پاکستان میں صحافتی کتب کا المیہ


پاکستان میں صحافت سے وابستہ اور اس سے دل چسپی رکھنے والے کچھ سمجھ دار اور باشعور لوگ اکثر اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ آج کے صحافی یا صحافی ہونے کے دعویدار اکثر لوگ صحافتی قدروں سے ناواقف ہیں اور اپنے منہ میاں مٹھو بنے رہتے ہیں۔ ان کی اکثریت دائیں بازو کے قوم پرستانہ اور مذہبی کے ساتھ ساتھ تنگ نظر فرقہ وارانہ سوچ کی حامل ہے۔

صحافت کی بنیادی اقدار جن میں تنگ نظری اور قوم پرستانہ رویوں سے نجات شامل ہیں موجود نہیں۔ اکثر صحافی مذہبی اقلیتوں کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتے ہیں اگر پاکستان میں غیر مسلموں کے ساتھ زیادتی ہوتو اس کی خبریں دبائی جاتی ہیں۔ خاص طور پر اردو اخبارات میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف مہمیں چلائی جاتی ہیں اور باقاعدہ ضمیمے اور ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں جن میں ریاستی بیانیے کو للکارنے کے بجائے اسے تقویت پہنچائی جاتی ہے۔

اس مضمون کے پہلے حصے میں ہم چند ایسی کتابوں کا جائزہ لیں گے جو پاکستان میں بیچلرز اور ماسٹرز کی سطح پر طلبا و طالبات کو پڑھائی جارہی ہیں۔ یہ ایک مختصر جائزہ ہے جس میں تمام کتابوں کی شمولیت کا دعویٰ نہیں کیا جا رہا اس مضمون کے دوسرے حصے میں ہم دیکھیں گے کہ عام درسی کتب کے علاوہ کون سی صحافتی کتب ہیں جن کا مطالعہ صحافت کے طالب علم اور صحافیوں کو ضرور کرنا چاہیے تاکہ ان میں وسعت نظر پیدا ہو اور وہ روایتی ریاستی بیانیے سے مختلف سوچ سکیں۔

پاکستان میں صحافت پڑھنے والوں کے لیے بہت سی کتابیں موجود ہیں مگر ان میں زیادہ تر غیر ملکی مصنفین کی تحریر کردہ ہیں۔ یہ درسی کتابیں صحافت پر عمومی گفت گو کرتی ہیں اور ان کا تجزیاتی مرکز پاکستان نہیں ہوتا۔

پاکستان کی جامعات میں پڑھائی جانے والی صحافت کی کتابوں میں برصغیر میں صحافت کے ارتقا پر کافی بات کی جاتی ہے مثلاً عبدالسلام خورشید نے اردومیں درجنوں کتابیں لکھی ہیں ان کی دو کتابیں ”داستان صحافت“ اور ”صحافت پاک و ہند میں“ زیادہ تر اردو میں پڑھنے والے طلبا و طالبات کو بیچلرز اور ماسٹرز کی ڈگری کورس میں پڑھائی جاتی ہیں۔

ڈاکٹر عبدالسلام خورشید کا پی ایچ ڈی مقالہ جو راقم کے پاس موجود ہے اس کا عنوان تھا ”نیوز لیٹرز ان دی اورینٹ“ یعنی ”مشرق میں نیوز لیٹرز“ ۔ یہ پی ایچ دی انہوں نے یونیورسٹی آف ایمسٹرڈیم سے کی تھی۔ ڈاکٹر عبدالسلام خورشید 1950 سے 1980 تک تقریباً تیس سال جامعہ پنجاب میں صحافت پڑھاتے رہے اور ان کی کتابوں کی مجموعی تعداد سو سے زیادہ بتاتی جاتی ہے۔

ان کے علاوہ ایک اور بڑا نام مسکین علی حجازی کا ہے جو خود بھی درجنوں کتابیں لکھ چکے ہیں۔ مگر خورشید اور حجازی کی کتابوں کا المیہ یہ ہے کہ ان میں صحافت کی تاریخ اور تکنیکی نکات تو مل جاتے ہیں مگر ان میں آپ کو پاکستان میں صحافیوں کی جدوجہد کے بارے میں کچھ نہیں ملتا۔ مثلاً مسکین حجازی کی کتاب ”فن ادارت“ بہت بکتی ہے مگر اس میں آپ کو کوئی تنقیدی نقطہ نظر نہیں ملتا۔ یہی حال انور سدید کی کتابوں کا ہے۔

مثلاً انور سدید کی اردو کتاب ”پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ“ اکادمی ادیبات نے 1992 میں شائع کی مگر اس میں کسی ایک باب میں بھی پاکستان میں رسائل پر لگائی جانے والی پابندیوں کا ذکر نہیں ہے۔ اسی طرح عابد مسعود تہامی نے ایک درسی کتاب ”جرنلزم“ لکھی جو پہلی بار 1987 میں شائع ہوئی اور اس کے بعد اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں بھی کوئی تنقیدی پہلو نہیں ہے بلکہ دائیں بازو کے ایک مخصوص نقطہ نظر کو بڑھاوا دیا گیا ہے مثلاً بعنوان ”اسلام کا نظریہ صحافت“ میں لکھتے ہیں۔

”اسلام میں ذرائع ابلاغ کا بنیادی مقصد خیر کو پھیلانا، شرکو مٹانا اور حق کی شہادت اور گواہی دینا ہے اور اس کے علاوہ صحیح تعمیری خیریں اطلاعات اور نظریات کو پیش کرنا ہوتا ہے تاکہ امت مسلمہ کو اس دنیا کا بہترین علم حاصل کرنے کے قابل بنایا جائے جس میں رہتے ہوئے انہوں نے اسلام کے پیغام کو پوری دنیا میں پھیلانا ہے“ (کتاب کا نام ”جرنلزم“ مصنف عابد مسعود تہامی، مطبوعہ عظیم اکیڈیمی اردوبازار لاہور اشاعت ہشتم 1993 )

پھر آگے چل کر قرآن کے حوالوں سے لکھتے ہیں۔

”جو لوگ اسلامی نطریہ ابلاغ کی حقانیت و صداقت پر یقین نہیں رکھتے ان کے متعلق واضح انداز میں قرآن پاک میں ہے کہ منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے سے ہیں۔ وہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے منع کرتے ہیں“ (سورة توبہ آیت 67 )

مزید آگے تعلیم و تربیت کے زیر عنوان لکھتے ہیں۔

” اسلامی ذرائع ابلاغ کی اہم ذمہ داری یہ ہے کہ عوام کو اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تربیت دی جائے۔ فحش اور عریاں تصویروں، غیر مہذب اور اخلاق باختہ لٹریچر ڈرامے اور فلمیں عوام کے اخلاق و کردار کو بگاڑنے کا ذریعہ ہیں، ان سے حتی الامکان اجتناب کرنا چاہیے۔“ (صفحہ نمبر 61 )

تہامی صاحب نے اس بات کی وضاحت نہیں کی اخلاق باختہ سے ان کی کیا مراد ہے۔ آگے ایک اور باب کا عنوان ہے ”پاکستان میں آزادی صحافت“ اس میں ضیا دور کا ذکر صرف سات سطروں میں کیا گیا ہے جو یہ ہیں۔

” جنرل ضیا الحق کی فوجی حکومت کے قیام کے دو سال کے عرصے میں اخباروں کو کچھ آزادی ملی، اس دوران لاہور سے ایک انگریزی اخبار“ دی سن ”اسلام آباد سے“ دی مسلم ”کا اجرا ہوا۔ اکتوبر 1981 کا لاہور سے روزنامہ جنگ شائع کیا گیا اس کے علاوہ کئی علاقائی اخبارات بھی نکلے اور کئی اخباروں کی بندش بھی عمل میں آئی ان میں مساوات بھی شامل ہے۔ اکتوبر 1979 سے نومبر 1981 تک پری سنسر شپ کا سلسلہ جاری رہا۔ پریس ایڈوائس بھی برقرار رہی پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی نے اپنی ایک تقریب میں جنرل صدر ضیا الحق کی توجہ صحافتی مسائل پر دلائی جس پر انہوں نے ان مسائل کو حل کرنے کا وعدہ کیا۔“ (صفحہ 68 )

اس طرح تہامی صاحب جنرل ضیا الحق کے دور میں صحافت پر لگائی جانے والی شدید قدغنوں اور اس کے مقابلے میں صحافیوں کی عظیم جدوجہد کو بالکل گول کرگئے اور نہ ہی ان سینکڑوں صحافیوں کا کوئی تذکرہ ہے جو جیلوں میں گئے اور جنہوں نے کوڑے کھائے مگر آزادی صحافت کا علم بلند رکھا۔ اس طرح صحافت کی تاریخ بیان کرتے ہوئے انہیں برصغیر کی صحافت میں صرف مسلمان نام نظر آتے ہیں جب کہ ہندو صحافیوں کی طویل تاریخ اور جدوجہد کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔

ایک اور کتاب روشن آرا راؤ کی ”مجلاتی صحافت کے ادارتی مسائل“ ہے جو مقتدرہ قومی زبان نے پہلے 1989 اور پھر 1998 میں شائع کی جب اس کے صدر نشین افتخار عارف صاحب تھے۔ یہ کتاب ایم اے ابلاغیات کے لیے تحریر کی گئی تھی جس کو بڑی پذیرائی ملی۔ اس کتاب میں بھی صحافت پر پابندیوں کا سرسری ذکر ہے اور صحافتی جدوجہد کو تو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے اور صحافتی آزادی کے لیے لڑنے والے صحافیوں کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

اس کتاب کے چوتھے باب میں قیام پاکستان سے 1987 تک کے ادارتی مسائل کا جائزہ صرف بیس صفحات میں پیش کیا گیا ہے جب کہ پوری کتاب تقریباً چار سو صفحات کی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے چالیس سال میں ادارتی مسائل کا بیان کرتے ہوئے جن مسائل کا بار بار ذکر کیا وہ ہیں، سرمایے کہ کمی، جدید مشینری کا فقدان، کاغذ اور سامان کی طباعت کی کمی، تعلیمی معیار کی بدحالی، محدود قارئین، نئے موضوعات کا فقدان، مختلف حلقوں کے اختلافات، حکومتوں کا عدم تعاون، صحافتی قوانین اور پابندیاں۔

ان میں آخر الذکر یعنی صحافتی قوانین اور پابندیوں کا صرف دو چار صفحات میں ذکر کیا گیا ہے اور وہ بھی اس طرح کے اصل سیاسی استبداد اور آمرانہ جبر کا قارئین کو اندازہ ہی نہ ہو سکے۔ مثلاً صفحہ نمبر دو سو پر ”1977 سے 1987 تک مجلاتی صحافت کے مسائل“ کے زیر عنوان مصنفہ روشن آرا راؤ لکھتی ہیں۔

”1976 میں ملک سیاسی بحران کا شکار ہوا۔ بے چینی کی اس فضا اور ماحول میں زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح مجلاتی صحافت بھی متاثر ہوئی۔ اس کش مکش کا نتیجہ جولائی 1977 کا مارشل لا بنا۔ سیاسی سرگرمیاں ختم ہونے سے سیاسی مجلات بھی پس منظر میں چلے گئے۔ بھٹو حکومت کے سیاسی نظریات کے حامی مجلات کی گنجائش بالکل ختم ہوگئی۔ نئی حکومت سے نطریاتی ہم آہنگی رکھنے والے مجلات کا لب و لہجہ نرم ہوا اور بعض سیاسی مجلات نے مصلحتاً چولا بدلا۔ پالیسی کی اس تبدیلی سے رسالوں کی ساکھ متاثر ہوئی۔ سیاسی سرگرمیاں ختم ہونے سے سیاسی مجلات کی ضرورت بھی ختم ہوچکی تھی۔ دوسری طرف ڈائجسٹ رسالے اس ضرورت کو تیزی سے پورا کرنے لگے۔ علمی اور ادبی مجلات کے ٹھوس موضوعات کی گنجائش پہلے ہی محدود ہوچکی تھی۔ ”

ملاحظہ کیا آپ نے یعنی ”صحافت متاثر ہوئی“ اور ”مجلات پس منظر میں چلے گئے۔“ پھر ”مجلات کی گنجائش ختم ہوگئی“ گویا سیاسی سرگرمیاں خود بخود ختم ہوگئیں۔ جن کے نتیجے میں سیاسی مجلات کی ضرورت بھی خود ختم ہوگئی۔ مصنفہ نے کہیں بھی جمہوریت کے غیر قانونی خاتمے، سیاسی سرگرمیوں پر آمرانہ فوجی پابندیوں اور صحافت اور اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ یعنی ان کتابوں کو پڑھ کر اگر کوئی صحافی بن جائے تو اس کو خاک پتہ ہوگا کہ پاکستان میں صحافت کے مجاہدوں نے کیا قربانیاں دی ہیں اور کس طرح لڑائی لڑی ہے۔

محترمہ روشن آرا راؤ صاحبہ اپنی کتاب ”مجلاتی صحافت کے ادارتی مسائل“ مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان کے صفحہ نمبر 201 پر لکھتی ہیں۔ 1977 کے بعد  ”پروگریسو خیالات کے حامل مجلات لیل و نہار، نصرت، صدائے وطن ’اور‘ الفتح“ بند ہوچکے ہیں۔ ”چٹان“ ، زندگی ”اور بادبان کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ہفت روزہ“ چٹان ”ڈمی بن چکا ہے۔ اردو ڈائجسٹ حکومت کی پالیسی سے مطابقت کے سبب اپنا مخالفانہ رویہ بدل چکا ہے“

”گویاسب واقعات خود بخود ہوتے رہے۔ آگے لکھتی ہیں۔“ مارشل لا حکومتوں کے دوران عوام کے مزاج کا خاص انداز بنتا ہے۔ سیاست سے کنارہ کشی کی بنا پر عوام میں ذوق و شوق لگن باقی نہیں رہتا ”۔

اس کتاب میں کوئی ذکر نہیں کہ کن مجلات پر کب پابندیاں لگائی گئیں کس طرح ان کے مدیریوں اور دیگر صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہاں البتہ ایک دو ایسے واقعات کا ذکر ضرور ہے جن کا سیاست سے تعلق نہیں۔ مثلاً ماہنامہ ”طالب علم“ قاسم محمود کی ادارت میں کراچی سے شائع ہوتا تھا اس پر پابندی لگاتے ہوئے الزام لگایا گیا کہ یہ مجلہ فحش اور قابل اعتراض مواد شائع کرتا ہے۔

ہوا یوں تھا کہ قاسم محمود نے ”طلسم ہوش ربا“ کو قسطوں میں شائع کرنا شروع کیا۔ ہوش ربا کی قسط نمبر 23 پریس میں تھی کہ نومبر 1979 کا سنسر شپ آ گیا۔ جس نے طلسم ہوش ربا ”کو فحش قرار دے کر بند کرا دیا۔ اسی طرح مارشل لا کی حکومت سندھ نے راجندر سنگھ بیدی کے افسانے“ گرہن ”کو بھی فحش قرار دے دیا۔

اس ادب دشمن رویے کو پڑوان چڑھانے میں ڈاکٹر سید عبداللہ جیسے ”دانش وروں“ کا بڑا ہاتھ تھا جنہوں نے ماہنامہ ”اوراق“ کے سالنامے جنوری، فروری 1980 میں ”اردو ادب چند اصولی باتیں“ کے زیر عنوان لکھا۔

ڈاکٹر مہدی حسن (ساہیوال جیل 1962)

”خلوص و صداقت کے ضمن میں یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ ہمارا ادب بہت سی بنیادوں پر اجنبی تصورات و نظریات (بلکہ غیر ملکی زندگی) کی ترجمان کرتا ہے اور کوئی ادب اس وقت تک اپنا ادب نہیں سمجھا جاسکتا جب تک اس میں اپنے ملی یا قومی وجود کے قدرتی اور فطرتی احساسات منعکس نہ ہوں۔“ (روشن آرا راؤ کی کتاب صفحہ نمبر 207 )

اس طرح مصنفہ نے مجموعی رویے کی نشان دہی تو کردی ہے مگر صحافتی جدوجہد کو کوئی ذکر نہیں کیا۔

اسی طرح کی ایک اور کتاب احسن اختر ناز کی تحریر کردہ ”صحافتی ذمہ داریاں“ ہے جو مقتدرہ قومی زبان نے 1990 میں صدر نشین جمیل جالبی کی سرپرستی میں شائع کی۔ اس کتاب کے تیسرے باب ”صحافتی نظریات“ میں اسلامی نظریہ ابلاغ کے زیر عنوان یہ تحریر ملاحظہ کیجیے۔

”خدا نے جب حضرت آدم کو تخلیق کیا تو اس کے نزدیک مقصد یہ تھا کہ یہ میری بندگی کرے گا اور میرا پیغام دوسری مخلوق تک پہنچائے گا۔ اس طرح دنیا کے پہلے انسان کو سب سے پہلا فریضہ ابلاغ کا ہی سپرد کیا گیا۔ بعد میں آنے والے تمام انبیائے کرام اور پھر نبی اخر الزماں کی ذمہ داری بھی خدا کی طرف سے یہی تھی۔ اس طرح اسلام کا نظریہ ابلاغ سب سے پہلا نظریہ ابلاغ ہے جو مقصد انسانیت ہے۔“ (صفحہ 25 )

کتاب میں جگہ جگہ اس بات کو دہرایا گیا ہے کہ صحافت یا ابلاغ کا اصل مقصد معاشرے میں مذہب کا بول بالا کرنا ہے۔ فحاشی و عریانی کو روکنا اور اسلامی حدود کو نافذ کروانا ہے۔ احسن اختر ناز اپنی کتاب ”صحافتی ذمہ داریاں“ کے چھٹے باب میں لکھتے ہیں۔

”پانچ جولائی 1997 کو ایک نئی مارشل لا حکومت برسراقتدار آ گئی جس کے صرف سات روز بعد صدر ضیا الحق نے اعلان کیا کہ اگر ضابطہ اخلاق بنالیا جائے اور صحافت کا صحیح معیار قائم ہو جائے تو سارے قوانین ختم کردیے جائیں گے۔ نئے مارشل لا کے ضابطوں اور پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈی ننس کی موجودگی کے باوجود حکومت اور صحافت کے مابین بہتر تعلقات کی کوشش ہوتی رہی۔ 1979 سے 1980 میں حکومت اور سی پی این ای اور حکومت کے باقاعدہ اختیار یافتہ نمائندوں نے ایک معاہدے پر دست خط کیے جس میں ضابطہ اخلاق کا مکمل متن بھی شامل ہے اور اس کی خلاف ورزی پر سزا دینے کے لیے بینچ کی تشکیل کا اقرار بھی کیا گیا۔“ (صفحہ نمبر 72 )

اس طرح آپ دیکھ سکتے ہیں 1977 کے بعد کے برسوں میں ہونے والے آمرانہ جبر کو کس خوبصورتی سے الفاظ میں چھپایا گیا ہے جیسا کہ کوئی صحافتی مزاحمت نہیں ہوئی کوئی جیل نہیں گیا اور کسی نے کوڑے نہیں کھائے۔ یہ ہے ہماری مقتدرہ قومی زبان کی صحافتی درسی کتاب، جو 1990 میں شائع ہوئی اور اس کتاب میں بھی صحافت کے مسائل کے باب میں مالی مشکلات، خواندگی کم شرح، کم قوت خرید اور کاغذ کی گرانی وغیرہ کا زیادہ ذکر ہے اور ریاستی جبر و استبداد اور اظہار رائے کی آزادی کو بہت کم۔

پھر ایک پورا باب ”صحافت کا اسلامی ضابطہ اخلاق“ ہے۔ جس میں قرآن وسنت کی روشن میں صحافت کرنے پر زور دیا گیا۔ مثلاً صفحہ نمبر ایک سو گیارہ پر ”کھوج سے گریز“ کا مشورہ اس طرح دیا گیا ہے۔

”اور تجسس نہ کیا کرو اور تم سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے“ (سورة الحجرات 12 )
”جو شخص مسلمانوں کے عیب ڈھونڈنے کے در پے ہوگا اللہ اس کے درپے ہو جائے گا۔“ (حدیث نبوی ابوداؤد)
”جو لوگ چاہتے ہیں کہ فحاشی پھیلے و ہ دنیا اور آخرت میں درد ناک سزا کے مستحق ہیں“ (سورة النور 109 )
احسن اختر ناز اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 115 میں لکھتے ہیں۔

”ایک مسلمان صحافی کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ صرف اپنی ذاتی زندگی ہی اسلام کے احکام و تعلیمات پر عمل نہ کرے بل کہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض میں بھی اس بات کو ہمیشہ ملحوظ رکھے کہ اس کا قلم اور زبان ٹھیک ٹھیک اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کے لیے استعمال ہوں۔ یوں ایک مسلمان صحافی کا کردار دعوت دین کے ایک داعی اور مبلغ کی طرح ہوتا ہے جو صرف آخرت میں اپنی نجات کو پیش نظر رکھتا ہے۔“

آگے صفحہ ایک سو اٹھارہ پر لکھتے ہیں۔ ”جنس اور حسن کی طرف راغب کرنے والی تصویریں شائع کرنا یا پیش کرنا اور لذت کا سامان پیدا کرنا سراسر غیر اسلامی فعل ہے۔ پالیسی سازوں کو اپنی تمام نشریات ترتیب دیتے وقت ہمیشہ اسلامی احکام کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

اس طرح پوری کتاب میں جگہ جگہ رقص وموسیقی کو بے ہودہ قرار دیا گیا ہے۔ عشق و عاشق کی بھی مذمت کی گئی ہے اور ڈراموں اور گانوں کو بھی ملعون کہا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments