نظام چل نہیں رہا تو ریلوے کیا چلے گا!


ملک میں ریلوے حادثات کثرت کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں، لیکن ہر حادثے کے بعد چند افراد کو او ایس ڈی اور چند کو ملازمت سے برطرف کر کے وزارت ریلوے ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو جاتی ہے، حالانکہ ایسے حادثات کے محرکات کی تہہ تک جا کر اس کا مستقل حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ حالیہ حادثے میں بغیر پھاٹک کراسنگ پر ڈرائیور کی جلدی بازی کے باعث سکھ برادری کے افراد پر مشتمل کوسٹر کراچی سے آنے والی شاہ حسین ایکسپریس کی زد میں آ گئی، حادثے میں 8 خواتین اور بچوں سمیت 22 افراد لقمہ اجل بن گئے، اگرچہ اس حادثے میں بظاہرکوسٹر وین ڈرائیور کی غلطی ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ریلوے کراسنگ پر جب پھاٹک ہی موجود نہیں تو پھر ڈرائیور کو ٹرین آنے کا کیسے پتہ چلے گا۔

ملک بھر میں تین ہزار سے زائد ریلوے کراسنگ ہیں، جن میں سے دو ہزار تین سو بیاسی ریلوے کراسنگ پر کوئی اہلکار ہی موجود نہیں، اگر محکمہ ریلوے ایسی کراسنگ پر پھاٹک یا جنگلے لگاتا ہے، جہاں پر ریلوے کا کوئی ملازم موجود نہیں تو لوگ اٹھا کر لے جاتے ہیں، دوسری اہم بات محکمہ ریلوے دو ہزار تین سو بیاسی ریلوے کراسنگ پر جنگلے یا پھاٹک لگاتا ہے تو اس پر 38 سے 42 ارب روپے کی لاگت آئے گی، جبکہ ریلوے پہلے ہی خسارے میں چل رہی ہے۔ اس لئے صوبائی حکومتیں اپنی حدود میں ریلوے پھاٹک نصب کریں، ہر ضلع کی حکومت اپنی حدود میں عوام کے جان و مال کی حفاظت یقینی بنانے کی آئینی طور پر پابند ہے، اس لئے اگر ضلعی سطح پر پھاٹک نصب کرنے کا کام کیا جائے تو اس سے ریلوے پر بھی بوجھ نہیں آئے گا اور آئے روز کے حادثات سے بھی بچا جا سکتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ رواں سال ریلوے پھاٹکوں پر متعدد حادثات ہو چکے ہیں، جن میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں، کہیں پھاٹک نہ ہونا، کہیں ٹرین کی آمد پر پھاٹک کھلا رہنا اور کہیں ڈرائیوروں کی غفلت بھاری جانی نقصان کا سبب بنی ہے جو انتہائی افسوسناک ہے، کیونکہ ریلوے پھاٹکوں پر جہاں ریلوے ملازمین سے ذمہ داری کے مظاہرے کی توقع کی جاتی ہے، وہیں راہگیروں اور ڈرائیوروں کو بھی انتہائی محتاط رہنا چاہیے اور آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں، کیو نکہ وزارت ریلوے نے تو متعدد حادثات ہونے کے باوجود اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور کوئی ان سے سوال کرنے والا نہیں ہے کہ شیخوپورہ کے قریب کراسنگ پر پھاٹک کیوں نہیں تھا اور اس حادثے کی ذمے داری کس پر عاید ہوتی ہے، یہ ممکن ہے کہ وزیر ریلوے شیخ رشید کہہ دیں کہ پھاٹک لگوانا ان کی ذمے داری نہیں اور مسافروں کی وین کے ڈرائیور نے آتی ہوئی ٹرین کو کیوں نہیں دیکھا۔

اسی طرح وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا وہ کوئی کانٹا بدلنے والے ہیں اور یہ کانٹا تو خود کار تھا، ان کا کیا قصور ہے، ہر حادثے کے بعد ان کے پاس گھڑے گھڑائے سیاسی جوابات مو جود ہوتے ہیں، لیکن سیاسی جوابات سے وقتی طور پر عوام سے جان تو چھڑائی جاسکتی ہے، لیکن عوام کی قیمتی زندگیوں کو محفوظ نہیں بنایا جاسکتا۔ وزیر اعظم نے فوری حادثے کی رپورٹ طلب کی ہے، مگر رپورٹ آنے کے بعد جب تک موثر حکمت عملی کے ساتھ ذمہ داروں کو نشان عبرت نہیں بنایا جائے گا، حادثات ایسے ہی ہوتے رہیں گے۔

وزیر ریلوے شیخ رشید ابھی کورونا وائرس سے صحت یاب ہوئے ہیں، لیکن انہوں نے نئی زندگی ملنے کے بعد بھی اپنا قبلہ درست نہیں کیا ہے، آج بھی انہیں اپنی وزارت سے زیادہ تحریک انصاف حکومت کا تر جمان بننے کی فکر ہے، اسی لیے مائنس ون کی بجائے مائنس تھری کا فار مولا پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ شیخ رشید اپنی سات وزارتوں کی دھائی تو ڈالتے ہیں، مگر اپنی وزارتوں کی کار کردگی پر روشنی ڈالنا پسند نہیں کرتے ہیں، ان کے نئے دور وزارت میں ٹرینوں کے کئی حادثے ہو چکے ہیں اور بطور وزیر تمام حادثوں کی ذمے داری انہی پر عاید ہوتی ہے، مگر کسی ایک حادثے کی ذمہ داری لے کر استعفیٰ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کوریا کی مثال دی تھی کہ جہاں ایک کشتی الٹنے سے کئی افراد ڈوب گئے تو وزیراعظم نے استعفا دے دیا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم تو کشتی نہیں چلا رہے تھے، لیکن پھر بھی ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا، مگر ہمارے ہاں ٹرینوں کے حادثے ہوں یا ہوائی جہازوں کے، نہ وزیراعظم نے استعفا دیا، نہ وزیر ریلوے اور نہ ہی وزیر ہوا بازی نے، جس کی ایک حماقت نے پوری فضائی صنعت کا بیڑا غرق کر کے رکھ دیا اور کوئی قومی نقصان پر شرمندگی بھی نہیں ہے۔

بلا شبہ پاکستان کی سکھ برادری کے ساتھ پیش آنے والا متذکرہ سانحہ المناک ہے، پا کستانی عوام سکھ برادری کے غم میں برابر کے شریک ہیں، لیکن حکومت کو اس حادثے کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے جہاں ذمہ داروں کو نشان عبرت بنانا ہے، وہیں اپنی کوتاہیوں پر موثر حکمت عملی سے قابو بھی پانا ہو گا۔ ریلوے حادثات دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں اور حکومت اپنے محدود وسائل کا رونا روتے ہوئے چشم پوشی کا مظاہرہ کررہی ہے، عوام کی جانیں داؤپر لگی ہیں اور حکومت ایک کے بعد ایک رپورٹ عوام کے سامنے پیش کر کے سر خرو ہونے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔

عوام کو محض رپورٹ سے نہ بہلائیں، بلکہ عملی اقدامات بھی ہوتے نظر آنے چاہیے۔ وزیراعظم اپنی ہی پیش کردہ مثالوں پر خود کب عمل کرنا شروع کریں گے، خوشامد پرست اور نا اہل وزراء سے بہتر کار کردگی کی امیدیں لگانا خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں، وزارتیں بدلنا مسائل کا حل نہیں، با صلاحیت نئی ٹیم کا انتخاب ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ریلوے میں ایک کے بعد ایک بڑے حادثات ہو رہے ہیں، مگروزیر ریلوے شیخ رشید کا حال دیکھیں کہ ریلوے کا نظام تو سنبھلتا نہیں، وہ محکمے میں مزید ڈیڑھ لاکھ بھرتیوں کا اعلان کر رہے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ سیاسی بھرتیوں کی بجائے پہلے جہاں ریلوے کراسنگ ہے، وہاں پھاٹک لگوا دیں اور کانٹے کے خراب خود کار نظام پر کوئی کانٹے والا مقرر کر دیں، تاکہ ریلوے حادثات میں کسی حدتک تو کمی لائی جاسکے، مگرجہاں خود کار نظام حکومت نہیں چل رہا تووہاں ریلوے کا کیا چلے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments