تاریخ کو دیا گیا۔ بظاہر یہ تاریخ صدر ایردوان کے دورے کے دن کی مناسبت سے رکھی گئی تھی۔ پاکستانی حکومت کو یہ سوچنا چاہیے کہ 2001 سے لے کر 2013 تک فتح اللہ گولن اور رجب طیب ایردوان اتحادی تھے، پچھلے تین سال سے اختلافات چل رہے ہیں، اگر ان میں دوبارہ کوئی سمجھوتہ ہو گیا تو پھر پاکستان کہاں کھڑا ہو گا؟ جب دو بھائیوں میں کوئی جھگڑا ہو اور باہر کا کوئی تیسرا شخص فریق بنے، تو یہی دیکھا گیا ہے کہ چند دن بعد دونوں بھائی پھر مل جاتے ہیں اور تیسرا فریق ان دونوں کی نگاہوں میں مجرم ٹھہرتا ہے۔
یہ بچارے نوے ہزار کی چیز بیس ہزار میں بیچ رہے ہیں۔ مگر وہاں ایسے افراد بھی دیکھے جو کہ اس چیز کے پانچ ہزار کے دام لگا رہے تھے۔ ایک صاحب کو دیکھا کہ وہ ایک استاد سے اس بات پر لڑ رہے تھے کہ پرسوں جو چیز آپ سے لینے کا میں نے کہا تھا، وہ آپ کسی دوسرے کو پہلے ہی فروخت کر چکے ہیں، آپ کو میرا انتظار کرنا چاہیے تھا۔
سنہ 2010 یاد آتا ہے جب صدر ترک جمہوریہ عبداللہ گل پاکستان تشریف لائے تھے۔ ’میں پاک ترک سکولوں کا پاکستان اور ترکی کے مابین بے مثال دوستانہ تعلقات اور بھائی چارہ قائم کرنے میں اپنا حصہ ڈالنے پر اظہار ممنونیت کرتا ہوں۔ میں اپنے (پاک ترک سکول کے ان) تمام اساتذہ کے لئے ان کی جدوجہد میں کامیابی کے لئے دعا گو ہو اور مجھے کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا پاکستان کی خوشحالی اور ترقی میں خدمات سرانجام دیں گے‘۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ ترکی کا صدر، وزیراعظم، سپیکر، وزیرخارجہ، ممبران اسمبلی کا وفد، کوئی بھی پاکستان آتا تھا تو پاک ترک سکولوں کا چکر ضرور لگاتا تھا اور پاک ترک تعلقات میں قربت لانے پر ان کی خدمات کا اعتراف کرتا تھا۔ عبداللہ گل، رجب طیب ایردوان، احمد داؤد اولو، جمیل چیچک، کس کس کا نام لیا جائے؟ مگر پھر تعلقات بگڑے تو پاک ترک تعلقات میں قربت لانے کی بجائے یہ سکول پاکستان کے لئے مہیب خطرہ قرار پائے۔
ترک حکومت کے شدید دباؤ پر یہ سکول بند کر دیے گئے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق ان سکولوں کے اہلکاروں نے مئی سے ہی ویزے میں توسیع کے لئے اپلائی کرنا شروع کر دیا تھا مگر ان کو حکومت پاکستان کی طرف سے یہی جواب ملتا رہا کہ ہم غور کر رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اچانک ملک بدری کے حکم کے خلاف پیٹیشن دائر کی گئی تو پہلے تو وزارت خارجہ کی طرف سے ویزا افسر پیش ہوئے۔ ہائی کورٹ نے برہمی کا اظہار کیا تو دوپہر ڈھلے ایک جوائنٹ سیکرٹری آئے اور انہوں نے کورٹ کو بتایا کہ ان کے پاس 22 جون سے لے کر اگست تک پاک ترک کے سٹاف کی جانب سے ویزا میں توسیع کی کسی بھی درخواست کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
افسران نے عدالت کو بتایا کہ ان کو منسٹری نے درخواست دہندگان کی درخواست فاضل جج کے ریمارکس کے ساتھ وصول کر لی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ چھے دن کے اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم نامناسب ہے۔ اس پر عدالت نے درخواست دہندگان کو حکم دیا کہ وہ وزارت خارجہ سے دوبارہ رجوع کریں۔
اب دیکھیں کیا لکھا ہے ان بدنصیبوں کی قسمت میں۔
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).